سابق صدر زرداری کے فارمولے نے ایک مدد ضرور کی ہے کہ آج پارلیمنٹ میں بارہ میں سے گیارہ جماعتیں اکٹھی ہیں اور یہ تمیز ختم ہوگئی ہے کہ کون حکومت کر رہا ہے اور کون اپوزیشن میں ہے۔ سب مل کر کھا رہے ہیں !
عمران خان کے پارلیمنٹ سے نکلنے کے بعد اب سب پارٹیاں اقتدار میں ہیں ۔ اپوزیشن کا وجود نہیں رہا ۔ یہ انجام ہوا ہے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی متعارف کرائی گئی جمہوریت کا!
بینظیر بھٹو پر اپنے عظیم والد کا کچھ اثر تھا‘ لہٰذا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسی باتوں سے گریز کرتی تھیں جن سے بچے کھچے اصولوں پر زد پڑتی ہو ۔ انہیں اپنے نام کے ساتھ جڑے بھٹو کی لاج رکھنی پڑتی تھی ۔ تاہم زرداری صاحب ''بھٹو‘‘ نام کے بوجھ تلے دبے ہوئے نہیں ہیں‘ لہٰذا ان کے لیے انسانی جبلّتوں پر چلنا قدرے آسان ہے۔ نام ''بھٹو‘‘ کا استعمال کیا‘ لیکن کام ''زرداری‘‘ سے لیتے رہے۔
زرداری فارمولہ یہ تھا کہ سب کو اقتدار میں شامل کرو۔ کون سا جیب سے پیسے خرچ ہوں گے۔ جس کو جو چاہیں‘ پیش کردیں۔ صدر زرداری نے انسانی نفسیات کا کھیل کھیلا۔ ان سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ ہر انسان جبلّی طور پر لالچی ہے۔ وہ دوسرے کے مال پر عیاشی کرنا چاہتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں جو بھی پارلیمنٹ تک پہنچ گیا‘ اسے اقتدار میں حصہ دے دیا گیا۔ اور تو اور جنہیں بی بی کا قاتل سمجھتے تھے‘ انہیں ڈپٹی وزیراعظم تک بنا دیا۔ اس سے زیادہ وہ اور کیا کرسکتے تھے ۔ زرداری کے دور میں اپوزیشن صرف وہ کر رہے تھے جو عمران خان کی طرح نواز شریف کی باتوں میں آکر 2008ء کا الیکشن نہیں لڑ سکے تھے۔ محمود اچکزئی اور عمران خان نے الیکشن اس لیے نہ لڑا کہ نواز شریف نے ان سے قسم لی تھی کہ وہ سب جنرل مشرف کے زیرانتظام ہونے والے الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ وہ بائیکاٹ کرتے رہ گئے اور پتہ چلا کہ نواز شریف نے پنجاب میں حکومت بنا بھی لی۔
نواز شریف اور زرداری نے بہتر سیاست کھیلی ۔ وفاق میں نواز لیگ کے وزراء کو حکومت میں بٹھایا اور پنجاب میں نواز لیگ نے پیپلز پارٹی کو حصہ دیا ۔ اچانک آصف زرداری اور نوازشریف کو خیال آیا کہ اگر وہ مل بیٹھے تو اپوزیشن کی جگہ کوئی اور سنبھال لے گا اور یوں ایک دوسرے کو مولوی نواز شریف اور زرداری کو گوالمنڈی میں پھانسی دینے جیسے اعلانات ہونے لگے تاکہ سب سمجھ جائیں کہ وہ ایک دوسرے کے کتنے جانی دشمن ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن صرف ان کے پاس رہے ۔ کوئی اور جگہ نہ بنا سکے۔ زرداری کو پتہ تھا کہ اگر انہوں نے سب کو مال نہ کھلایا تو سب بھوکوں کی طرح ان پر پل پڑیں گے اور پانچ سال پورے نہیں کرنے دیں گے۔ زرداری نے دراصل جنرل ضیاالحق کی اس بات کو پلے باندھ لیا تھا کہ وہ سیاستدانوں کو ایک اشارہ کریں تو سب بھاگے چلے آئیں گے۔
