ورجینیا سے ڈلیور ریاست کے شہر ڈور میں جا کر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے اسّی سالہ چوہدری اسلم اور ان کی 78 برس کی بیگم خورشید سے مل کر لوٹ آیا ہوں لیکن لگتا ہے کسی اور ہی جہاں کی سیر کر کے آیا ہوں۔ ان سے مل کر ایک ایسا تجربہ ہوا جس کا اندازہ مجھے نہیں تھا ۔ دو بزرگ میاں بیوی جو ابھی تک کام کرتے ہیں اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں ۔
زندگی بھی عجیب و غریب لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر دفعہ نئے کردار ملتے ہیں۔ کچھ ڈپریس کرجاتے ہیں تو کچھ آپ کادل امیدوں اور خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔اس ملاقات کی کہانی بھی عجیب ہے۔ دس اگست لیوس شہر میں میری آخری رات تھی ۔ چار ماہ کا طویل قیام اپنے انجام کو پہنچ رہا تھا ۔ ایک طرف وطن لوٹنے کی خوشی تو دوسری طرف ایک عجیب سے اداسی کہ اب ڈاکٹر عاصم صہبائی، اور ان کے ذہین بیٹے عثمان سے دل لگ گیا تھا۔ سامان پیک کرنے کے بعد رات دو بجے پتہ نہیں کیا خیال آیا کہ میں نے سونے سے قبل ای میل کھولی تو محمد زبیر کی ای میل موجود تھی۔ یاد آیا کہ ان کے بیٹے اسد نے بھی ٹویٹر پر پیغام بھیجا تھا۔ کچھ دن پہلے زبیر صاحب کی ایک میل آئی تھی کہ ان کے والد چوہدری اسلم صاحب جن کی عمر اسّی برس ہے‘ میرے پروگرام شوق سے دیکھتے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں ۔ اور اب رات کے اس پہر زبیر صاحب نے یاد دہانی کے لیے پھر ای میل بھیجی تھی۔ مجھے شدید شرمندگی ہوئی کہ ایک اسّی سالہ بزرگ مجھ سے ملنے کے خواہشمند تھے اور میں وقت نہیں نکال سکا تھا‘ حالانکہ میرے پاس وقت ہی وقت تھا۔ صبح ہوئی تو زبیر صاحب کو فون کیا۔
اب میں ان کے والد چوہدری اسلم صاحب اور ان کی والدہ کے پاس بیٹھا تھا۔ دونوں بزرگ میاں بیوی کے چہروں سے ایک عجیب سی تازگی اور محبت چھلک رہی تھی۔ بات چل پڑی۔ میں سوچنے لگا‘ اسلم صاحب کس وجہ سے مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ کچھ اندازے لگاتا رہا۔ اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ سات بچوں کے باپ کی اس سے زیادہ کیا خوشی ہوسکتی تھی کہ سب کے سب سیٹل تھے اور امریکہ اور کینیڈا میں عالی شان زندگی گزار رہے تھے۔ بچوں نے ڈور شہر میں ایک شاندار ہسپتال تک بنا لیا تھا ۔ زبیر صاحب کی والدہ سے باتیں چھیڑ دیں۔ یوں لگا جیسے اپنی والدہ سے ہم کلام ہوں۔ میں نے کہا یہاں تک کیسے پہنچے۔چہرے پر محبت لیے وہ مسکرائیں اور کہا بیٹا بہت محنت کرنی پڑی۔ سیالکوٹ کے گائوں سے باہر بہت محنت کرنی پڑی۔بہت زیادہ۔سات بچوں کو پاکستان میں رہ کر پالنا آسان نہیں تھا ۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو حیرانی ہوتی ہے۔ خدا نے کیسے اتنی ہمت دے دی تھی۔ ساتھ بیٹھے چوہدری اسلم کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگیں‘ ان کی بینک میں نوکری تھی لیکن گھر کا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن پتہ نہیں دل میں کیا آئی۔ اپنے بڑے بیٹے زبیر کو جس نے ابھی بی اے کیا تھا‘ کہا‘ آج سے تم جنرل اسٹور کھول لو۔اس کا نام زبیر جنرل اسٹور رکھ دیا۔
ماں کو اندازہ تھا کہ بیٹا اچھا بچہ ہے لیکن ہوشیار نہیں ۔ گھر سے اٹھیں اور پورے بازار میں جاکر جنرل اسٹور کی تمام چیزیں خریدیں۔ ماں بیٹے نے دکان چلائی۔ ایک ماہ میں بیس ہزار روپے کے قریب آمدن ہوئی۔ اس اسٹور سے بچے پڑھائے اور انہیں ڈاکٹر بنایا۔ پھر کہا‘ بیٹا ایمانداری سے بڑا انعام کوئی نہیں ہوتا ۔ ساری عمر میں نے خود بھی ایمانداری سے دکان چلائی اور بیٹوں کو بھی یہی سبق دیا کہ غلط نہ کرنا۔ میں نے کہا‘ مجھے آپ کے چہرے پر ایک اطمینان نظر آتا ہے۔ آپ اسّی برس کی ہونے والی ہیں لیکن ابھی کام کرتی ہیں۔ تھوڑی سی اداس ہوگئیں اور کہنے لگیں‘ اب پاکستان کے حالات کی وجہ سے پریشان رہتی ہوں۔ اپنے ملک میں جو آگ لگی ہے اس نے ہماری خوشیوںکو غارت کر رکھا ہے۔ دن رات ملک کے لیے دعائیں مانگتی ہوں۔
باتوں میں باتوں میں پتہ چلا کہ زبیر صاحب کی بیٹی اور چوہدری اسلم صاحب کی پوتی زینب نے دسویں جماعت میں نو A لیے اور اسے رول آف آنر ملا۔ ایک سال قبل اسے Best Student of the Year کا ایوارڈ ملا۔ اسلم صاحب کہنے لگے یہاں کوئی کسی سے نہیں پوچھتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، اس کا مذہب کیا ہے؟ اس کا رنگ کیسا ہے؟ استاد کسی سے کچھ نہیں پوچھتے اور نہ ہی اس بنیاد پر یہاں کسی کی قابلیت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کے چہرے پر عجیب سی خوشی ابھری اور انہوں نے اپنی پوتی زینب کو آواز دی کہ اپنا رزلٹ کارڈ لائو۔ مجھے لگا‘ زینب نہیں چاہتی تھی کہ اس کی قابلیت کے بارے میں مجھے بتایا جائے۔ زینب کی ماں اور والد زبیر کہنے لگے کہ وہ دادا سے ا س بات پر لڑتی ہے کہ آپ ہر گھر آئے مہمان کو میرے بارے میں بتاتے رہتے ہیں کہ میں کتنی قابل ہوں اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ دادا کے اصرار پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا کارڈ لائی تو میں خود حیران ہوا کہ اس بچی نے کیا کمال کیا تھا۔ سب مضامین میں A‘ رول آف آنر اور ایک اسٹار جس میں پتہ نہیں کیا کچھ لکھا ہوا تھا۔ مجھے لگا زنیب کو یہ سب کچھ پسند نہیں آرہا تھا۔ میں نے کہا‘ بیٹا‘ ہمیں آپ جیسے بچوں پر فخر ہے کہ ہمارے ملک کا نام روشن کرتے ہو۔ آپ کے دادا خوش ہوتے ہیں۔ میں خود کتنا خوش ہورہا ہوں کہ ہمارے ملک کی بچیاں یہاں امریکی سکولوں میں کیسے اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑرہی ہیں۔ آپ کے دادا کا خوش ہونا بنتا ہے۔ ایمانداری سے بتائوں میں بھی زنیب کا رزلٹ کارڈ اور نمبرز دیکھ کر واقعی متاثر ہوا اور اس بچی پر رشک محسوس ہوا ۔
باتوں کا رخ پھر بدل گیا تھا۔ چوہدری اسلم صاحب بولے‘ میرے ساتھ زندگی میں کچھ لوگوں نے بہت احسانات کیے ہیں۔ آج سوچتا ہوں وہ کتنے اچھے لوگ تھے جنہوں نے بغیر کسی لالچ اور غرض کے میری بہت مدد کی۔ آج جب میں اسّی برس کا ہوچکا ہوں اور یہاں امریکہ میں ابھی تک اپنے بیٹوں کے ہسپتال میں جا کر ان کے بلز کا سیکشن دیکھتا ہوں تو وہ سب لوگ مجھے بہت یاد آتے ہیں جنہوں نے میری برے دنوںمیں بہت مدد کی تھی۔ میں خاموشی سے بیٹھ کر سب کچھ سن رہا تھا۔ وہ بولے‘ مجھے نہیں پتہ اب وہ کہاں ہوں گے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے دل پر ایک بوجھ بڑھ رہا ہے کہ وہ لوگ کہاں ہوں گے جنہوں نے میری زندگی میں میری مدد کی تھی اور میرے محسن تھے۔ پھر بتایا کہ میرپور میں وہ ایک بنک میں کام کرتے تھے اور منیجر کا نام الیاس تھا۔ وہ ان سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔ چوہدری اسلم پر گھر کی طرف سے دبائو تھا کہ وہ داماد کو نوکری دلا دے تاکہ بیٹی کا گھر سدھر جائے۔ وہ ہر روز سوچتے کس طرح الیاس صاحب سے کہیں کہ اسے بنک میں نوکری دے دیں۔ ایک دن پریشان دیکھ کر انہوں نے پوچھا تو بتادیا کہ کیسے گھر سے دبائو ہے‘ داماد کی نوکری کے بارے میں۔ الیاس صاحب نے اگلے دن ان کے داماد کی بنک میں ہی نوکری کرادی اور آج وہی داماد بنک کا وائس پریذیڈنٹ ہے اور اس کے چار بچے ڈاکٹر بن رہے ہیں۔
چوہدری اسلم مشکور آنکھوں سے کہنے لگے کہ الیاس صاحب اگر اس دن نوکری نہ کراتے تو میرے چار نواسے کبھی ڈاکٹر نہ بنتے۔ ان کا احسان اپنے کندھوںپر اٹھائے امریکہ میں رہتا ہوں ۔ چوہدری صاحب کہنے لگے کہ ایک بریگیڈیر عطا تھے جو لاہور ماڈل ٹائون میں رہتے تھے۔ ان کا بیٹا میجر تھا جس نے بعد میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ خود فوت ہوگئے تھے۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے بھی بڑے احسانات کیے۔
میں خاموش ہوکر بیٹھا تھا کہ میں ان تمام کہانیوں میں کہاں فٹ ہوتا ہوں۔
پھر کہنے لگے‘ سیالکوٹ میں شیخ اقبال تھے جو وہاں 1956-57ء تک پراسیکیوٹر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔ بہت قابل وکیل تھے۔ ان کا بیٹا شیخ علی ذوالقرنین مجسٹریٹ ہوا کرتا تھا۔ ان کے بھی بڑے احسانات تھے۔ بہت کوشش کی‘ انہیں بھی نہیں تلاش کر سکا تھا ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے۔ بیٹا دل پر ایک بوجھ ہے۔ تم کچھ مدد کر سکتے ہو؟میں حیران ہوا کہ میں کس طرح کی مدد کر سکتا ہوں۔ بولے‘ اسی برس عمر ہوگئی ہے۔ خدا نے بہت کچھ دیا ہے۔ سوچتا ہوں کہاں سے زندگی کا آغاز کیا۔ اچھے بُرے وقت دیکھے۔ آج زندگی کتنی پرسکون ہے۔ تاہم اب کچھ عرصے سے دل میں شدید خواہش ابھرتی ہے کہ میں ان تمام لوگوں کو تلاش کروں جنہوں نے مجھ پر احسانات کیے تھے۔ مجھے علم نہیں وہ کہاں ہیں۔ نہیں رہے تو اپنے محسنوں کے بچوں کا پتہ کروں۔ کہیں انہیں کسی مدد کی ضرورت تو نہیں۔ جیسے مجھے کبھی ضرورت پڑی تھی تو ان کے بزرگوں نے میری مدد کی تھی۔ دل اداس رہتا ہے۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے بزرگوں نے ہمارے خاندان پر احسانات کیے تھے۔ وہ آج ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔!
ان کی آنکھوں نم ہونے کے قریب ہوگئی تھیں۔ مجھے پتہ چل گیا تھا وہ مجھے کیوںملنا چاہتے تھے۔ اگر لیوس شہر میں اپنی آخری رات دو بجے ای میل نہ پڑھتا تو شاید ان سے ملاقات نہ ہو پاتی۔ رات گئے ورجینیا جاتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے محبت بھرے اسّی سالہ چوہدری اسلم کی خوبصورت شکل گھوم رہی تھی جنہیں پاکستان سے ہزاروں میل دور آج بھی اپنے محسنوں کی تلاش میں ہے۔ ان کے دل پر بوجھ ہے جسے وہ صدیوں سے اپنے دل اور روح پر اٹھائے زندہ ہیں۔ انہیں اپنے محسنوں کی نسلوں کو شکریہ کہنا ہے!!