راکیش وید بڑے عرصے بعد پاکستان آرہے تھے۔
راکیش کے آبائو اجداد پاکستانی پنجاب سے بھارت گئے تھے۔ وہ آج بھی اپنے پرکھوں کے گائوں سے ناتا رکھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان پہنچ کر وہ پہلے اپنے چھوڑے ہوئے گھر جاتے ہیں۔ وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں سنتے اور ہمیں بھی نہیںچھوڑتے کہ اس خوبصورت ملک کا کیا حشر کر دیا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت میں انہیں ہماری وجہ سے بہت باتیں سننا پڑتی ہیں۔اب کے وہ پاکستان آئے تو حیران ہوئے کہ بھارت میں جو تاثر ہے‘ اس کے برعکس یہاں تو سب ٹھیک ہے۔ ایک بھارتی ریاست کے بی جے پی کے سابق وزیراعلیٰ بھی ان کے ساتھ تھے جو ٹیکسلا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ وزیراعلیٰ بھی حیران تھے کہ پاکستان تو ایک نارمل ملک ہے اور جو کچھ دور سے دِکھتا یا دکھایا جاتا ہے‘ اس کے قطعی برعکس ہے۔
میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان بہتر ہورہا ہے۔ عمران خان اور بلاول بھٹو نے جس طرح دیوالی‘ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ منائی‘ اس سے فرق پڑ رہا ہے۔ عمران خان نے ہمت کی اور پوری قوم کے سامنے کنٹینر پر کھڑے ہو کر دیوالی منائی۔
راکیش بھائی کا پیغام ملا تھا کہ بھارت سے کچھ چاہیے۔ میں نے کہا‘ کاجو کی برفی اور مہابھارت۔ مہابھارت کی کہانیاں ٹکڑوں میں پڑھ رکھی ہیں۔ لو جی‘ وہ پوری آٹھ کتابیں اٹھا لائے اور ایک سے بڑھ کر ایک ۔ رات کو بستر پر کتابوں کے درمیان لیٹ کر سوچتا رہا‘ کون سی کتاب شروع کروں۔ شوق سے منگوائی تو مہابھارت تھی لیکن عظیم بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر کی آپ بیتی اٹھا کر پڑھنا شروع کر دی۔ شاید اس لیے کہ اس نے چند برس قبل بڑی محبت کے ساتھ میرے چھوٹے بیٹے کو اوول کرکٹ گرائونڈ لندن میں بائونڈری لائن کے قریب آٹوگراف دیا تھا۔ بیٹا میرے ساتھ بھارت اور برطانیہ کا میچ دیکھنے گیا ہوا تھا ۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا‘ کب وہ وقفے کے بعد بھارتی ٹیم کو پویلین سے نکلتے دیکھ کر بھاگ کر گیا تاکہ کسی کھلاڑی سے ہاتھ ملا سکے۔ کسی کھلاڑی نے اس پر توجہ نہ دی۔ کوئی اور بات نہ سوجھی تو اس نے زور سے سچن کو آواز دی جو گرائونڈ میں خاصا اندر پہنچ چکا تھا۔ سچن بچے کی آواز پر پلٹا ، اس سے ہاتھ ملایا اور بیٹ پر آٹوگراف دے کر پھر گرائونڈ میں گیا۔ میں یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کیسے اس نے ایک اجنبی بچے کو پوری توجہ دی اور میرے دل میں فطری طور پر اس کی عزت بڑھ گئی ۔
ساڑھے پندرہ برس کی عمر میں ٹنڈولکر کے کیریئر کا آغاز 1988ء میں پاکستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ سے ہوا۔ لہٰذا اس کی آپ بیتی پاکستان سے شروع ہوتی ہے۔ ٹنڈولکر نے پاکستان کے حوالے سے بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں ۔ ایک بچے کے کیا احساسات ہو سکتے ہیں‘ جسے عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، عبدالقادر، جیسے ٹاپ بولرز کا سامنا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ پاکستان کے حوالے سے اس نے بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا‘ لہٰذا جہاں اس پر کرکٹ ورلڈ میں داخل ہونے کا جنون اور سنسنی طاری تھی‘ وہیں پاکستان آنے کا رومانس بھی اپنی جگہ پر موجود تھا۔ ٹنڈولکر کو لاہور کے کھانے بہت پسند آئے‘ خصوصاً وہ حلیم کا گرویدہ ہوگیا ۔ قیمہ پراٹھے بھی اس کے من کو بھا گئے اور سب سے بڑھ کر لسی نے تو ٹنڈولکر کو دیوانہ کر دیا۔ اسے پاکستانی کھانے اتنے بھائے کہ جب وہ سیریز کے اختتام پر بھارت واپس گیا تو اس کا وزن چند کلو بڑھ چکا تھا۔
اس کتاب میں تین واقعات ایسے ہیں جو میرے خیال میں جہاں ٹنڈولکر کی عظمت بیان کرتے ہیں کہ کیسے وہ پیدائشی بڑا بیٹسمین تھا‘ وہیں عبدالقادر جیسے بڑے کھلاڑیوں کے بارے میں بھی کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے۔
کراچی ٹیسٹ میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یہ کپل دیو کا سوواں میچ تھا ۔ میچ کے پہلے دن ایک باریش شخص دوڑتا ہوا میدان میں آیا‘ سیدھا کپل دیو کی طرف گیا اور اسے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ وہ پاکستان کیوں آیا ہے۔ کپل دیو نے بعد میں اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ بولنگ اینڈ پر تھا‘ جب وہ شخص آیا اور اسے بُرا بھلا کہنے لگا۔ کپل نے اسے کہا‘ جائو مجھے بولنگ کرنے دو۔ کپل دیو کے بعد وہ شخص مڈآف پر گیا اور منوج پربھارکر کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ وہاں سے وہ سیدھا بھارتی کپتان سری کانت کی طرف گیا اور اس کا گریبان پکڑ کر شرٹ پھاڑ دی۔ ٹنڈولکر خوفزدہ ہو کر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ بندہ اس کی طرف آیا تو وہ ڈریسنگ روم کی طرف دوڑ لگا دے گا۔ پاکستانی سکیورٹی یہ تماشہ دیکھتی رہی اور کوئی بھارتی کھلاڑیوں کی جان چھڑانے گرائونڈ میں نہیں آیا؛ تاہم جب اس شخص نے سری کانت کا گریبان پکڑا تو سکیورٹی کو خیال آیا اور سکیورٹی والے گرائونڈ میں داخل ہو کر اسے پکڑ کر لے گئے۔
بھارتی کھلاڑیوں کو اگلے دن پاکستانی اخبارات دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ سب نے لکھا تھا کہ ایک باریش شخص کپل دیو کو سووان میچ کھیلنے کی مبارک باد دینے گرائونڈ میں جا پہنچا۔ سب ہنسنے لگے۔
سیالکوٹ میں چوتھے ٹیسٹ کے دوران ٹنڈولکر بیٹنگ کر رہا تھا ۔ وقار یونس بولر تھا۔ ٹنڈولکر نے ابھی ایک ہی رن سکور کیا تھا جب وقار کی ایک شارٹ بال جو ٹنڈولکر کا خیال تھا کہ ٹھوڑی تک آئے گی، توقع کے برعکس چھ انچ زیادہ اچھل گئی اور ہیلمٹ پر لگ کر اس کے ناک پر جا لگی۔ سری کانت اور ٹنڈولکر اس وقت جالی والی ہیلمٹ نہیں پہنتے تھے۔ ایسے ہیلمٹ بہادری کا نشان سمجھے جاتے تھے۔ ٹنڈولکر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ٹنڈولکر نے دیکھا کہ اس کی شرٹ پر خون پھیل چکا ہے۔ جب ٹنڈولکر اس جھٹکے اور چوٹ سے سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا‘ اس وقت جاوید میانداد نے اونچی آواز میں اسے مزید ڈرانے کے لیے کہا۔ ''ارے تجھے تو ابھی ہسپتال جانا پڑے گا، تیری تو ناک ٹوٹ گئی ہے‘‘... تبھی ٹنڈولکر کی نگاہ تماشائیوں کے اسٹینڈ کی طرف گئی جہاں ایک بینر پر لکھا تھا ''بچے گھر جائو اور دودھ پیو‘‘...
تاہم جو بات ٹنڈولکر ابھی تک نہیں بھول سکا‘ وہ عظیم پاکستانی بائولر عبدالقادر کے ساتھ ہونے والا اس کا ٹاکرا تھا ۔ پشاور میں میچ ہونا تھا لیکن بارش کی وجہ سے آدھا دن ضائع ہوگیا تھا ۔ تماشائی بہت تعداد میں موجود تھے۔ دونوں ٹیموں نے فیصلہ کیا کہ ان تماشائیوں کو کچھ تفریح فراہم کرتے ہیں اور بیس اوورز کا ایک دوستانہ میچ کھیلتے ہیں۔ مشتاق احمد ان دنوں نیا نیا پاکستانی ٹیم میں شامل ہوا تھا۔ پاکستانی ٹیم نے بیس اوورز میں 157 رنز بنا لیے تھے۔ جب ٹنڈولکر کی باری آئی تو اس وقت تین وکٹیں گر چکی تھیں اور گیارہ رنز فی اوور کی اوسط سے رنز بنانے تھے۔ سری کانت اور ٹنڈولکر اکٹھے بیٹنگ کر رہے تھے۔ سری کانت نے اسے کہا‘ کچھ بیٹنگ پریکٹس کر لو؛ تاہم ٹنڈولکر پریکٹس کے موڈ میں نہیں تھا۔ ٹنڈولکر کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کو میچ ہرا سکتے تھے۔ مشتاق کو ٹنڈولکر نے ایک چھکے کی سلامی دی اور اس کے بعد لگاتار کئی چھکے مارے۔ ایک چھکا تو اتنا دور گیا کہ اس نے کھلاڑیوں کے ڈریسنگ روم کی کھڑکی تک توڑ دی ۔ پاکستانی کھلاڑی توقع نہیں کرتے تھے کہ وہ بچہ بھی چھکے مارے گا۔
عبدالقادر چلتے ہوئے ٹنڈولکر کے قریب گئے اور بولے۔ ''بچے (مشتاق) کو کیوں مار رہے ہو۔ دم ہے تو مجھے مار کے دکھائو‘‘... ٹنڈولکر نے کہا‘ سر آپ ایک عظیم بولر ہیںاور مجھے یقین ہے آپ مجھے چھکے نہیں مارنے دیں گے۔ دو اوورز باقی تھے اور ابھی چالیس رنز درکار تھے۔ قادرنے بولنگ شروع کی۔ ٹنڈولکر کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ ہٹ کرو۔ ٹنڈولکر نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا اور عبدالقادر کے اس ایک اوور میں 28 رنز سکور کیے۔ قادر کی پہلی بال پر لانگ آن پر چھکا، تیسری بال پر چوکا، چوتھی بال پر پھر چھکا، پانچویں بال پر لانگ آف پر اور چوتھا چھکا آخری بال پر لگایا۔
تماشائی جوش سے دیوانے ہوگئے۔ انہیں توقع نہ تھی کہ یہ کچھ ہوجائے گا۔ اب میچ دوستانہ سے دوبارہ پاکستان بھارت میچ بن گیا تھا ۔ آخری اوور میں چودہ رنز چاہئیں تھے اور وسیم اکرم نے آخری اوور کرایا۔ اس اوور میں گیارہ رنز بنے اور بھارت تین رنز سے میچ ہار گیا ۔ ٹنڈولکر اس وقت عبدالقادر کی سپورٹس مین سپرٹ سے بہت متاثر ہوا‘ جب دنیا کا عظیم لیگ سپنر اپنی ہار مانتے ہوئے اس کے پاس آکر بولا: ''بہت اچھی بیٹنگ‘‘...
بھارت میچ ہارگیا تھا لیکن اس بیس اوورز کے میچ نے ٹنڈولکر کو راتوں رات پورے بھارت میں ایک اسٹار بنا دیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب ٹنڈولکر اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھا تو اسے آج بھی سیالکوٹ کرکٹ گروانڈ میں لہراتا وہ بینر یاد ہے۔ ''بچے گھر جائو‘ دودھ پیو‘‘۔ سیالکوٹ کے شرارتی تماشائیوں کے اس مشورے کے برعکس وہ بچہ چوبیس برس بعد اس دن اپنے گھر لوٹا‘ جب وہ ڈان بریڈ مین کے بعد کرکٹ ورلڈ کا بڑا لیجنڈ بن چکا تھا!