سابق صدر زرداری ان دنوں بقول ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی‘ امریکہ کو وعدہ یاد دلانے آئے ہیں کہ پاکستان میں پندرہ برس تک سیاستدانوں کو کھلی چھٹی ہوگئی اور مارشل لاء نہیں لگے گا ۔
پندرہ برس لوٹ مار کے اس معاہدے کے پہلے چھ برس تو بڑے آرام سے گزر گئے ہیں تاہم نو ابھی رہتے ہیں لہٰذا زرداری صاحب اب امریکہ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اگلے نو برس بھی بقول میرے دوست سعید قاضی کے‘ یہ ''رشتہ دار اور ٹھیکیدار فرینڈلی جمہوریت‘‘ اسی طرح چلتی اور دن رات ترقی کرتی رہے اور چند خاندان باری باری لوٹتے رہیں ۔
زرداری صاحب کی امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن سے ملاقات سے مجھے پرانی کہاوت یاد آئی ہے کہ پاکستان کو اللہ ، آرمی اور امریکہ چلا رہے ہیں ۔
جہاں تک زرداری صاحب کے بائیڈن سے ملنے کی بات ہے تو میں اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ ایک ماہ پہلے تک میں نائب امریکی صدر سے بہت متاثر ہو سکتا تھا لیکن جب سے امریکہ کا ایک مشہور شو ہائوس آف دی کارڈز کی پہلی سیریل دیکھنا شروع کی ہے، میرے دل سے بائیڈن کا رعب اتر گیا ہے۔ جن لوگوں کو سیاست سے دلچسپی ہے اور یہ جانتا چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے سیاستدان کیسے ایک طرح ہی سوچتے ہیں اور سیاست کو عوام سے زیادہ ذاتی مفادات کا ذریعہ سمجھتے ہیں، انہیں یہ شو ضرور دیکھنا چاہیے۔ صحافی اور سیاستدان کیسے ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی اس شو میں آپ کو نظر آئے گا اور صحافیوں اور سیاستدانوں کے ایک دوسرے سے جن تعلقات کو دکھایا گیا ہے، میں اس سے بڑی حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں۔
اس پاپولر سیاسی ٹی وی سیریز کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے حیرانی ہے کہ زرداری امریکہ کو وعدہ یاد کرانے آئے ہیں کہ 2008ء میں یہ طے ہوا تھا کہ پاکستان میں پندرہ برس تک مارشل لاء نہیں لگایا جائے گا اور شہلا رضا فرماتی ہیں گارنٹر اور کوئی نہیں ڈی جی آئی ایس آئی (جنرل کیانی) تھے اور یہ سب کچھ این آر او کے تحت طے کیا گیا تھا۔
واقعی صدر زرداری یہ سمجھتے ہیں کہ امریکیوں نے اس طرح کا کوئی وعدہ کیا ہوگا اور اگر تھا بھی تو وہ اب اس پر پوری طرح عمل کرائیں گے؟
اگر امریکہ جنرل مشرف کو نہیں بچا پا رہا تو صدر زرداری کا کیا خیال ہے وہ امریکہ سے پانچ برس مزید لے آئیں گے؟ جو کچھ جنرل مشرف نے امریکہ کے لیے کیا ہے شاید پاکستانی حالیہ تاریخ میں کسی نے بہت کم کیا ہوگا لیکن یہی امریکہ تھا جس نے مشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کیا۔
2007ء میں وائٹ ہاوس میں جنرل مشرف کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس ہوا تو صدر بش کو یہ مشورہ دیا گیا کہ مشرف سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے تو سب نے حمایت کی۔ وزیردفاع رمز فیلڈ جنہوں نے جنرل مشرف کو چند قیمتی پستول بھی تحفے کے طور پر دیے تھے، نے خبردار کیا کہ جنرل مشرف کو نہ چھیڑا جائے۔ بش بھی ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں تھے کہ جنرل مشرف سے وردی اتارنے کا کہا جائے۔ تاہم اس دوران بینظیر بھٹو کنڈولیزا رائس کی منت ترلوں کے بعد انہیں قائل کر چکی تھیں کہ بہتر ہوگا کہ جنرل مشرف سے وردی اتروا کر جنرل کیانی کو نیا آرمی چیف بنایا جائے اور جنرل کیانی اپنا ایک انٹرویو بینظیر بھٹو کو لندن میں دے چکے تھے اور وہ این آر او کے گارنٹر بھی تھے۔ کنڈولیزا رائس نے بھی اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے لکھ دیا ہے کہ کیسے انہوں نے بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی ایک دوسرے سے ڈیل کرائی تھی اور وردی اتری ۔
یہی وجہ تھی زرداری چاہتے تھے کہ اقوام متحدہ کا انکوائری کمشن کنڈولیزا رائس سے بھی سوال و جواب کرے کہ ان کی اہلیہ کو کس نے قتل کیا تھا۔ تاہم رائس نے ملنے سے انکار کر دیا تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی میں ڈیل صدر بش کی ٹیم نے کرائی تھی اور اب وقت صدر اوباما کا ہے۔ کیا بش کی کرائی گئی یقین دہانی پر اوباما عمل کرائے گا اور کیوں؟
ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ یقین دہانی کے وقت زرداری صاحب نے یہ سوچ لیا تھا کہ ان پندرہ برس میں وہ پاکستان کی سیاست اور اداروں کو اتنا مضبوط کر دیں گے کہ پھر مارشل لاء کی ضرورت نہیں پڑے گی اور جمہوریت کا سفر مضبوطی سے چل پڑے گا ؟
زرداری صاحب کے ہی دور میں جو ملک کا حشر کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ذرا زرداری صاحب کے ایک میڈیکل ڈاکٹر دوست عاصم حسین کے کارنامے ہی دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کس طرح کا کھیل جمہوریت کے نام پر کھیلا گیا۔ کیسے راتوں رات وہ ارب پتی بنے اور کسی میں جرأت نہ ہوئی کہ انہیں ہاتھ لگا سکتا ۔ 80 سے زیادہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز رجسٹرڈ کر کے ملک کی میڈیکل ایجوکیشن کا بیڑا غرق کرنے والے بھی ڈاکٹر عاصم حسین ہی تھے۔ سی این جی کے ذخائر ختم ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی حکومت کے آخری روز ڈاکٹر عاصم حسین اور راجہ پرویز اشرف نے ستر سی این جی لائسنس جاری کیے اور مال کمایا۔ اگرچہ نواز شریف اور ان کے خاندان‘ برادری اور دوستوں کی حکومت نے ملک اور قوم کا ایسا حشر کیا ہے کہ اب زرداری حکومت بہتر لگنے لگی ہے۔ تاہم اب اچانک ایسا کیا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ زرداری صاحب کو امریکہ کی ضرورت پڑگئی ہے؟ تو یہ بات مان لی گئی ہے کہ سیاستدان مزید اس ملک کو نہیں چلا سکتے لہٰذا امریکہ سے مدد مانگی جائے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری امریکیوں کی آنکھ میں بہتر سیاستدان ثابت ہوئے ہیں جس کا اندازہ ہلیری کلنٹن کی نئی کتاب ہارڈ چوائسز پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں جب انہوں نے زرداری کو فون کیا کہ اسامہ بن لادن مارا جا چکا ہے تو انہوں نے فلاسفر کی طرح جو گفتگو کی اس سے ہلیری نے بڑا گہرا سانس لیا تھا۔ اگر امریکی پاکستانیوں کی کوئی خفیہ فائل رکھتے ہیں تو یقینا ہلیری کلنٹن نے ان کے بارے میں اچھے ریمارکس بھیجے ہوں گے کہ فائل کے ساتھ لگادیے جائیں۔
اگرچہ زرداری صاحب کو بہت پہلے سمجھ آگئی تھی کہ اپنی ساری سمجھداری، عقلمندی اور رعب دبدبہ صرف پاکستانیوں پر ہی چلانا ہے۔ وگرنہ امریکیوں کے آگے بڑے مودب بن کر پانچ سال گزار گئے ہیں۔ زرداری صاحب کو پتہ تھا کہ بینظیر اور انہوں نے بڑی مشکل سے بش انتظامیہ تک رسائی حاصل کی تھی اور اس کے لیے حسین حقانی نے بہت مدد کی تھی ۔ لہٰذا وہ دوبارہ کوئی ایسا پنگا نہیں لینا چاہتے تھے جس سے ان کی فائل میں نیگیٹو ریمارکس ڈال دیے جائیں۔ زرداری صاحب کو علم تھا کہ پاکستان میں اللہ ، امریکہ اور فوج کو ناراض کر کے حکومت نہیں کی جا سکتی ۔ اس سلسلے میں بھٹو صاحب کی مثال موجود تھی جنہوںنے مولویوں کو خوش کر کے اللہ کو خوش کرنے کی کوشش کی لیکن آرمی اور امریکہ کو ناراض کر بیٹھے اور جان سے گئے۔ اس لیے زرداری صاحب اللہ کے نام پر روزانہ کالے بکرے قربان کرتے تھے۔ اسلام آباد میں یہ لطیفہ مشہور ہوگیا تھا۔ ایوان صدر کے ملازم جب قریبی گائوں کا رخ کرتے تو کالے بکرے سرکاری گاڑی دیکھ کر ہی رسی تڑوا کر بھاگ جاتے۔ یہ ان ہی کالے بکروں کی ہی مہربانی تھی کہ پانچ سال گزار گئے۔
زرداری صاحب نے فوج کو بھی خوش رکھا اور جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو کھلا ہاتھ دے رکھا تھا۔ جنرل پاشا کا جی چاہا تو وہ لندن گئے اور زرداری کے پیارے حسین حقانی کے خلاف منصور اعجاز سے ثبوت لے آئے اور کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ وہ جنرل پاشا سے پوچھتے کہ آپ لندن کس کی اجازت سے گئے تھے؟ اس طرح جنرل کیانی نے زرداری اور گیلانی کی حکومت کے خلاف براہ راست سپریم کورٹ میں جوابات داخل کرائے اور پھر بھی زرداری صاحب مسکراتے رہے کیونکہ وہ طے کر چکے تھے کہ انہوں نے ہر صورت فوج کو خوش کرنا ہے۔
تیسری قوت جس کو زرداری صاحب نے خوش رکھا وہ امریکہ تھا کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اس کے بغیر پاکستان میں حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا ۔ زرداری صاحب کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ بھٹو کے زوال کے ذمہ دار ان سب مذہبی پارٹیوں کے لیڈر تھے جنہیں بھٹو خوش کرتے کرتے پھانسی چڑھ گیا تھا ۔ بھٹو کا خیال تھا وہ امریکہ کے خلاف سٹینڈ لے کر دوبارہ پاکستان کا مقبول لیڈر بنے گا اور مذہبی پارٹیاں اس کی حمایتی ہوں گی۔ اب یہ ایک اور کہانی تھی کہ بھٹو جن مذہبی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے کام کر رہے تھے وہی قوتیں امریکہ اور فوج کے ساتھ مل کر انہیں پھانسی گھر پہنچانے کی تیاری کر رہی تھیں... اور تو اور بھٹو صاحب کی سپریم کورٹ میں گنوائی گئی اسلامی خدمات بھی ان کے کام نہ آسکیں۔
لہٰذا زرداری صاحب کا یہ دورۂ امریکہ بھی اسی سنجیدہ لطیفے کے تناظرمیں دیکھا جائے کہ پاکستان کو اللہ، آرمی اور امریکہ چلارہے ہیں۔ شاید اپنی حالیہ ملاقا ت میں وزیراعظم نواز شریف اور زرداری صاحب نے طے کیا تھا کہ بہتر ہوگا کام بانٹ لیا جائے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لیے نواز شریف اللہ کے گھر پہنچ چکے ہیں جب کہ امریکہ کو راضی کرنے کا کام زرداری صاحب کے کندھوں پر آن پڑا ۔ اب رہی بات وطن لوٹ کر تیسری قوت آرمی کو راضی کرنے کی تو اگر اللہ اور امریکہ ہمارے وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر زرداری سے راضی ہوگئے، تو پھر فوج بھی راضی!