آج کل امریکہ کے مقبول ترین صدر میں سے ایک‘ جان ایف کینیڈی کی لکھی ہوئی کتاب Profiles in Courage پڑھ رہا ہوں ۔ یہ کتاب بالٹی مور میں پرانی کتابوں کی دکان سے تین ڈالرز میں خریدی تھی ۔ کینیڈی نے کچھ کرداروں کے بارے لکھا ہے جن کی بہادری نے اسے متاثر کیا تھا ۔
کینیڈی کی کتاب میں دلچسپ دیباچہ وہ ہے جو اس کی بیٹی کیرولین کینیڈی نے لکھا جو اس وقت جاپان میں امریکی سفیر ہیں۔
بیٹی لکھتی ہے کہ اس کے باپ نے انہیں ساری عمر یہ بات سکھائی تھی کہ پبلک سروس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ اس طرح کبھی یہ نہ سوچیں‘ ملک آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے بلکہ یہ سوچیں آپ ملک کے لیے کر سکتے ہیں؛ تاہم مجھے کیرولین کے اس فقرے نے متاثر کیا ہے کیسے بعض دفعہ جان بوجھ کر حب الوطن سیاستدانوں کوایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جس سے ممکن ہے ان کا کیریئر ختم ہوجائے لیکن وہ خطرات مول لیتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے وہ فیصلہ ملک اور عوام کے لیے اہم تھا ۔
کیرولین کے بقول ایسے فیصلے بہادر لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
اپنی اس بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کیرولین لکھتی ہے: صدر نکسن کو واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ نئے صدر فورڈ کو ابھی وائٹ ہاوس میں تیس دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا‘ آیا نکسن کے خلاف واٹر گیٹ سکینڈل پر کارروائی کرنی ہے یا پھر اسے معاف کرنا ہے۔
کیرولین کے خیال میں صدر فورڈ کے لیے یہ معمولی فیصلہ نہیں تھا ۔ امریکی عوام نکسن کے خلاف ایکشن چاہتے تھے۔ تاہم صدر فورڈ سوچ رہا تھا اس زخم کو اب کھرچنے کا نہیں بلکہ بھرنے کا وقت تھا ۔ صدر فورڈ کو احساس تھا وہ اکیلا یہ زخم بھر سکتا تھا ۔ اسے یہ بھی پتہ تھا اگر اس نے صدر نکسن کے خلاف ایکشن نہ لیا تو وہ دوسری دفعہ صدر نہیں بن سکے گا اور اسے عوام کے غصے کا شکار ہونا پڑے گا ۔ تاہم صدر فورڈ کے خیال میں یہ قربانی دیے بغیر امریکہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اقتدار کے پہلے تیس دنوں میں صدر فورڈ نے فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے چار برس بعد دوبارہ صدر کا الیکشن لڑنا تھا یا نہیں۔فورڈ نے سوچا وہ دوبارہ صدر نہیں بن سکتا تو نہ بنے لیکن اسے وہ فیصلہ کرنا ہوگا جو امریکہ اور عوام کے مفاد میں تھا۔ فورڈ نے نکسن کو معاف کیا اوروہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔چار برس بعد وہ جمی کارٹر سے ہار کر گھر چلا گیا ۔
اگرچہ پاکستان میں لوگ میری اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے لیکن پوچھنے میں کیا ہرج ہے ۔۔؟
