سابق صدر زرداری نے ایک شاہی فرمان جاری کیا ہے۔ فرماتے ہیں صبرکا پیمانہ اب لبریز ہوگیا ہے۔ اب کافی تماشا ہوگیا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تماشا شروع کس نے کیا ؟ ایک موقع زرداری صاحب کو ملا تھا۔ اگر وہ نئی شروعات کرتے تو اس ملک میں تماشا نہ لگتا ۔ اقتدار سنبھالتے ہی صلح کا نعرہ لگایا ۔ سب متاثر ہوئے۔ کس کو پتہ تھا یہ صلح کا نعرہ اس لیے لگ رہا تھا کہ این آر او کے تحت سب مقدمات بند کرانے تھے تاکہ مخالفت میں کوئی آواز نہ اٹھے۔مخالفوں کو سب کچھ دے دیا۔ کون سا اپنی جیب سے دے رہے تھے۔
میں اس دن نوڈیرو میں پریس کانفرنس میں تھا جس میں زرداری صاحب نے خود ق لیگ کو بینظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور پھر وہی ق لیگ کے ڈپٹی وزیراعظم بنا دیے گئے۔اس پریس کانفرنس کے بعد پرویز الٰہی، شجاعت حسین اور ڈاکٹر قیوم سومرو کے درمیان چند خفیہ ملاقاتیںہوئیں اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ہمارے اوپر احسان عظیم تھونپا جاتا ہے کہ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات شفٹ کیے۔ انہیں پتہ تھا جتنی لوٹ مار وہ کر رہے ہیں اس سے وہ اگلا الیکشن نہیں جیت سکیں گے لہٰذا اور کچھ نہیں تو صوبائی خودمختاری کے نام پر سندھ میں بیٹھ کر مال پانی لوٹیں گے۔ جتنی لوٹ مار سندھ میں مچی ہے وہ سندھی میڈیا اپنے لیڈروں کی محبت میں کبھی سامنے نہ لا سکا‘ ورنہ لوگ اسلام آباد اور لاہور کو بھی بھول جاتے۔ اکثر میرے سندھی دوستوں سے جب کرپشن پر گفتگو ہوتی تو مجھے لگتا سندھی سیاستدانوں نے عام سندھیوں اور میڈیا میں یہ احساس بٹھا دیا ہے وہ جو بھی لوٹ مار کرتے ہیں اس کا مالی نقصان پنجاب کو ہوتا ہے ۔ میں یہ دلائل سن کر ششدر رہ گیا تھا ۔ میں نے پوچھا‘ جناب پانچ سو ارب روپے نیشنل فنانس کمشن سے سندھ کو ملتے ہیں، پنجاب اور دیگر صوبے اپنا اپنا حصہ لیتے ہیں پھر سندھ میں لوٹ مار میں سے کرپشن پر پنجاب کو کیسے نقصان ہوتا ہے۔ وہ مسکرا کر بات ٹال گئے تھے لیکن میں سمجھ گیا تھا سندھ میں لوٹ مار کو اس لیے قبول کر لیا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ان کے لیڈر پنجاب کو لوٹ رہے ہیں ۔
یہی وجہ ہے ان سیاست دانوں سے کب کا دل بھر چکا اور اب ملنے کا بھی جی نہیں چاہتا۔ ایک بڑے سیاستدان نے مجھ سے مشورہ مانگا۔ میں نے کہا مجھے معاف رکھیں۔ اسے چند نام دیے انہیں بلا لیں وہ گھنٹوں آپ کو مشورے دیں گے اور اگلے دن اپنے کالم میں اپنے قارئین پر رعب بھی جھاڑیں گے کہ انہوں نے کس کس کو کیا مشورے دیے۔ لگتا ہے کسی دور میں سقراط اور افلاطون تک ان سے لیکچر لیتے تھے۔
جب ان خودساختہ دانشوروں اور کالم نگاروں کے مشورے یہ سیاسی لیڈر نہیں مانتے تو پھر دن رات توپیں بندوقیں اٹھا کر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ اگر میرے جیسے کالم نگار اتنے ہی عقل مند اور سیاست کو سمجھتے ہیں تو پھر خود وزیراعظم کیوں نہیں بن بیٹھتے؟ مجھ سے اپنا گھر تو چلتا نہیں لیکن میں ملک کے سیاستدانوں کو ایسے ایسے مشورے دیتا ہوں کہ وہ خود بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ کیا کیا ٹیلنٹ اخبارات میں ضائع ہورہا ہے۔
ڈاکٹر بابر اعوان نے متعدد دفعہ کہا آپ کو صدر زرداری سے ملانا ہے۔ میں نے معذرت کرلی۔ وجہ بابر اعوان جانتے ہیں ۔ دو دفعہ صحافیوں کے گروپ کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ ایک دفعہ صدر بننے سے پہلے اور دوسری دفعہ صدر بننے کے بعد۔ زرداری دو گھنٹے مسلسل واعظ کرتے رہے اور مجال ہے کسی کو بولنے دیا ہو۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب‘ سکول چھوڑے عرصہ بیت گیا ۔ دوبارہ کلاس روم میں اس سیاسی ہیڈ ماسٹر کو سننے کا حوصلہ نہیں ۔
وہی واعظ اب بھی جاری ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے بچے کچھے لیڈرز جو سکول کے بچوں کی طرح خاموش لیکچر سنتے رہتے ہیں اور باہر نکل کر طنزیہ ہنستے ہیں کہ بادشاہ سلامت کس دور میں زندہ ہیں ۔
کوئی پوچھے صدر زرداری کویہ سب تماشا اس وقت کیوں نظر نہیں آیا جب ان کے سندھ اور پنجاب کے مرد و خواتین ایم این ایز اور وزراء تک اپنے اپنے ترقیاتی فنڈز پنجاب اور سندھ کے نام پر لے کر لکی مروت میں بیچ رہے تھے۔ ایک کروڑ روپے فنڈ پر بیس لاکھ روپے نقد وصول کیے گئے اور باقی ٹھیکیدار نے پانی کی چند سکیمیں بنا کر پچاس ساٹھ لاکھ روپے جیب میںڈال دیے۔
اس وقت بھی تماشا نہ نظر آیا جب ان کا قریبی عطائی ڈاکٹر ایک کروڑ روپے ہر ماہ ایک ادارے سے جیب خرچ لے رہا تھا ۔
فہمیدہ مرزا خاموشی سے 87 کروڑ کا قرضہ معاف کراگئیں۔ پھر بھی یہ تماشا نہ لگا ۔گیلانی اور راجہ نے جو ریکارڈ بنائے وہ بھی تماشا نہ تھا اور اب وزیراعظم کا خاندان جمہوریت کے نام پر جو کررہاہے شاید وہ بھی تماشا نہیں ۔
کیسے کیسے تماشے ان گناہگاروں آنکھوں نے ان پانچ برسوں میں نہیں دیکھے اور ہم سب بیوقوف ان کی لوٹ مار کو جمہوریت کا حسن کہہ کر انہی لٹیروں کے ساتھ ہی محفلیں سجاتے رہے اور ان کے ساتھ فوٹو کھنچواتے رہے کہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ہر قسم کے وزیروں کو کرپشن کی گنگا میں نہاتے دیکھا۔ ایک تو ترقی پسند ایم این اے جو قصور کی دھرتی سے اٹھا تھا اس کی داستانیں ایسی مشہور ہوئیں کہ عقل دنگ رہ گئی کہ جب کامریڈ کرپٹ ہوتا ہے تو کیسی تباہی لاتا ہے۔ اگلی دفعہ حلقے کے لوگوںنے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ ان کا سرخ انقلاب چند روپوں کی مار نہ سہہ سکا ۔ ایک انقلابی خاتون وزیر جاتے ہوئے وزراء کالونی کے گھر سے سرکاری سامان ٹرک میں ڈلوا کر سیالکوٹ لے گئی۔
کیا اس وقت زرداری صاحب نے ہمارے ساتھ تماشا نہیں کیا جب ضلعی حکومتوں کا بستر گول کر دیا گیا۔ فرمایا ایک آمر کا دیا ہوا نظام تھا۔ اسی آمر سے خفیہ ملاقاتیں بینظیر صاحبہ کرتی رہیں۔ این آر او لے لیا اور اپنے تمام مقدمات میں چٹ لے لی۔ اس وقت آمر اچھا تھا، لیکن جہاں آمر نے عوام کے لیے کوئی کام کیا تھا وہ برا ٹھہرا۔ ہر سال جو دو ہزار ارب روپے این ایف سی کے ملک بھر کے اضلاع کو ملنے چاہیے تھے وہ چار صوبوں میں بیٹھے ان ''سیاسی ڈکٹیٹروں‘‘ نے آپس میں بانٹ لیے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ اس ملک کے عوام پر ایک زکوٹا جن بابو اور کرپٹ ڈی پی او کے ذریعے ہی حکومت کریں گے۔ اس وقت تماشا نہ لگا جب نوے ہزار منتخب کونسلرز کو گھر بھیج دیا گیا ۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا نام میاں نوازشریف اور آصف زرداری اور ان کے سیاسی چمچے تھے جو بادشاہوں کی طرح حکومت کریں اور ان کے راج کے خلاف کوئی آواز اٹھے گی تو وہ بغاوت یا تماشا کہلائے گی۔
اس وقت بھی یہ تماشا نہیں لگا جب ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیا گیا اور اسلام آباد، کراچی اور اب لاہور میں قلعے جیسی کوٹھیاں بنائی گئی ہیں۔ اگر آمدن نہیں ہے تو پھر یہ کیسے بن گئیں؟ کیا عوام روم اور مصر کے غلاموں کی طرح اپنے ''لیڈروں‘‘ کی خدمت کرتے رہیں اور ان کی نسلیں ہم پر حکومت کرتی رہیں۔
زرداری صاحب فرماتے ہیں انہیں سب علم ہے کب کیا کرنا ہے۔ پھر ان کی ذہانت ملک اور عوام کے کام کیوں نہیں آئی؟ ان کی ذہانت اپنے کام آئی۔ انہوں نے اپنی عقل خاندان اور دوستوں کو مالدار بنانے کے لیے استعمال کی ہے۔ اس لیے ان کے خاندان کی پاکستان، لندن سے دوبئی تک جائیدادیں تک بن گئی ہیں۔ لاہور میں تعمیر کیا گیا قلعہ دیکھ کر پینٹاگون کی عمارت بھی اس کے سامنے ہیچ لگتی ہے۔ چھ ارب روپے کی لاگت آئی ہے ۔ کہاں سے آئی یہ رقم؟
کچھ سمجھدار تمام سیاسی پارٹیوں پر سرمایہ داری کرتے ہیں ۔ لیڈرز بھی سب سمجھتے ہیں کہ ان سرمایہ کاروں کے کچھ کام ہوتے ہیں جو حکومتوں میں آتے ہی کرنے ہوتے ہیں ۔ اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے۔ سودا نقد ہوتا ہے۔ چیک پر کام نہیں ہوتا۔ کیا نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر جرأت کرسکتے ہیں وہ زرداری کو ایک نوٹس بھیجیں کہ حضور آپ نے یہ قلعہ کیسے بنایا؟ کہاں سے وسائل آئے؟ وہ نہیں پوچھیں گے کیونکہ ہر بڑے عہدے پر زکوٹا جن بٹھا دیے گئے ہیں ۔
پتہ چلا ہے کہ اب تو لندن میں بھی کچھ ہوٹل خریدے جارہے ہیں۔ بینظیر بھٹو کے پرانے پارٹنر لندن پلٹ وزیر نے فرنٹ مین کے طور پر جو مال پاکستان سے کمایا وہ اب لندن میں لگ رہا ہے۔
تماشا لگانے کا حق صرف زرداری صاحب کو نہیں۔ ان کا تماشا ہم نے پانچ برس دیکھا اور ابھی باقی سندھ میں دیکھ رہے ہیں ۔ جس بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے نکلے ہیں اور نفرت کا اظہار کررہے ہیں اس سے ان کی ٹانگیں لرزنا شروع ہوگئی ہیں۔ عوام اب ان خاندانوں کی غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں۔
اصل تماشا تو اب شروع ہوا ہے اور زرداری صاحب کی چیخیں ابھی سے نکلنا شروع ہوگئی ہیں۔ اب بات تماشوں سے بھی آگے نکل گئی ہے جسے عمران خان اور طاہر القادری بھی ریورس کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکیں گے!