میاں نواز شریف کی ایک بات کا میں بڑا قائل ہوں۔ وہ یُوٹرن بھی اتنی خوبصورتی اور معصومیت سے لیتے ہیں کہ بندہ ان کے قربان جائے۔ میں لندن میں پورا ایک سال ان کی کمپنی انجوائے کر چکا ہوں اور ایسے کئی یوٹرنز کا گواہ ہوں۔ بعض دفعہ تو سوال کرنے والا شرمندہ ہوجاتا ہے کہ کیسے شریف انسان سے کیا بیہودہ سوال کر بیٹھا۔ میں خود کئی دفعہ اپنے سوالات پر شرمندگی محسوس کر چکا ہوں۔
وزیراعظم فرماتے ہیں کہ عمران خان کا سیکرٹ ایجنسیوں کو الیکشن فراڈ کی تحقیقات میںشامل کرنے کا مطالبہ عجیب و غریب ہے۔ مجھے نواز شریف صاحب سے اتفاق ہے۔ عمران ایک طرف پولیس اور بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا عزم کرتے ہیں تو دوسری طرف ملکی ایجنسیوں کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنا چاہتے ہیں ۔ بات اب کھلی ہے کہ دراصل اسحاق ڈار ہی اپنے ساتھ سیکرٹ ایجنسیوں کے لوگ لے کر تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے کنونشن سینٹر گئے تھے۔ جب جہانگیر ترین نے اعتراض کیا تو جواب ملا‘ اپنے ہی لوگ ہیں۔ اب وہی فرماتے ہیں کہ یہ مطالبہ عجیب ہے۔ ویسے ایسے عجیب و غریب کام تو نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی بہت کیے ہیں جو اس وقت خان صاحب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ زیادہ دور نہیں جاتے۔ 2006ء سے شروع کرلیتے ہیں جب چارٹر آف ڈیموکریسی کا ڈرامہ لندن میں کھیلا گیا‘ جس پر پورے ملک میں طبل بجائے گئے تھے کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لیا ہے اور اب اصلی اور نسلی جمہوریت کا دور آیا ہی چاہتا ہے۔اگر ان دنوں کے اخبارات اٹھائے جائیں تو پورا ملک حیران ہوجائے گا کہ ہمارے لیڈر مشکل وقت میں کس طرح کے عجیب و غریب کام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ چارٹر کی باقی ڈرامے بازیاں ایک طرف ، اس میں ایک شق رکھی گئی تھی کہ اگر نواز لیگ یا پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئے تو وہ سرونگ آرمی جنرلوں سے مل کر حکومت کے خلاف کوئی سازش کریں گے اور نہ ہی خفیہ ملاقاتیں ہوں گی۔ بینظیر بھٹو نے لندن میں رحمن ملک کے گھر پر خفیہ ملاقاتیں نہ کرنے کے اس معاہدے پر دستخط کیے اور اگلی فلائٹ پر دوبئی پہنچ گئیں‘ جہاں جنرل مشرف سے ان کی خفیہ ملاقات ہونا تھی۔ نواز شریف کو علم تھا کہ جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھول کر بھی بینظیر بھٹو سے یہ معاملہ نہیں اٹھایا کیونکہ ان کا سیاسی فائدہ اسی میں تھا۔
بینظیر بھٹو نے خفیہ طور پر اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی کو لندن بلوایا اور انہیں این ار آو معاہدے کا ضامن بنایا۔ کیونکہ بی بی کو بہت پہلے پتہ تھا کہ اگلے آرمی چیف ہوں گے‘ لہٰذا ان کی ضمانت درکار تھی جو انہیں مل گئی اور انعام کے طور پر تین برس بعد جنرل کیانی کو مزید تین سال مل گئے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اپنے آخری تین برسوں میں ان کی قوت فیصلہ جواب دے گئی تھی۔
جب نواز شریف کے سامنے ہم یہ سوال اٹھاتے کہ بینظیر بھٹو کی دوبئی میں جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں جاری ہیں تو وہ معصوم بن جاتے اور پھر بتاتے کہ وہ تو اپنے معاہدے پر قائم ہیں اور کسی جنرل سے کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔ مگر اس وقت چراغوں میں روشنی نہ رہی جب نواز شریف پاکستان لوٹے اور ہر وہ کام کیا جس کے نہ کرنے کی‘ ڈیوک اسٹریٹ میں روزانہ قسمیں کھائی جاتی تھیں۔
اسلام آباد میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بنی، تو کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ ان کے وزیراعلیٰ بھائی شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان سے صبر نہیں ہورہا اور ان کی آرمی چیف جنرل کیانی سے جی ایچ کیو میں خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ اہم بات یہ تھی کہ ان ملاقاتوں کا علم اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی نہیں تھا ۔ ایک ٹی وی چینل نے ان خفیہ ملاقاتوں کا بھانڈا پھوڑا تو چوہدری نثار علی خان نے خود پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں ان خفیہ ملاقاتوں کی تصدیق کردی۔ پتہ چلا کہ ٹی وی نے تو صرف چھ ملاقاتوں کا بھانڈا پھوڑا تھا‘ ملاقاتوں کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے۔ پوچھا گیا کہ ان خفیہ ملاقاتوں کا ایجنڈا کیا تھا؟ بتایا گیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت ہوتی تھی ۔ اگر یہ ایجنڈا تھا تو اس کے لیے رات کے دو بجے کا وقت کیوں ضروری تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ ان ملاقاتوں کا علم وزیراعظم گیلانی کو کیوں نہیں تھا؟
ویسے بھی نواز شریف معاہدے پر دستخط کر چکے تھے کہ اب سرونگ جنرلز سے ملاقاتیں نہیں ہوں گی تو پھر رات کے اندھیرے میں جنرل کیانی سے کیوں ملاقاتیں ہورہی تھیں؟ جب یہ سوال نواز شریف سے پنجاب ہائوس میں پوچھا گیا تو انہوں نے چہرے پر سنجیدگی طاری کر کے کہا‘ ان کے علم میں بھی نہیں تھا کہ اس طرح کی خفیہ ملاقاتیں ہورہی تھیں۔ اس پر میرا تبصرہ تھا کہ اگر
آپ کے علم میں لائے بغیر آپ کا وزیراعلیٰ بھائی اور پارٹی کا اہم لیڈر جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کررہے تھے تو اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں: یا تو آپ کی اپنی پارٹی پر گرفت ختم ہوچکی ہے اور اتنی اہم خفیہ ملاقاتوں سے پہلے آپ کو پارٹی کے لیڈر بتانا ضروری نہیں سمجھتے۔ اس صورت میں آپ کو پارٹی قیادت سے استعفیٰ دے دینا چاہیے‘ یا اگر واقعی آپ کے علم میں نہیں تھا اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی گئی تھی تو آپ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کو شوکاز نوٹس دے کر پارٹی سے فارغ کر دیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ دیوانے کا خواب تھا اور ایسے خوابوں کی تعبیر پوری نہیں ہوا کرتی؛ چنانچہ اس کے بعد بھی خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان خفیہ ملاقاتوں کا نتیجے میں سب نے دیکھ لیا کہ ایک دن عمران خان نے کھل کر کہہ دیا‘ الیکشن دھاندلی میں افتخار چوہدری کے علاوہ دوسرے طاقتور لوگ بھی ملوث تھے۔
اس کے بعد زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ میمو سکینڈل کا ڈرامہ رچایا گیا۔ سب کو علم تھا کہ کون اس سکینڈل کے پیچھے تھا ۔ پھر ایک دن آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا جب نواز شریف اور شہباز شریف نے کالے کوٹ پہنے اور سپریم کورٹ جا پہنچے کہ جناب ملک کے مفادات کا تقاضا ہے کہ میمو کمشن بنایا جائے اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔ نہ کوئی حکومت کو نوٹس ملا اور نہ ہی کسی نے کاغذ کا کوئی ٹکڑا عدالت میں پیش کیا اور آدھے گھنٹے میں کمشن بن گیا؛ حالانکہ دونوں پارٹیاں چارٹر آف ڈیموکریسی میں لکھ چکی تھیں کہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کی جائیں گی۔ لیکن خفیہ ملاقاتوں کے نتائج نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ اس کمشن کے بعد جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے اپنے اپنے بیان حلفی براہ راست سپریم کورٹ میں جمع کرائے حالانکہ وزیراعظم گیلانی چاہتے تھے کہ جوابات وزارت دفاع کے ذریعے بھیجے جائیں ۔ اس وقت نواز شریف چارٹر اور جمہوریت سب بھول گئے کیونکہ حسین حقانی سے بدلہ لینا ضروری تھا‘ لہٰذا جنرل پاشا اور جنرل کیانی کے لکھے گئے سکرپٹ پر چلتے ہوئے سپریم کورٹ جا کر میمو کمشن بنوانے سے ان لوگوں کے سیاسی ضمیر پر کوئی دبائو نہیں پڑا ۔ اس کے بعد آج تک کسی نے پھر نہیں پوچھا کہ اس میمو کمشن کا کیا بنا۔
اب عمران خان کی سادگی ملاحظہ فرمائیں ۔ ایک طرف وہ جنرل کیانی پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے دھاندلی کرانے میں کردار ادا کیا تھا‘ دوسری طرف فرماتے ہیں عدالتی دھاندلی کمشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو شامل کیا جائے۔ اب مجھے عمران خان سے پوچھنا ہے کہ اگر دھاندلی کرا کے نواز شریف کو جتوایا گیا تھا تو پھر یقینا متعلقہ اداروں کو ہی ہدایات دی گئی ہوں گی۔ تو پھر یہ ادارے اگر جنرل کیانی کی ہدایت پر دھاندلی میں ملوث تھے تو کیسے عمران خان کو سچا اور اپنے سابق چیف کو جھوٹا ثابت کریں گے؟ پھر کچھ عرصے بعد عمران خان کہتے پھریں گے کہ ان کے ساتھ ایک اور دھوکا ہوگیا تھا ۔
عمران خان اکیلے یہ عجیب و غریب کام نہیں کرتے۔ اللہ کے فضل سے سب پاکستانی سیاستدان اس معاملے میں خودکفیل ہیں۔ سب نے یہ راستہ دیکھا ہوا ہے اور وہ دروازہ آج تک بند نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ بھٹو ہوں، نواز شریف ہوں، عمران خان یا دیگر‘ سب اسی راستے سے اسلام آباد پر حکمرانی کا سفر طے کرتے ہیں۔ نواز شریف نے جنرل ضیاء دور میں عمران خان سے ذرا پہلے وہ دروازہ دیکھا تھا ، عمران خان کو کچھ وقت لگا ہے۔ ہاں‘ دونوں میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف چند برس کا۔