کیا پاکستان میں کوئی ایسا سیاستدان گزرا ہے جس نے ایسے فیصلے کیے ہوں جو پاکستان کے مفاد میں ہوں اورامریکی صدر فورڈ کی طرح اپنے اوپر اقتدار کا دروازہ بند کر لیا ہو ؟چلیں ماضی میں کوئی نہ کر سکا۔ کیا یہ کام اب پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف نہیں کر سکتے جو تین دفعہ وزیراعظم بن چکے ہیں؟ نواز شریف ایک موقع تو پہلے ہی ضائع کر چکے ہیں جب وہ لندن سے لوٹے تھے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف سے میرا بڑا اچھا تعلق رہا لیکن ان کے پاکستان لوٹتے ہی میری ان سے ہمدردیاں ختم ہو گئی تھیں اور کبھی ملنے تک کا جی کیوں نہیں چاہا ۔ شاید میرے لاشعور میں یہ بات تھی کہ نواز شریف اس ملک میں نئی شروعات کر سکتے تھے جیسی صدر فورڈ نے کی تھی ۔ انہیں کچھ مشکل فیصلہ کرنے تھے ۔ ان فیصلوں کی وجہ سے ممکن تھا وہ تیسری دفعہ وزیراعظم نہ بن سکتے۔ انہیں یہ رسک لینے چاہیے تھے۔
نواز شریف دن رات لندن میں صحافیوں کو قسمیں کھا کر بتاتے تھے اب وہ پاکستان میں نئی شروعات کریں گے۔ آمروں کے ساتھیوں کو کبھی قریب نہیں آنے دیا جائے گا ۔ اقتدارکی نہیں بلکہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے سیاست ہوگی۔
اور پھر کیا ہوا؟ ان سب سیاسی نالائقوں کو گلے لگایا گیا جو جنرل مشرف کے بازو تھے۔ ہمیں چڑانے کے لیے انہیں ہی وزیر بنایا۔ ہر وہ کام کیا جس کی نہ کرنے کی لندن میں قسمیں کھائی جاتی تھیں ۔وزیراعظم نواز شریف کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ کابینہ میں جنرل مشرف کے ساتھیوں کو شامل کرنے کی بجائے ان پر مقدمہ چلاتے اور ایک اعلیٰ اخلاقی پوزیشن لیتے تو شاید پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فوجی آمر کو سزا ہوتی اور نئی شروعات ہوتیں ۔
میاں نواز شریف کو یہ بھی فیصلہ کرنا تھا کہ وہ حکومت میں اپنے خاندان کو دور رکھیں گے کیونکہ یہ بیس برس پرانا پاکستان نہیں تھا۔ وزیر اور وزیراعلیٰ بننے کے لیے بھائی، سمدھی، داماد ، بیٹی، بھانجا ، بھتیجا اور صرف کشمیری ہونا ہی کوالی فکیشن نہیں ہوگا۔ یہ مشکل فیصلہ تھا لیکن درست فیصلہ یہی ہوسکتا تھا۔
انہیں فوراً نئے صوبے بنانے چاہیے تھے۔ ضلعی حکومتوں کو خودمختار کرنے کے لیے میاں شہباز شریف کو مجبور کرنا چاہیے تھے۔ یقینا انہیں خبردار کیا جاتا کہ وہ اپنے پائوںپرکلہاڑی مار رہے ہیں لیکن انہیںپھر بھی سیزر کی طرح بروٹس کے ہاتھوں یہ ''کٹ‘‘ لگوانا چاہیے تھا‘ چاہے ان کا سیاسی کیریئر ختم ہی کیوں نہ ہوجاتا۔ چاہے پارٹی اگلے الیکشن ہار جاتی اور وہ تیسری دفعہ وزیراعظم نہ بن سکتے۔
اس ملک کا مفاداس میں تھا کہ ضلعی حکومتوں میں ہر ضلع کو اوسط دس ارب روپے سالانہ این ایف سی حصہ ملنا چاہیے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کہنا چاہیے تھا اگر وہ چاہیں تو لوکل لیول پر جا کر سیاست کریں۔ ناظم بنیں۔ضلعی حکومتوں کو کامیاب کریں۔ لوگوں کو تربیت دیں۔ نوے ہزار منتخب کونسلرز کو سیکھنے دیں کہ حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔ ہر ضلع اپنا بجٹ خود بنائے، خرچ کرے۔ اپنے منصوبے خود بنائے نہ کہ لاہور میںبیٹھا ایک کرپٹ بابو ایک کاغذی پلان بھیج کر بتائے کہ اس نے اگلے سال کیا نہیں کرنا۔
ممکن تھا میئر اور ناظم کی وجہ سے نواز لیگ کے ارکان اسمبلی اگلا الیکشن نہ جیت پاتے۔ مقامی لیول پر بدمعاشی اور غنڈہ گردی ختم ہوجاتی۔ وہ استانیاں، استاد، تھانیدار، پٹواریوں اور ڈاکٹرز کے تبادلے نہ کرا سکتے اور نہ ہی مخالفوں کو تھانوں میں پٹوا سکتے۔ انہیں کوئی گھاس نہ ڈالتا اور وہ روتے رہتے... لیکن یہ سب عوام کی فلاح کے لیے ضروری تھا۔ ممکن تھا وہ کرپٹ بیوروکریٹس جنہوں نے اس ناظم سسٹم کو ختم کرایا تھا وہ بھی روتے رہتے۔ انہیں رونے دیا جاتا اور کہا جاتا کہ اگر سول سروس میں رہنا ہے اور عوام کے ٹیکسز سے تنخواہیں اور بھاری مراعات لینی ہیں تو پھر سب کام عوام کے مفاد میں کرنا ہوگا وگرنہ گھر جانا ہوگا ۔
یہ سب کچھ نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان ڈوب رہا ہے۔ وہ خود کامیاب رہے اور تیسری دفعہ وزیراعظم تو بن گئے لیکن عوام اور معاشرہ نقصان میں رہا۔ یہ سب کچھ اس طرح نہیں چل سکے گا ۔ زرداری صاحب نے سب سیاستدانوں اور دوستوں کو جمہوریت کے نام پر عیاشی کرائی۔ عوام سمجھ بیٹھے شاید نواز شریف دور میں انہیں اقتدار میں حصہ ملے گا۔ لیکن فائدہ صرف شریف خاندان اور ہمارے کشمیری بھائیوں کو ہی ہوا ۔
میں پھر کہتا ہوں کہ پانچ سال پورے کرنے ہیں اور ملک کو بچانا ہے تو شریف برادران کو مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے ان فیصلوں کی وجہ سے ان کی پارٹی دوبارہ الیکشن نہ جیت سکے۔ انہیں نئے صوبے فوری بنانا ہوں گے۔ طاقتور ضلعی حکومتیں لانا ہوں گی چاہے ان کے سیاسی مخالف ہی کیوں نہ جیت جائیں۔ انہیں خاندانی اور کاروباری دوستوں کو اقتدار سے دور رکھنا ہوگا۔ این ایف سی کے سترہ سو ارب روپے پاکستان کے ایک سو چھ اضلاع میں تقسیم کرنے ہوں گے اور انہیں استعمال کا حق دینا ہوگا۔
ہو سکتا ہے سب اسے دیوانے کا خواب سمجھیں ۔
لیکن یہ معجزے اسی آسمان تلے ہوچکے ہیں۔ صدر بننے کے ایک ماہ بعد فورڈ نے فیصلہ کر لیا تھا وہ دوبارہ صدر نہیں بن سکتے اور نہ بنے۔
وزیراعظم نواز شریف کو قدم بڑھانے کا بڑا شوق ہے لیکن کیا وہ یہ قدم اٹھا سکتے ہیں جس سے ممکن ہے وہ چوتھی دفعہ وزیراعظم نہ بن سکیں اور ان کے خاندان اور کاروباری دوستوں کو نقصان ہو لیکن ملک اور عوام کو فائدہ ہو جائے؟
نواز شریف صاحب کے لیے جان ایف کینیڈی کی وہ بات پھر دہرائے دیتا ہوں کہ یہ نہ پوچھیں ملک آپ کے لیے کیا کرسکتا ہے، بلکہ یہ پوچھیں آپ اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں !!