دو ایسی خبریں ہیں جنہیں جوڑکر پڑھا جائے تو احساس ہوگاکہ اس ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا اور اب تک کھیلا جارہا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں کیونکہ اگر چیزیں درست ہوگئیں تو پھر ہماری سیاست اور مال پانی کیسے چلے گا ؟ ان دو خبروں سے آپ کو یہ بھی پتا چلے گا کہ اپنے بچوںکو امریکہ اور یورپ کی یونیورسیٹوں میں پڑھانے والی مذہبی کلاس نے غریب بچوں کے مستقبل کوکیسے تباہ کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔
پہلی خبر یہ ہے کہ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت پر دبائو ڈال کر پشتو زبان میں دسویں جماعت کی درسی کتب سے ایک باب ختم کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس باب کے ذریعے بچوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کیسے پھیلی اور یہ ملک کیسے برباد ہوا ؟ نئے پاکستان کی علمبردار تحریک انصاف کی حکومت نے جماعت اسلامی کا یہ مطالبہ مان لیا ہے۔
دوسری خبر شمالی وزیرستان سے دربدر ہونے والی کمسن اور معصوم بہنوں حفصہ، نیازمانہ، ضیافت اور مروہ کے بارے میں ہے۔ یہ ان پچیس چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں میں شامل ہیں جو ظلم کا نشانہ بنے اورانہیں اسلام آباد کے سویٹ ہوم منتقل کیا گیا ہے۔ پاکستان بیت المال اور زمرد خان کا شکریہ کہ اس دور میں جب سب مال سمیٹ رہے ہیں، وہ اس سویٹ ہوم میں بے بس اور ماں باپ سے محروم بچوں کو سنبھال رہے ہیں۔
پہلی خبرکے مطابق جماعت اسلامی چاہتی ہے، پختون بچوں کوکوئی حق نہیں کہ وہ جان سکیں کہ ان کے خوبصورت خطے اورگھروں کو برباد کس نے اورکیوں کیا ؟ گویا وہ معصوم پشتون بچے اپنے ماں باپ سے بچھڑ گئے ہیں،انہیں یہ نہ بتایا جائے کہ یہ گریٹ گیم کون کھیل رہا تھا اوران کی زندگیاں کس نے اور کیسے برباد کیں ؟
پشاور سے انگریزی اخبارکے وقائع نگار محمد اشفاق کے مطابق ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی دسویں جماعت کی ٹیکسٹ بک پر جماعت اسلامی نے اعتراض کیا تھا اور پشتو میں لکھے گئے اس باب کو شرانگیز قرار دیا تھا جس کا عنوان تھا ''موجودہ دورکے مسائل‘‘۔ یہ اہم باب اُس وقت دسویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا جب خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی۔ اس وقت فیصلہ ہوا تھا پشتون بچوں کو بتایا جائے کہ اس خطے میں کیا کھیل کھیلا گیا جس سے سب برباد ہوئے ۔
اس باب میں لکھا گیا تھا : '' افغانستان میں سیاسی مسائل کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندے بے گھرہوکر پاکستان آئے اور اپنے ساتھ مسائل کا ایک انبار بھی لائے،اس سے پشتون اور پاکستانی معاشرے پر شدید اثرات مرتب ہوئے جو اب تک موجود ہیں ۔ یہ بات اب واضح ہے کہ انسان نے ہمیشہ طاقت استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر مظالم ڈھائے تاکہ وہ ان پر اپنا مذہبی، سیاسی ، قومی اور معاشی ایجنڈا اور خیالات تھوپ سکے۔ تاریخ میں جب بھی کسی جابر گروپ نے دوسروں پر حکومت کرنا شروع کی ، اس نے ظلم و ستم کو وتیرہ بنایا اور انسانیت کے خلاف ایسی ایسی حرکتیں کی گئیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے‘‘۔
اس باب میں کسی ملک یا علاقے کا نام دیے بغیرلکھا گیا کہ ''ابھی تک اس خطے میں پاور گیم جاری ہے جو پہلے ہی پاکستانی اور پشتون معاشرے پر تباہ کن اثرات ڈال چکی ہے۔ غریب لوگ اس گیم کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ امیر ممالک اس خطے میں اپنے تمام وسائل استعمال کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اپنا ایجنڈا مسلط کر سکیں اوراپنا اثر و رسوخ تیسری دنیا کے ممالک میں استعمال کرتے رہیں۔ یہ امیر ممالک ارادتاً یا غیرارادی طور پر ہم جیسے غریب لوگوں کی روزانہ کی تھوڑی سی ضروریات پوری کر کے اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ اقدامات بڑے اچھے اور نیک معلوم ہوتے ہیں اور غریبوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ان کے ایجنڈے پر چلتے رہے تو نہ صرف اس دنیا بلکہ اگلی دنیا میں بھی انہیں ثواب ملے گا؛ تاہم فی الحقیقت اس نیکی کے پیچھے وہ تشدد پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ جو وسائل کی کمی کی وجہ سے بچوں کو تعلیم نہ دلوا سکا،ان طاقتوں کے لیے استعمال ہوئے جس سے پاکستان میں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہی پاکستان کے مختلف مذہبی فرقے اور گروہ پیسے دے کرغریب طبقات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ دوسروں کو اس دوڑ میں شکست دینے کے لیے مذہبی شدت پسندی سے اختلافات بڑھتے ہیں جوکہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی ذمہ دار ہے‘‘۔
اس باب میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات پر بھی لکھا گیا ''ملک میں بے تحاشا آبادی بڑھنے کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ بچے زیادہ پیدا ہورہے ہیں اور وسائل کم ہیں،اکثریت اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج پاتی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر اور بھیک مانگنے کا کلچر بڑھ گیا ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے جہاں نوکریاں نہیں ملتیں، وہاں خودکشیاں، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں اور نشے کا استعمال بڑھ جاتا ہے‘‘۔
یہ آج کے پاکستان کے معاشرے کی تباہ کن حقیقتیں ہیں جو صرف پشتو زبان میں پشتون بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس پر جماعت اسلامی نے عمران خان پر دبائو ڈال کر اسے دسویں جماعت کے نصاب سے خارج کرادیا۔
کیا جماعت اسلامی کے اس اہم باب کو خارج کرانے سے حقیقتیں بدل جائیں گی؟
کیا جماعت اسلامی بھی ایک فیوڈل جماعت بن گئی ہے جو ایک جاگیردارکی طرح اپنے کمیوں اور مزارعوںکو جدید تعلیم دینے کے خلاف ہے؟ کیا یہ کام اس لیے کیا گیا کہ یہی پشتون بچے جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک اور مین پاور ہے جسے وہ برسوں سے استعمال کرتے آئے ہیں ؟ شہروں میں اپنے بچوں کو جدید سکولوں میں پڑھانے و الے جماعت اسلامی کے لاکھوں ارکان اس بات کے کیوں حامی ہیںکہ ان پشتون بچوں کو نہ پڑھایا جائے کہ اس خطے میں کون بربادی لایا اورکیسے اس ملک اور معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کی گئیں؟ خود امریکہ سے پڑھ کر آنے والے جماعت اسلامی کے لیڈروں کے بچے ان غریب پشتون بچوں کو یہ حق کیوں نہیں دیتے کہ وہ جان سکیں کہ اس خطے میں کیا گریٹ گیم کھیلی جارہی ہے؟ کیا جماعت اسلامی اور دیگر فرقوں کو یہ خوف ہے کہ اگر پشتون بچے سمجھدار ہوگئے تو پھر ان کی اپنی دوکانداری ختم ہوکر رہ جائے گی اور پھر انہیں قبائلی اور پس ماندہ علاقوں سے بھرتی کے لیے کوئی نوجوان نہیں ملے گا ؟
اس باب میں کون سی ایسی خطرناک بات ہے جس سے جماعت اسلامی اور ان کے لاکھوں ارکان خوفزدہ ہوگئے ہیں؟ کس کو ان حقیقتوں کا علم نہیں جو اس باب میں بیان کی گئی ہیں؟ کیا ہم نے قبائلی علاقوں کے بچوں کو اس لیے اپنے قریب رکھا ہے کہ انہوں نے ہمارے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنی ہے اور ہم نے انہیں استعمال کرنا ہے اور انہیں کبھی سمجھداری اور عقل کا سبق نہیں لینے دینا؟
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور لیاقت بلوچ جیسے سمجھدار لیڈروں سے توقع ہے کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی ان کے بچوں تک پہنچنے دیں گے، انہیں جدید دور کے ساتھ کھڑے ہونے دیں گے ۔ ہم سب مذمت تو جاگیرداروں کی کرتے ہیں لیکن اندر سے ہم جاگیرداروں کے روایتی ہتھکنڈوں کے دلدادہ ہیں اور ضرورت پڑنے پر اور جہاں بس چلتا ہے جاگیردار بن جاتے ہیں۔
عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ وہ پشتونوں کے سب سے بڑے چمپئین بنتے ہیں تو اپنے بچوں کی طرح ان بچوں کو بھی سکولوں میں کچھ سیکھنے دیں۔ انہیں پتا چلنے دیں کہ ان کے اس خطے میںکون بربادی لایا تھا اورکیسے جماعت اسلامی کی قیادت نے امریکہ کے ساتھ مل کر وہ گریٹ گیم کھیلی تھی جس کا فائدہ جنرل ضیاء اور ان کے جرنیلوںاور ان کی اولادوں کو ہوا تھا اور اس کھیل میں لاکھوں افغانی اور پاکستانی پشتون اور دیگر پاکستانی مارے گئے تھے۔ کیا ان پشتون بچوں کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کے ماں باپ کے قاتل کون تھے؟ کس نے ڈالروں کے عوض انہیں بیچا؟ انہیں دنیا بھر میں کبھی مجاہدین تو کبھی دہشت گرد بنا کر بیچا گیا اور اپنی جیبیں بھری گئیں۔کیا ان پشتون بچوںکو یہ جاننے کا بھی حق نہیں کہ کن جرنیلوں اور جماعت اسلامی کے بڑے بڑے لیڈروں کے بچے امریکہ میںپڑھتے رہے اور وہ پشتونوںکو ان کی بہادری کی کہانیاں سنا کر اور لوریاں دے کر جنگوں میں جھونکتے رہے۔
ہمیں مان لینا چاہیے کہ جب اپنے اپنے مزارعوں، نوکروں، ہاریوں، کمیوں کو تعلیم سے محروم رکھ کر ان پر حکمرانی کرنی ہو تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ایک جاگیردار ہے یا جماعت اسلامی یا تحریک انصاف جو مل کر پشتون بچوں کو یہ پڑھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں کہ انہیں کس نے برباد کیااور اس بربادی کی قیمت اور فوائد کس نے سمیٹے؟
لگے رہو منا بھائی اور کرتے رہو پشتون بچوں کو برباد۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم ظالموں کا دل لاکھوں افغانیوں، پشتونوں اور پچاس ہزار پاکستانیوں کو مروا کر بھی نہیں بھرا۔۔۔۔۔!