تیسری دفعہ اقتدار ملتے ہی نواز شریف کے اردگرد بیٹھے مشیروں نے بھی زرداری فارمولہ اپنا لیا۔ باقی عہدے بقول سینیٹر بابر اعوان کے چوراسی رشتہ داروں میں بانٹ دیے۔ یہ بات سب بھول گئے کہ اگر اپوزیشن نہیں رہے گی تو پھر پورے عوام اپوزیشن کا رول ادا کریں گے‘ چنانچہ آج یہ حالت ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کی عوام میں کوئی عزت نہیں رہ گئی۔ ادھر سرکاری خیرات کا اثر یہ ہوا کہ جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں خورشید شاہ نے جو تقریر کی‘ اسے سن کر سب کو شرم آرہی تھی۔ اجلاس کے بعد وسطی پنجاب سے پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے ملے تو مایوس تھے۔ کہنے لگے‘ ان سندھی لیڈروں نے طے کر لیا ہے کہ وہ اب سندھ کی سیاست کریں گے‘ پنجاب پر ان کی کوئی توجہ نہیں رہی۔ انہیں پتہ ہے کہ ان کی قلابازیوں سے ان کے حلقوں
میں ان کی فالونگ ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سب سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی نواز شریف کی بی ٹیم ہے تو پھر وہ پیپلز پارٹی کو کیوں ووٹ دیں۔ کہنے لگے‘ اب پیپلز پارٹی کے اجلاسوں میں ہماری بات نہیں سنی جاتی۔ سندھی لیڈروں نے پارٹی کو پنجاب میں تباہ کرنا تھا‘ سو کر دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی سیاست بھی تباہ ہوگئی ہے۔
میں نے کہا‘ شاہ جی، کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ آپ بڑی پکچر دیکھیں۔ سندھ ایک بڑا صوبہ ہے۔ ہر سال پانچ سو ارب روپے این ایف سی سے ملتا ہے۔ آخر وہ بھی تو کسی نے کھانے ہیں ۔ سرکاری پروٹوکول، مفت گاڑیاں، خرچے۔ گیلانی، راجہ، امین فہیم، ڈاکٹر عاصم حسین جیسوں پر لوٹ مار کے مقدمے درج ہیں، انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگاتا اور یہ زرداری کی سمجھداری کا نتیجہ ہے۔ خود زرداری صاحب پر بارہ مقدمات چل رہے ہیں۔ وہ نواز شریف سے ڈیل کر کے ہی مقدمات کلیئر کرا سکتے ہیں۔ پھر بینظیر بھٹو کا لاکھوں کا ہار بھی تو واپس لینا ہے۔ سب سندھ کے وسائل لوٹ رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ٹپی اور ڈاکٹر عاصم حسین جیسوں نے ان پانچ سو ارب پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔ وہ پانچ سو ارب روپے ان وزیروں کے گھروں میں جارہے ہیں جن کے ہاں بیسمنٹ میں آگ لگتی ہے تو ایک ارب روپے جل جاتے ہیں۔ پھر وہ وزیر کراچی کی محفلوں میں یہ تو بتاتے ہیں کہ ایک ارب روپے جل گئے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کتنے جلنے سے بچ گئے۔
جس ملک میں کوریا کے وزیراعظم جیسے ضمیر کی ضرورت نہ ہو‘ جنہوں نے سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار بچوں کے والدین کو روتا دیکھ کر استعفیٰ دے دیا‘ یا بل کلنٹن جیسے احساس کی حاجت نہ ہو جنہیں ایک جھوٹ بولنے پر پوری دنیا کے سامنے پارلیمنٹ کے ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا، وہاں حکمرانی سے بہتر اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ کلنٹن ایک جھوٹ پر پکڑا گیا تھا‘ جب کہ ہمارے ہاں چوہدری نثار علی خان روزانہ نیا جھوٹ بولتے ہیں اور بولتے چلے جاتے ہیں اور کوئی پکڑ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ وزیرداخلہ کو ٹیلی فون کال پر کہا گیا کہ آرمی چیف سے عمران خان اور طاہر القادری ملنا چاہتے ہیں‘ کیا وہ ان سے مل لیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مل لیں۔ چوہدری نثار نے ایک دفعہ پھر روایتی انداز میں پارلیمنٹ میں ایک طویل بورنگ تقریر کر کے اس بات کو اتنے زاویوں سے گھمایا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ حکومت نے آرمی چیف کو سہولت کار بننے کے لیے کہا تھا یا یہ عمران خان اور طاہرالقادری کی خواہش تھی۔ چوہدری نثار علی خان اپنی تقریر میں فرما رہے تھے کہ حکومت نے آرمی چیف کو نہیں کہا تھا مگر اسی دن کے انگریزی اخبار میں ہمارے دوست سلیم صافی کی ٹی وی پر بریک کی گئی خبر کا عکس چھپا ہوا تھا جس میں سلیم صافی نے کہا تھا‘ انہیں چوہدری نثار علی خان نے بتایا ہے کہ حکومت نے آرمی چیف سے درخواست کی تھی وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایک ٹی وی چینل نے اسے سال کی سب سے بڑی خبر کہا تھا کہ حکومت نے آرمی چیف سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ وزیراعظم کے قومی اسمبلی میں اعلان کے بعد آئی ایس پی آر کے جنرل عاصم باجوہ نے جواب دیا کہ آرمی چیف نے حکومت کے کہنے پر ہی عمران خان اور طاہر القادری سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس پر داد دیں چوہدری نثار علی خان کو‘ جو فرماتے ہیں کہ آئی ایس پی آر نے ان سے مشورے کے بعد ہی یہ بیان جاری کیا تھا۔سلیم صافی کی خبر سامنے رکھیں‘ تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے پہلے خود آرمی چیف سے درخواست کی اور اُس ٹی وی چینل نے اسے سال کی سب سے بڑی خبر قرار دیا لیکن جب نواز شریف پر تنقید بڑھتی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں جا کر بدل جاتے ہیں۔ آرمی اس پر سخت ردعمل دیتی ہے تو فرماتے ہیں کہ آرمی نے ہمارے مشورے ہی سے بیان جاری کیا ہے۔
اس ملک کو کیا بنا دیا گیا ہے؟ کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟موجودہ بحران مجھے ان دنوں میں واپس لے گیا جب میں اپنی کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ پر کام کر رہا تھا اور مجھے اپنے مسودے کے لیے ان ملاقاتوں کے نوٹس تلاش کرنے پڑ گئے جب میں پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹوں کی ملاقاتیں کر کے اندر کی کہانیاں تلاش کر رہا تھا۔ آج دس برس بعد مجھے لگتا ہے کہ شاید میں نے وہ انٹرویوز کر کے اپنے ساتھ زیادتی کی تھی‘ کیونکہ سیاستدانوں سے میرا رومانس بکھر گیا ہے اور اب کسی سے ملنے کو جی نہیں چاہتا۔ بچوں کی طرح میرے بھی کچھ آئیڈیلز تھے‘ مگر ایک ایک کر کے سب میری آنکھوں کے سامنے ہی بکھرتے چلے گئے اور میں بے بسی سے ان کو ہوا میں اڑتے دیکھتا رہا۔ سب انسانی جبلتوں کے شکار ہیں۔ سب سیاستدان کمزور انسان ہی ہیں جن کے پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ وزیراعظم اور وزیر بن کر بھی عزت اور مقام سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ اس بات پر شکر نہیں کرتے کہ بیس کروڑ انسانوں میں سے انہیں خدا نے وزیراعظم یا وزیر بنادیا ہے۔ انہیں تو بس مال چاہیے۔ دوسری کی محنت کا پیسہ چاہیے‘ چاہے انہیں بچوں کی مائوں کو قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
ہم سب عام سے لوگ ہیں اور جبلتوں کے غلام ہیں، جنہیں خدا کی عطا کی ہوئی عزت راس نہیں آتی!