"RKC" (space) message & send to 7575

چوہدری نثار اپنے آپ کو معاف کر سکیں گے؟

عمران خان کی طرف سے تیس نومبر کے جلسے کے اعلان کے ساتھ ہی چوہدری نثار علی خان کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعد دوبارہ منظر پر ابھر آئے ہیں۔ 
یاد آیا کچھ ماہ پہلے نیویارک میں میاں مشتاق احمد جاوید کے گھر محفل عروج پر تھی۔ ان کے بیٹے، عمر، علی اور حمزہ ہم سب کی خدمت پر مامور تھے۔ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز مشتاق صاحب کی بیٹی زہرہ مشتاق کی شادی تھی‘ لہٰذا پاکستان سے ان کے خالد بھائی، فیصل آباد سے سابق سینیٹر طارق چوہدری‘ لندن سے یاسین صاحب اور ان کے سمدھی چوہدری شفیق صاحب بھی موجود تھے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کا انتظار تھا ۔
موضوع پاکستانی سیاست اور عمران خان کے دھرنے تھے۔ طارق چوہدری کا خیال تھا کہ اگر وہ میاں نواز شریف کی جگہ ہوتے تو عمران خان کے چار حلقوں کو کھولنے کے مطالبہ پر ان حلقوں میں نئے الیکشن کراتے‘ حلقے نہ کھولتے۔ بحران وہیںختم ہوجاتا چاہے ایک آدھ سیٹ ہار ہی کیوں نہ جاتے۔ میں نے پوچھا‘ چلیں اس وقت نواز لیگ میں ایسا کون ہے جو سیاسی مشورہ دے کر نواز شریف کی جان چھڑا سکتا ہے۔ طارق چوہدری بولے‘ چوہدری نثار علی خان۔ میں نے حیرانی سے دیکھا تو بولے وہ آج کی سیاست میں کسی کو ذہین سیاستدان سمجھتے ہیں تو وہ چوہدری نثار ہے۔ وہ اس صورت حال کا اب بھی بہتر حل نکال سکتے ہیں۔
مجھے چوہدری نثار کے بارے میں طارق چوہدری کا جملہ پاکستان لوٹ کر اس دن یاد آیا‘ جب چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر عمران خان کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ عدالتی کمیشن پر مان جاتے ہیں اور کمیشن کہہ دیتا ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی تو نہ صرف وزیراعظم استعفیٰ دیں گے بلکہ پوری پارلیمنٹ گھر جائے گی۔ میں چونک گیا۔ میرا خیال تھا چوہدری نثار نے عمران خان کو راستہ دے دیا ہے کہ مان جائو‘ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر تم نواز شریف سے جان چھڑا سکتے ہو یا پھر نئے الیکشن کرا سکتے ہو۔ مجھے شام کا انتظار تھا کہ عمران خان اس پیشکشں سے کیا فائدہ اٹھاتے ہیں‘ مگر وہ عمران خان ہی کیا جو کسی پیشکش سے فائدہ اٹھا پائے۔ چنانچہ الٹا کہا گیا کہ بلف کھیلے جارہے ہیں۔ عمران خان یہ بات نہ سمجھ سکے کہ فوج نواز شریف کو کبھی نہیں اتارے گی اور گیلانی کی طرح نواز شریف کو بھی عہدے سے ہٹانے کے لیے عدالتی راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ عمران خان اور ان کی پارٹی لاکھ کہتی رہے کہ حکومت کمیشن بنانے میں سنجیدہ نہیں تھی لیکن اس وقت حکومت خوفزدہ تھی‘ اس لیے تیار تھی۔ اگر اس شام عمران خان چوہدری نثار کی یہ بات قبول کرلیتے تو اس میں انہی کا بھلا تھا۔
چوہدری نثار کوئی عام سیاستدان نہیں ہیں ۔ ان کے مخالفین بھی ان کی خوبیوں کے قائل ہیں اور مجھے بھی یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ قومی اسمبلی میں چند ایسے مقررین کی فہرست بنائی جائے جنہیں ہائوس میں غور سے سنا جاتا ہے تو ان میں ایک نام چودھری صاحب کا ہوگا ۔ اگرچہ وہ بہت طویل تقریر کرتے ہیں لیکن اپنے سیاسی مخالفوں کا جینا حرام کردیتے ہیں ۔
بینظیر بھٹو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپوزیشن کے لیے بنی تھیں، وزیراعظم بن کر ضائع ہوگئیں۔ ان سے بہتر فائٹر کوئی نہیں تھا۔ ان کے بعد اگر کسی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے لیے ہی بنا ہے اور اس کی صلاحیتیں اپوزیشن ہی میں کھل کر سامنے آتی ہیں تو وہ اور کوئی نہیں بلکہ چوہدری نثار علی خان ہی ہیں ۔ حکومت میں جا کر وہ بھی ضائع ہوگئے ہیں ۔ 
ناقدین کہتے ہیں عمران خان اور طاہر القادری کا بھی دائو ضائع گیا کیونکہ وہ فوری طور پر فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ الٹا الزامات لگے کہ وہ ایجنسیوں کا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے تھے۔ میاں نوازشریف کو بھی نقصان ہوا ہے کہ وہ پہلے کی نسبت کمزور پڑ گئے۔ 
ان کے علاوہ میاں شہباز شریف کو بھی نقصان ہوا ہے کیونکہ اب طاہر القادری نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کی ایک اہم شخصیت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ماڈل ٹائون سانحہ پر شہباز شریف استعفیٰ دے دیں گے۔ جس کا مطلب ہے ریاست کے دو اہم ستونوں کے درمیان معاملات بہت آگے تک جا چکے تھے اور اب شاید دوبارہ اتنی جلدی نارمل نہیں ہوسکیں گے۔ 
اگر بغور دیکھا جائے تو پارلیمنٹ کی توقیر پر بھی حرف آیا ہے۔ وہاں جس طرح دھرنوں کے خلاف جملے بازی کی گئی اور دھرنے والوں کو القابات سے نوازا گیا‘ اس سے لوگوں میں یہ تاثر ابھرا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاسی گروہ اقتدار پر قابض ہوکر آمر بن چکے ہیں اور وہ اپنے خلاف اٹھنے والی کسی آواز کو سننے اور سمجھ کر فیصلے کرنے کی بجائے اسے دبا دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں کا پارلیمنٹ پر اعتماد کم ہوا کیونکہ پارلیمنٹ اس بحران کا کوئی حل نکالنے میں ناکام رہی اور اب وہ بحران دوبارہ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ عمران خان اپنی ضد چھوڑ کر صرف کمیشن بنانے پر راضی ہوگئے ہیں لیکن لگتا ہے‘ اب حکومت تیار نہیں ہے۔ 
ان تمام تر نقصانات کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس بحران میں سب سے زیادہ نقصان چوہدری نثار علی خان کا ہوا ہے۔ وہ ایک دبنگ سیاستدان سمجھے جاتے تھے۔ ان کی آواز کی گونج اور گرج سے بڑے بڑے دہل جاتے تھے۔ میں انہیں No non sense ٹائپ سیاستدان سمجھتا آیا ہوں۔ اگرچہ اب میرا ان سے میل جول زیادہ نہیں رہا لیکن پھر بھی ان کی ذہانت اور خوبیوں کا میں قائل ہوں‘ اس لیے کچھ موقعوں پر ان سے مایوس ہونا ایک فطری عمل تھا۔مثلاً میرا خیال تھا کہ چوہدری نثار وزیرداخلہ کے طور پر سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے کیونکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی کارکردگی نسبتاً بہتر تھی۔ اسی طرح میرا خیال تھا کہ چوہدری نثار علی خان کو جب یہ پتہ چلا تھا کہ رحمن ملک کے دور میں سات ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی ایک چینی کمپنی کو کی گئی اور اس کے بدلے میں چار ناقص سکینر دیے گئے جو کسٹمز کے کام آتے ہیں تو وہ اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے اور رحمن ملک اور دیگر کے خلاف نیب میں دیمک چاٹتے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے‘ مگر پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی اور مجھے لگا کہ میرا گمان غلط تھا۔ میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ رحمن ملک کے دور میں بلیو پاسپورٹ کی عزت کا جس طرح جنازہ نکالا گیا اور دو ہزار غیرقانونی پاسپورٹ ان لوگوں کو دیے گئے جن کا دور دور تک حکومت سے تعلق نہ تھا، چوہدری صاحب اس پر بھی کمپرومائز نہیں کریں گے اور قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کی دھجیاں اڑائیں گے کیونکہ وہ پی اے سی میں بیوروکریٹس کو دن رات یہی نصیحتیں کیا کرتے تھے‘ لیکن شاید چوہدری صاحب کو احساس ہوا 
ہو گا کہ چیئرمین پی اے سی کی کرسی پر بیٹھ کر قانون‘ انصاف اور رولز کے بھاشن دینے اور اصل میں کارروائی کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے چوہدری صاحب اپنے ان بھاشنوں پر کچھ شرمندہ ہوئے ہوں جو انہوں نے پہلے قومی اسمبلی اور پھر چار سال تک بیوروکریٹس کو پی اے سی کے اجلاسوں میں دیے تھے۔ ممکن ہے بابو سب بھول گئے ہوں لیکن مجھے سب یاد ہیں۔ 
اس سے بھی بڑی مایوسی اس وقت ہوئی جب انہوں نے چوہدری اعتزاز احسن پر الزامات لگائے اور اگلے دن اعتزاز احسن نے ان سے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر چوہدری صاحب کا براہ راست آپریشن کیا اور وہ منظر ٹی وی پر براہ راست سب نے دیکھا۔ پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں کا خیال تھا کہ چوہدری نثار اپنی ذات پر کیے گئے حملوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں‘ لیکن ان کے بھائی جنرل افتخار علی خان پر جو نواز شریف کو دھوکا دینے کا الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے بارہ اکتوبر کی بغاوت کے روز نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، اس پر سخت ردعمل ظاہر کریں گے‘ مگر سب نے دیکھا کہ وزارت جیت گئی اور چکری کا دبنگ چوہدری نثار علی خان ہار گیا‘ میں ناقد ہونے کے باوجود جن کی عزت کرتا تھا کہ وہ ان سیاستدانوں میں سے ہیں‘ جن کے لیے عہدے اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنے وہ خود ہوتے یا لگتے ہیں ۔ 
ہو سکتا ہے برسوں بعد کبھی کسی طولانی رات میں وہ اپنے آپ کو معاف نہ کر پائیں کہ وہ وزارت بچانے کے لیے اپنے بھائی پر نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے الزامات کو خاموشی سے سہہ گئے تھے‘ ایسا بھائی جو اپنا دفاع کرنے کے لیے اس دنیا میں موجود نہیں تھا۔ 
میرا خیال ہے چوہدری نثار اس طویل اور اداس رات... اگر کبھی وہ آئی... اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکیں گے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں