قومی اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے ڈھیلی ڈھالی تقریر سنتے ہوئے احساس ہوا کہ ان کے قریبی مشیروں کو شاید علم نہیں ہے کہ دنیا بھر میں اگر کوئی قوم ایسی صورت حال کا شکار ہوتی ہے تو ان کے سربراہ کی باڈی لینگوئج کیا ہوتی ہے؟ اس قوم کے لیڈر کو خاصی ریہرسل کرائی جاتی ہے کہ اس نے عوام میں جا کر کیا اور کس انداز میں کہنا ہے۔ اس کی باڈی لینگوئج کیا ہونی چاہیے۔ ایک ایک لفظ پر محنت کی جاتی ہے۔ اگر وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے لوگ تھوڑی سی محنت کرتے تو گوگل پر جا کر برطانوی وزیراعظم چرچل کی تقریر پڑھ کر ہی میاں صاحب کو کچھ لکھ کر دے دیتے کہ ایسی صورت حال میں قوم کے اندر ایک نئی لہر پیدا کرنے کے لیے کس طرح کے لفظوں کا انتخاب کیا جاتاہے اور کس انداز میں جوش و خروش کے ساتھ ان لفظوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ بڑے لیڈر کبھی لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے بلکہ اسے زبانی یاد کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ زبانی تقریر کا اثر لکھی ہوئی تقریر سے ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے بھٹو صاحب کی 14اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پڑھی تھی‘ جب ملک ٹوٹ چکا تھا اور یہ پہلا اجلاس تھا۔ یہ لکھی ہوئی تقریر نہیں تھی بلکہ بے ساختہ کی گئی تھی ۔ میرا خیال ہے وہ تاریخ کی چند بہترین تقریروں میں سے ایک ہے۔ عوام کی طرح لیڈروں کا بھی مسئلہ ہے کہ وہ کچھ نہیں پڑھتے۔ چلیں چرچل کی تقریریں نہ پڑھیں‘ کم از کم قومی اسمبلی میں موجود بھٹو صاحب اور دیگر اہم لیڈروں کی اہم موقعوں پر کی گئی تقریریں ہی پڑھ لیں تو بہت مدد مل سکتی ہے۔ کوئی بھی پیدائشی جینیئس نہیں ہوتا بلکہ وقت، تجربہ اور مطالعہ انسان کو بڑا بنا دیتے ہیں۔ جس انداز میں میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کی‘ اس سے مایوسی ہوئی۔ وزیراعظم سے زیادہ پرجوش تو قوم ہے جس پر کسی بھی جوابی حملے کے براہ راست اثرات پڑیں گے۔ دہشت گردی میں عوام ہی مارے جاتے ہیں۔ ضرورت تھی کہ بہادر قوم کو پیغام دیا جائے کہ ان کا لیڈر بہادر ہے اور ڈٹ کر کھڑا ہے‘ لیکن نواز شریف کے الفاظ کی ادائیگی متاثر کن نہیں تھی۔
اب جب کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے تو ضروری ہے کہ دیکھا جائے‘ ہم آج اس حال تک کیسے پہنچے ہیں اور ہمیں وہ غلطیاں دوبارہ نہیں دہرانی چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل کیانی تین سال ڈی جی آئی ایس آئی اور چھ سال آرمی چیف رہے لیکن وہ طالبان کو ختم نہ کر سکے۔ شاید اس کی وجہ ہماری فوج کا یہ رومانس تھا کہ وہ افغانستان میں اپنی اسٹریٹیجک گہرائی قائم رکھیں گی۔ بھارت کے ساتھ ہم نے پراکسی وار افغانستان کے راستے لڑنے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دھیرے دھیرے دنیا سے الگ ہوتے گئے۔ دنیا ہم سے ڈر گئی اور ہم اسے ڈراتے ہی چلے گئے۔ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ ہم نے ڈبل گیم شروع کی ۔ ہمارے دانشوروں نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ ہم روس کو شکست دے چکے ہیں اور امریکہ بھی شکست کھا کر لوٹ رہا ہے۔
میری یہاں امریکہ میں بھی کچھ دوستوں سے بحث رہی کہ کیا امریکہ افغانستان سے شکست کھا کر لوٹ رہا ہے یا شکست دے کر؟ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تیرہ سال قبل امریکہ پر حملہ ہوا تھا‘ نہ کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ کے پاس دو میں سے ایک آپشن تھا کہ وہ یہ جنگ امریکہ میں بیٹھ کر لڑے یا پھر جہاںسے حملہ آور آئے تھے وہاں جا کر لڑے۔ امریکیوں نے افغانستان جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور ان تیرہ برسوں میں انہوں نے دوبارہ امریکہ میں ایک بھی حملہ نہیں ہونے دیا اور یہ امریکہ کی اس جنگ میں فتح ہے‘ جسے ہمارے دانشور شکست سمجھتے ہیں۔ امریکہ کا مقصد مستقبل میں اپنے شہریوں کو ایسے حملوں سے محفوظ رکھنا تھا اور وہ اس میں اب تک کامیاب رہاہے۔ امریکیوں کو افغانستان کی شکل میں اڈے ملے جو وہ اب ایران، پاکستان، بھارت، چین، روس اور خطے کے دیگر ممالک پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب زمینی جنگوں کا دور نہیں رہا۔ سب کو علم ہے کہ ڈرون بھی امریکہ سے بیٹھ کر آپریٹ کیے جاتے ہیں۔ ہم ابھی تک سمجھتے ہیں کہ زمینی فوج ہی جنگ لڑ سکتی ہے اور بہادر وہی ہوتے ہیں جو زمین پر لڑتے ہیں۔ امریکی چوبیس برس قبل عراق پر فضائی حملوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ دور لد گیا جب آپ کو بھاری زمینی فوج کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی لیے امریکہ نے افغانستان میں اپنے اڈے قائم کر کے مستقل طور پر یہاں رہنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ ہم لاکھ کہتے رہیں کہ امریکی شکست کھا کر لوٹ رہے ہیں‘ یہ بات درست نہیںہے۔ وہ افغانستان میں اب بھی ڈرون کے ذریعے جنگ جاری رکھیں گے اور کبھی ہمیں اپنے ''اچھے‘‘ طالبان کے ذریعے افغانستان کو فتح نہیں کرنے دیں گے۔ اس لیے ہمیں یہ بات ذہن میں بٹھانی پڑے گی کہ امریکہ کے افغانستان سے لوٹنے کا مقصد یہ نہیں ہے وہ اس ملک کو چھوڑ کر جارہے ہیں اور ہمارے لیے اچھا موقع ہے کہ ہم
جا کر اس پر قبضہ کر لیں۔ افغانستان نہ ہمارا تھا‘ نہ ہے اور نہ ہوگا ۔ ہمیں اپنے آپ کو سمجھانا ہوگا کہ بہتر یہ ہے بھارت سے تعلقات بہتر کر کے اس خمار سے نکلا جائے کہ ہم افغانستان میں پختونوں کی حکومت قائم کر کے ان سے کام نکالتے رہیں گے۔ پاکستان کو کوئی بھی کابل میں اپنی مرضی کی حکومت قائم نہیں کرنے دے گا ۔بہتر ہوگا کہ ہم اپنے اوپر بھی رحم کریں اور افغانوں پر بھی جو اپنی بیوقوفیوں اور ہماری پالیسیوں کی وجہ سے بہت بھگت چکے۔ لاکھوں افغانی مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ افغان نئے الیکشن میں شریک ہوچکے ہیں۔ انہیں اس وقت سکون کی ضرورت ہے۔ اسامہ جیسے لوگوں کو اپنے ہاں مہمان بنانے کی غلطیوں کی وہ کافی سزا بھگت چکے ہیں۔ افغانستان میں سکون لوٹنے دیں۔ محمود خان اچکزئی کے آج کل کے انداز سیاست کا مخالف ہونے کے باوجود میں ان کی اس بات کا قائل ہوں کہ ہمیں اس رومانس کو ختم کرنا ہوگا کہ ہم نے پوری اسلامی دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ کیا پاکستان میں کسی کو پتہ ہے کہ فلسطین کے صدر محمود عباس کی بیوی کا آپریشن اسرائیل کے ایک ہسپتال میں ہوا ہے؟ یہودی ڈاکٹروں نے اس کی جان بچائی ہے۔ فلسطین کے کسی شہر میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا کہ ان کے صدر کی بیوی کا علاج ایک اسرائیلی ہسپتال میں ہورہا ہے۔ ساری عرب دنیا نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات درست کر لیے‘ مگر ہم پھر بھی اس ٹھیکداری سے دستبرداری ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ ہم نے دنیا کو درست کرنا ہے۔ اگر ہم کچھ کر سکتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا ۔ ہمیں اپنے آپ سے لڑنا ہوگا ۔ دنیا میں ایک ذمہ دار قوم کے طور پر ابھرنا ہوگا ۔ پاکستانی مائوں نے بچوں کو اس لیے نہیں جنا کہ وہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ہمارے کچھ ریٹائرڈ دفاعی مبصرین کے بوسیدہ خوابوں کی قیمت ادا کرتے رہیں‘ جو کبھی جلال آباد فتح کرنا چاہتے تھے اورنہ کر سکے اور اس کا بدلہ اپنی قوم اور اس کے بچوں سے آج تک لے رہے ہیں ۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایک نیا مستقبل دینا ہوگا ۔ ہمیں افغان بچوںپر بھی رحم کرنا ہوگا۔ کافی ہوگیا ۔ تیس برس ہم نے جنگ دیکھ لی۔ اب عراق اور شام میں جو کچھ ہورہا ہے‘ اس کے بعد ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ پوری دنیا کو فتح کرنے کا ٹھیکہ لیے رکھیں۔ بہتر ہوگا کہ اب یہ ٹھیکہ کچھ اور مسلمان ملکوں کے حوالے کر دیا جائے کہ وہ اس نیک کام کو آگے بڑھائیں۔ ہم نے اپنے حصے سے زیادہ قربانیاں دے دی ہیں۔ اب ہمیں بریک چاہیے۔ہماری نسلوں کو بریک چاہیے۔ ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ اس ملک کے لیے کون کون کیا کیا قربانی دینے کو تیار ہے...؟ اگر اندازہ نہیں ہے تو پھر اس پیغام کو پڑھیں جو ایک نوجوان شادی شدہ خاتون ماہین جبران نے ٹویٹ کیا ہے۔ وہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے ناقد کو جواب دیتے ہوئے لکھتی ہیں:
I am not "waar" monger. My husband is fighting in this operation. You can understand my emotions. But, Pakistan is first priority.
پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کا لہو بہانے والے افغان ، ازبک ، تاجک اور دیگر غیر ملکی حملہ آور اور افغانستان کو فتح کرنے کے رومانس میں گرفتار ہمارے کچھ دانشور اور ریٹائرڈ دفاعی مبصرین اپنے جھوٹے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کے چکر میں اس ملک کے رومانس میں ڈوبی ماہین جبران جیسی بہادر بچیوں کو اور کتنے امتحانوں سے گزاریں گے؟