"RKC" (space) message & send to 7575

آپ ذرا باہر بیٹھیں!

امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ ڈگری یافتہ ایک دوست کا بیٹا جو وطن کی مٹی کی محبت میں لوٹ آیا تھا، ابھی ابھی اپنے باپ سے ملنے آیا اور اپنے پیچھے کئی کہانیاں چھوڑ کر چلا گیا۔ 
وہ تو چلا گیا ہے لیکن مجھے لگا وہ بچہ ذہانت اور نالج میں مجھ سے پچاس سال بڑا ہے۔ میں صرف اس لیے اس سے بڑا ہوں کیونکہ میں اس سے پہلے پیدا ہوگیا تھا۔ اس کی باتیں سن کر لگا کہ جو نوجوان اس ملک کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں‘ ان لوگوں کے نیچے کام کرنے پر مجبور کر دیے گیے ہیں جنہوں نے تیس برس قبل بی اے کا امتحان پاس کرنے کے لیے درسی کتب پڑھنے یا پھر سی ایس ایس کے لیے رٹا لگانے کے علاوہ زندگی میں کچھ نہیں پڑھا۔ 
ان زکوٹا جن ٹائپ بابوئوں کو لگتا ہے کہ یہ نوجوان ہوائی باتیں کرتے ہیں، انہیں زمینی حقائق کا علم نہیں ہے‘ یہ باہر سے ڈگریاں لے کر سمجھتے ہیں کہ عقل کل بن گئے ہیں لہٰذا ان کو حکومت پاکستان کے دفتروں میں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ان کے افسران مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ فارن کوالیفائیڈ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے نسخہ کیمیا سے پاکستان راتوں رات بدل جائے گا؟ یوں جب یہ نوجوان کوئی نئی بات بتاتے ہیں، کوئی نیا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو پرانا بوسیدہ باس اسے ڈانٹ کر دفتر سے باہر نکال دیتا ہے۔ ان بچوں کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ جس وطن کی محبت میں امریکہ، برطانیہ یا آسٹریلیا چھوڑ کر پاکستان آئے تھے کہ یہاں کچھ نیا کام کریں گے‘ وہ خواب ایک سراب تھا ۔ ایک ہفتے کے بعد ہی انہیں احساس ہوجاتا ہے کہ وہ غلط سوچتے تھے کہ اپنے ملک کو بھی امریکہ یا برطانیہ کے لیول پر لے جائیں گے۔ 
مجھے اس نوجوان سے مل کر پہلی دفعہ احساس ہورہا ہے کہ اس ملک میں سینیارٹی کا تصور کتنا بوگس اور بیکار ہے کہ صرف سینئر ہی ترقی کرے گا یا ٹاپ پر بیٹھے گا اور اس کا جونیئر چاہے کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، اس نالائق باس کے نیچے کام کرے گا اور کرتا ہی رہے گا۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ پڑھے لکھے اور فارن کوالیفائیڈ نوجوان اب نہ صرف اپنے مستقبل سے مایوس ہورہے ہیں بلکہ انہیں اس ملک کا مستقبل بھی تابناک نہیں لگتا۔ مایوسی بڑھ رہی ہے اور پس ماندگی اپنے عروج پر ہے۔ میں نے اس کی باتیں سن کر پوچھا ''کیا میں یہ سب باتیں تمہارے نام کا حوالہ دے کر اپنے کالم میں لکھ سکتا ہوں؟‘‘ اس نے کوئی توقف کیے بغیر کہا ''بالکل‘‘۔ میں نے کہا ''تم نوکری سے نکالے جائو گے‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ بات کرتا‘ اس کے والد بولے ''جناب میں نے ان کی تربیت اس طرح کی ہی نہیں ہے کہ یہ نوکری یا کسی فائدہ یا نقصان کے خوف سے کوئی ایسی بات نہ کہہ سکیں جو انہیں کہنی چاہیے۔ یہ بس اللہ سے ڈرتے ہیں‘‘۔ 
وہ نوجوان بتانے لگا کہ پلاننگ ڈویژن نے چالیس کروڑ روپے کی لاگت سے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت بیرون ملک پاکستانی طالبعلموں کے لیے ایک فیلوشپ شروع کی گئی۔ ساٹھ ہزار روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔ ایک ماہ جوائن ہی نہ کرایا گیا اور یوں ایک ماہ کی تنخواہ نہ ملی۔ جوائن کرنے والے نوجوان بیرون ملک سے پڑھ کر آئے تھے۔ انہیں تین ماہ بعد سب کی منت ترلے کر کے پیسے ملتے تھے۔ نوجوان نے بتایا کہ اسے کام کرتے ہوئے دس ماہ ہوگئے ہیں لیکن اس نے تنخواہ کا چیک دو دفعہ لیا ہے اور آخری چیک اپریل میں ملا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ نوجوان اس کے باوجود وطن کی محبت میں کام کیے جاتے ہیں کہ انہیں پیسے کمانے سے نہیں‘ اپنے ملک کی خدمت سے غرض ہے۔ 
بلاشبہ احسن اقبال صاحب نے بہتر کام کیا کہ وہ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو واپس لانے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں لیکن ان نوجوانوں کے ساتھ زکوٹا جن ٹائپ بابو جو سلوک کررہے ہیں‘ اس کا انہیں اندازہ تک نہیں ہے۔ جو لڑکے اس جدید معاشرے سے پڑھ کر لوٹتے ہیں وہ بھلا کیسے برداشت کریں گے کہ سیکرٹری صاحب سے ملنے جائیں تو وہ میز پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھے ہوں ۔ وہ کوئی بات کریں تو سینئر کہیں‘ جانے دیں‘ آپ کو کیا پتہ کام کیسے ہوتے ہیں۔ یا سیکرٹری کسی فارن کوالیفائیڈ کو بلا کر کہے کہ دنیا کی دس خوبصورت جگہیں تلاش کریں‘ وہ کسی خوبصورت جگہ پر اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں۔ یا کوئی لڑکا کسی سینئر کے پاس جائے اور وہ اسے یہ مشورہ دے کہ جہاں سے آئے ہو‘ وہیں لوٹ جائو اور جواز یہ پیش کرے کہ میری عمر اسی برس ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کھڑکی سے چھلانگ لگادوں‘ تم نے بھی ساٹھ برس بعد یہی کچھ کرنا ہے تو یہاں نوکری کرنے کا کیا فائدہ؟ کوئی اور کام کرو۔ یا پھر وہ لڑکا کیسے کام کرے‘ جو ایک جدید پروجیکٹ بنا کر جائے اور اس کا سینئر وہ پروجیکٹ خود شروع کردے۔ اس لیے نہیں کہ وہ بہت قابل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اس پروجیکٹ میں اسے پروجیکٹ الائونس اور گاڑی ملے گی اور وہ کچھ عزیزوں کو نوکری دے گا‘ جبکہ پروجیکٹ بنانے والا نوجوان ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔ 
فارن کوالیفائیڈ نوجوانوں کو سمجھ نہیں آتی کہ جو جھوٹ ویژن 2025ء میں بولے گئے ہیں‘ ان کا کیا کریں۔ جھوٹ کھولتے ہیں تو احسن اقبال ناراض ہوں گے کہ ہم اس لیے تھوڑا آپ کو بیرون ملک سے لائے تھے کہ آپ ان کے ویژن کی پوٹلی کھول دیں۔ وہ نوجوان اس بات پر حیران ہیں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ 2025ء میں ہر پاکستانی کی اوسطاً سالانہ انکم موجودہ 1384 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 4200 ہو جائے گی ۔ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی معیشت اگلے دس برس بارہ فیصد سالانہ ترقی کرے تو شاید اس مقام تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ کام تو شاید چین بھی نہیں کر سکتا‘ جو ہم نے اپنے ڈاکومنٹس میں لکھ دیا ہے۔ 
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ پانچ سو بیس ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی فنڈز میں سے بتیس ارب روپے کے پروجیکٹ خود پلاننگ ڈویژن والوں نے اپنے کمروں میں شروع کررکھے ہیں اور زیادہ تر زکوٹا جن ٹائپ افسران نے شروع کیے ہوئے ہیں تاکہ پروجیکٹ الائونس اور گاڑیاں خریدتے رہیں اور عیاشیاں چلتی رہیں۔ ہر پروجیکٹ میں نئی گاڑیاں ضرور شامل ہوتی ہیں‘ اور زکوٹا جن بابوئوں نے کچھ گاڑیاں لاہور جی او آر بھیجنی ہوتی ہیں جہاں ان کے بیوی بچے رہتے ہیں۔ خود دو گاڑیاں اسلام آباد میں رکھنی ہوتی ہیں۔ پٹرول اور فون تک کے اخراجات بھی پروجیکٹ سے ملتے ہیں۔
اس نوجوان نے میرے اوپر ایک اور بم پھاڑا کہ پندرہ پاکستانی فارن کوالیفائیڈ نوجوان دو دو تین تین ماہ پلاننگ میں کام کرنے کے بعد چھوڑ کر واپس چلے گئے ہیں اور بیرون ملک جاب کررہے ہیں یا پھر انہیں پرائیویٹ کمپنیوں میں اچھی تنخواہوں پر ملازمت مل گئی ہے۔ جب ان بچوں کو کہا جائے گا کہ دنیا بھر میں دس ایسی جگہیں ڈھونڈیں جن میں سے ایک پر پلاننگ ڈویژن کا ایک زکوٹا جن اپنا گھر بنانا چاہتا ہے تو وہ کیوں کام کریں گے۔ 
ایک لڑکا جو اسکاٹ لینڈ سے آئل اینڈ گیس کے شعبے میں ڈگری لے کر آیا تھا‘ چھوڑ گیا‘ حالانکہ ابھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں نو ارب بیرل شیل آئل کے ذخائر پائے گئے ہیں۔ جس وقت پلاننگ اور ملک کو اس کی ضرورت تھی وہ چھوڑ گیا کیونکہ زکوٹا جن سب کچھ خود کھانا چاہتے ہیں اور ان کی یہ ہوس ملک کو برباد کر رہی ہے۔ 
اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کو پلاننگ ڈویژن نے بریفنگ دینی تھی۔ ایک سو چالیس صفحات کی سلائیڈز تیار کی گئیں توسیکرٹری نے ایک نوجوان کو بلا کر کہا کہ وزیراعظم کے پاس اتنا وقت کہاں ہوگا‘ اسے کم کر کے چالیس صفحات میں سمیٹو۔ نوجوان نے ایسا کردیا۔ ایک پروجیکٹ کے آگے لکھا تھا کہ یہ 2017ء میں مکمل ہوگا۔ سیکرٹری نے کہا‘ اسے بدل کر 2014ء کر دو‘ وزیراعظم خوش ہوں گے۔ نوجوان نے انکار کر دیا کہ وہ کیسے کر دے‘ جب وہ منصوبہ مکمل ہی 2017ء میں ہوگا۔ سیکرٹری نے کہا‘ اچھا یہ بات ہے تو پیک اپ کرو‘ اب وہی ایک سو چالیس صفحات کی ہی بریفنگ ٹھیک رہے گی اور وہی جا کر وزیراعظم کو پیش کردی۔ 
ایک پروجیکٹ شروع ہونا تھا جس کے تحت سرکاری فائل کلچر ختم ہونا تھا اور اس سلسلے میں گریڈ سترہ سے اوپر کے افسران کی ایک تربیتی ورکشاپ اور بریفنگ کا انتظام کرایا گیا کہ وہ کیسے یہ کام کریں گے۔ وہ سب واپس لوٹے تو منہ لٹکے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ اگر یہ سرکاری فائل اس کے دفتر سے کمپیوٹر کے ذریعے تیسرے فلور پر خود بخود ایک کمانڈ دینے پر پہنچ جائے گی تو پھر وہ کیا کرے گا؟ 
میں حیرانی سے منہ کھولے سنتا رہا۔ اس نوجوان سے ایک گھنٹے کی ملاقات میں مجھے لگا‘ میں نے بہت کچھ سیکھ لیا‘ بہت سی نئی چیزوں کا پتہ لگا اور وہ مجھے اپنے آپ سے ذہنی طور پر پچاس برس آگے لگا۔ وہ بولا، ایک اور بات سن لیں۔ جب بھی کروڑوں یا اربوں روپے کے پروجیکٹ پر کچھ لین دین اور دو نمبری کام شروع ہونے لگتا ہے جس میں ان افسروں نے مال پانی بنانا ہوتا ہے تو پلاننگ ڈویژن کے افسر ان فارن کوالیفائیڈ نوجوانوںکو فرماتے ہیں‘ آپ ذرا باہر تشریف لے جائیں...! 
اس کے بعد آخر وہ فارن کوالیفائیڈ نوجوان کیا کرے؟ بیوروکریسی کے ان زکوٹا جنوں کی کرپشن پر پردہ ڈالے یا پھر واپس لوٹ کر امریکہ اور برطانیہ کی خدمت کرے‘ جہاں اس کی شخصیت اور کام کی عزت کی جاتی ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں