ایک کالم نگار نے مشورہ دیا تھا کہ کالموںمیں اپنے ذاتی ایشوز کے بارے میں نہ لکھنا ۔ قاری کو دلچسپی نہیں ہوتی ۔ کوشش کی لیکن کبھی کبھار ناکام ہوجاتا ہوں ۔ پھر ہارون الرشید صاحب نے ایک دفعہ یہ لکھ کر آسانی پیدا کر دی کہ ہم بھی گوشت پوست کے انسان ہیں ۔ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہارون صاحب نے اپنے ایک کالم میں تاثر دیا ہے کہ میں مغرور ہوں‘ کہ لوگوں کے فون ہی نہیں سنتا۔ اس کے بعد پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا سبھی کا خیال ہے وہ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ ہارون صاحب کے اپنے بارے میں کمنٹس خود بھی انجوائے کرتا ہوں‘ کبھی جواب نہیں دیا۔ تاہم کچھ غلط فہمیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے ورنہ یہ سنی سنائی باتیں ایک دن حقیقت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔
ہارون صاحب جس فون کال کی بات کر رہے ہیں‘ انہیں علم ہے کہ وہ جب کی گئی تو ان دنوں مجھے ہفتے میں دو دن بیوی کے ساتھ ہسپتال رہنا پڑتا تھا۔ میں صبح اٹھ کر مارننگ نیوز شو کرتا اور ہسپتال سے ہی اسٹوڈیو جاتا‘ لہٰذا جلدی سو جاتا تھا ۔ صبح سات بجے اٹھ کر مس کال دیکھی جو رات کے ڈیڑھ بجے کے قریب کی گئی تھی ۔ مارننگ شو کے بعد فون کیا: سوری! رات آپ کی کال آئی تھی‘ میں سو رہا تھا۔ بولے: جنرل اشفاق پرویزکیانی کے ساتھ موجود تھا، وہ بات کرنا چاہتے تھے۔ میں نے بتایا آپ کو توعلم ہے رات کو بیوی کے ساتھ ہسپتال میں ہوتا ہوں ۔ اس دن سے ہارون صاحب کی رائے میرے بارے میں بدل چکی ہے کہ میں فون نہیں اٹھاتا‘ مغرور ہوچکا ہوں ۔
مارننگ شو کے بعد گھر جا کر سوتا ہوں تاکہ نیند پوری کر لوں ۔ اس وقت میں فون یا گھنٹی بند کردیتا ہوں۔ یوں تو دوستوں کو شکایت ہے کہ جب ہم جاگ رہے ہیں تو وہ کیوں سو رہا ہے ۔ ہر صحافی ،کالم نگار یا اینکر کو دن میں ایک سو سے زیادہ فون کالز آتی ہوں گی۔ کیا کوئی ایک دن میں ایک سو کالز اٹینڈ کر کے نارمل زندگی گزار سکتا ہے؟ پھر آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اس کی طویل بات سن کر اس کا مسئلہ بھی حل کرائیں ۔
ہارون صاحب نے اپنے ایک دوست کے بارے میں لکھا‘ اسے مجھ سے مسلسل شکایت ہے کہ میں نے اس کی ذاتی کام میں مدد نہیں کی تھی۔ انہیں ساری کہانی کا علم ہے جو میں کسی صورت یہاں نہیں لکھ سکتا‘ چاہے ساری عمر جھوٹا ہی کیوں نہ ٹھہرایا جائوں ۔ میں نے شکایت کی آپ کو پوری کہانی کا علم تھا، پھر بھی آپ نے ملبہ میرے اوپر ڈال دیا۔ بولے: مجھے پتہ ہے تمہارا قصور نہیں‘ بس سوچا‘ اس دوسرے دوست کی دل جوئی کر دوں۔ میں ہنس پڑا کہ جانتے بوجھتے مجھے ملزم ٹھہرا کر کیسی دل جوئی؟
ہارون صاحب سے بہتر کون جانتا ہے‘ آزاد اور بے خوف صحافت کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ہارون صاحب اکیلے نہیں بلکہ میری اپنی تین بہنیں مجھ سے ناراض ہیں ۔ ان کے بچے ماسٹرز کر کے بھی بیروزگار تھے۔انہیں جرنلزم سمجھانے کی کوشش کی تو وہ تینوں ناراض ہوئیں کہ تمہارے وزیر کو فون کر دینے سے کون سی قیامت آجائے گی‘ بچوں کا مستقبل بن جائے گا ۔ جن بہنوں نے مجھے اپنی گود میں کھلایا تھا وہ آج مجھ سے بات نہیں کرتیں۔ وہ بھی ہارون صاحب کی طرح سمجھتی ہیں‘ میں بدل گیا ہوں ۔ شہرت میرے دماغ کو چڑھ گئی ہے۔ ہارون صاحب کو علم ہے‘ شہرت کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ آپ کی زندگی آپ کی نہیں رہ جاتی۔ قیدی کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ جسے اچھی طرح نہ ملو‘ وہ آپ کو مغرور اور بدتمیز سمجھنے لگتا ہے۔ پچھلے دنوں موٹروے پر بچوں کے ساتھ برگر کھا رہا تھا۔ ڈاکٹر خالد صاحب ملے‘ میں طویل ڈرائیورنگ کر کے تھکا ہوا تھا۔ ڈھیلے انداز میں ہاتھ ملایا ۔ میرے بیٹوں نے بھی مجھ سے گلہ کیا بابا! آپ نے ان سے درست انداز میں ہاتھ نہیں ملایا ۔ کسی کو آپ سے کیا لالچ ہے ۔ اپنے فین کو اچھے طریقے سے ملا کریں ۔ میں شرمندہ ہوا اور معذرت کی ۔
پنجاب حکومت میںملازم ایک بھانجا روزانہ فون کر کے کہتا ہے‘ ماموں میری پروموشن ہو چکی ہے لیکن محکمے کی خاتون سربراہ کا کہنا ہے کسی صوبائی وزیر سے سفارش کرادو تو نوٹیفکیشن ہوگا ۔ میں چپ رہا۔ وہ بھی یقینا مجھے مغرور سمجھتا ہوگا‘ ماموں میرے لیے ایک فون بھی نہیں کرسکتے۔ روزانہ اپنے جیسے انسانوں کی دکھی داستانیں اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانیاں پڑھ کر میں خود اپنے آپ کو ان مسائل کا ذمہ دار سمجھنا شروع ہو گیا ہوں۔ ایک دفعہ کچھ مسائل پر لکھا تو بیرون ملک سے ایک جاننے والے کی ای میل آئی جس میںمیری ڈانٹ ڈپٹ کی گئی تھی تم کن چکروں میں پڑ گئے ہو۔ صحافت کرلو یا پھر سیاست۔تم کس کس کے کام کرا سکتے ہو۔
یہ اور کہانی ہے جب وہ پاکستان لوٹے تو سب سے زیادہ ان کے کام ہی نکلے اور ہر روز جب ان کا کوئی نیا کام نکلتا تو ان کی ای میل یاد آتی۔ مروت اور احترام کی وجہ سے کبھی جرأت نہ کر سکا کہ کسی دن ای میل کا پرنٹ سامنے رکھ کر پوچھوں کہ اب بتائیں... بیرون ملک رہتے ہوئے لگتا ہے ہم سفارش کرکے غلط کرتے ہیں۔ پاکستان درست ہوسکتا ہے اگر میرٹ آجائے۔ جب پاکستان لوٹتے ہیں تو پتہ چلتا ہے یہاں تو سفارش اور پیسے کے بغیر آپ کا کوئی کام نہیں ہوسکتا؛ چنانچہ کام کرانے کے لیے افسر اور صحافی ڈھونڈتے ہیں۔
سرائیکی علاقوں کے نوجوان مجھ سے توقع کرتے ہیں ان کے ایشوز اٹھائوں۔ امریکہ میں تھا کہ بہاولپور سے جرنلزم کے ایک طالبعلم کی میل آئی کہ کوئی سفارش نہیں، تین ماہ کے لیے انٹرن شپ چاہیے تھی۔ امریکہ سے اسلام آباد ایک بیوروچیف دوست کو فون کیا۔ اس نے اس وقت تو ڈیڑھ ماہ کے لیے رکھ لیا ۔ لڑکے کو لکھا جا کر شکریہ ادا کرو۔ جب بیوروچیف دوست کو پتہ چلا کہ لڑکا بہاولپور سے ہے تو‘ پتہ نہیں اسے کیا ہوا‘ دفتر کے گارڈز کو بلوا کر بچے کو دھکے دے کر باہر نکلوا دیا کہ سفارش کراتے ہو ۔ دل آج بھی دکھ سے بھر جاتا ہے۔ اتنی دور سے آئے کسی کے بچے کی عزت نفس پر کیا گزری ہوگی ۔ اس تکلیف کا بیان کرنا مشکل ہے کہ ہمارے علاقے کے بچوں کو ڈیڑھ ماہ کی انٹرن شپ بھی سفارش پر نہیں مل سکتی ۔
سیاستدان اوربیوروکریسی نے ایک اور کام کیا ہے۔ جو کام نچلے لیول پر ہونا چاہیے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ وہ فیوڈل لارڈ سب کچھ کنٹرول کرتے ہیں ۔ آپ ان کے ڈیرے پر جائیں تو کسی افسر کو فون ہوگا اور وہ افسر چاہے آپ کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو وہ کام اس وزیر یا سیاستدان کے کہنے پر ہی کرے گا ۔ یہ وہ منحوس چکر ہے جس میں ان چند طاقتور لوگوں نے ہمیں ڈال دیا ہے اور پھر وہ لوگ اس کام کے بدلے میں آپ سے ووٹ لے کر آپ کو ہی غلام بناتے ہیں ۔
اپنے گائوں کے دو چار غریب بچوںکو دو سو روپے ڈیلی ویجز پر رکھوایا۔ لیہ کے ایک ایم این اے نے جا کر نہ صرف افسران کو گالیاں دیں بلکہ بچوں کو برطرف بھی کرایا ۔چھ ماہ سے وہ بچے بیروزگار ہیں ۔ وہ روزانہ فون کرتے ہیں ۔ ہارون صاحب بتائیں ان کے فونز کا کیا کروں؟ پہلے گائوں سے فون آتے تھے فلاں کام کرادو۔ اب پورے ضلع اور ملک سے آتے ہیں ۔ ان کے جینوئین مسائل ہیں ۔ کچھ بچپن کے دوست ہیں‘ ان کے بچے بیروزگار ہیں ۔ کالج دور کے دوست، کلاس فیلوز اور ہوسٹل فیلوز فون کرتے ہیں ۔ ان کے اپنے مسائل ہیں‘ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں ان کا کام فوراً کرادوں گا۔ اگر نہیں کراسکتا تو پھر میں مغرور ہوگیا ہوں‘ بدل گیا ہوں۔
اپنے آپ کو جب ان دوستوں، رشتہ داروں اور مظلوم لوگوں کی جگہ رکھ کر سوچتا ہوں تو شرمندہ ہوجاتا ہوں ۔ اگر ان میں سے کوئی میری جگہ ہوتا تو میں بھی ان سے یہی توقعات رکھتا جو وہ مجھ سے رکھتے ہیں اور وہ مدد نہ کرتے تو اسے مغرور سمجھتا۔
ہم تو کسی سے کھانا کھا لیں تو بھی ظالم اگلے دن اخبار میں لکھ دیتے ہیں آپ تنقید تو کررہے ہیں لیکن آپ نے کچھ عرصہ پہلے دیسی مرغی کھائی تھی۔ ہارون صاحب کو ایک وزیر نے طعنہ دیا۔ میں نے اس وزیر کو فون کیا: حضور! لندن میں کچھ کھانے آپ نے مجھے بھی کھلائے تھے۔ میرا نام اخبار میں نہ دیجیے گا۔ آپ مجھے بل بھیج دیں‘ پائونڈز میں ہی ادائیگی کر دوں گا۔
ایک دفعہ ایک اخبار کے مالک نے کہا: وزارت اطلاعات کے افسران شکایت کرتے ہیں تم ان کے کھانے پر نہیںجاتے۔ میں نے کہا وہ کھانے کھلا کر نام سیکرٹ فنڈز کی فہرست میں ڈال کر ہمیں دنیا بھر سے گالیاں دلاتے ہیں اور پھر توقع کرتے ہیں ہم ان کے فون پر خبریں روک دیں گے۔
اب بھی اگر ہارون الرشید صاحب مجھے مغرور سمجھیں تو ان کی مرضی۔ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھانا آسان نہیں، لیکن آج اٹھانا پڑ گیا۔ ابھی اتنا نہیں بدلا جتنا لکھ دیا گیا ہے۔ ہاں یقینا کچھ خودغرضی پیدا ہوگئی ہے۔ زندگی کے کچھ لمحے اپنی مرضی سے بھی جینا چاہتا ہوں!