لوگ کہتے ہیں یہ دن بھی دیکھنا تھا ، میں کہتا ہوں مجھے یہ تصویر بھی دیکھنی تھی۔۔۔۔۔ فیصل آباد میں ہنگاموں کے بعد پرویز رشید پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور ان کے دائیں بائیں دانیال عزیز اور ماروی میمن بیٹھے ہیں۔ دانیال عزیز سے میں ذاتی طور پر تین چیزوں کی وجہ سے متاثر تھا۔۔۔۔ وہ انور عزیز کے بیٹے ہیں، ضلعی حکومتوں کے لیے ان کی کمٹمنٹ اورکچھ برس قبل عامر متین کے گھر سیاسی اور بیوروکریٹک مسائل پر ان کی کمال گفتگو۔ دانیال عزیز مزاج کے تیز اور ذہین انسان ہیں اور بلاشبہ وہ جواز پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ، لیکن اس تمام تر کے باوجود ان کی نواز لیگ کے حق میں ٹی وی پر دھواں دھار تقریرسمجھ سے بالا ہے۔
مجھے وہ دن یاد آیا جب جنرل مشرف نے گیارہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ ڈیل کی تھی کہ اگر وہ ایل ایف او قبول کر لیں تو وہ دسمبر2004ء میں وردی اتار دیں گے۔ ایل ایف او منظورہو گیالیکن جنرل مشرف وردی اتارنے سے انکاری ہوگئے اور بڑے بھولے پن سے کہا،ہمارے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ یہ کہانی کبھی پھر سہی۔ پہلے ایم ایم اے نے عوام کے ساتھ دھوکا کیا اور پھر جنرل مشرف کے ساتھ مل کر جان بوجھ کر دھوکا کھایا،ایس ایم ظفر نے اس کا ذکر اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔
جس دن جنرل مشرف نے وردی کے ساتھ پارلیمنٹ میں صدارت کا الیکشن لڑا،اس دن پرویز رشیدکی جماعت آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھی اور ہمارا دوست دانیال عزیز پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں پمفلٹس تقسیم کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ آرمی چیف کا وردی کے ساتھ پارلیمنٹ سے صدر منتخب ہونا آئینی ہی نہیں بلکہ جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ اس دن میں نے کہا تھا : یار دانیال!اگر یہ کام میںکرتا تو شاید میرے پاس بہانہ تھا کیونکہ میرے والدین کسان تھے، پڑھے لکھے نہیں تھے، ہمیں کیا پتہ جمہوریت کس بلا کا نام ہے، لیکن آپ ایک بڑے سیاستدان کے بیٹے ہیں، دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے ، کیا دنیا کی کسی یونیورسٹی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ آرمی چیف وردی کے ساتھ جمہوری صدر بن سکتا ہے؟ ہمیں توقع تھی، آپ جیسے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک پڑھنے کے بعد ہمیں پڑھائیںگے کہ اصل جمہوریت کیا ہوتی ہے ، آپ یہاں الٹا جنرل مشرف کے حق میں پمفلٹ بانٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔ دانیال مزہ نہیں آیا۔ سب کچھ الٹا ہوگیا، بیرون ملک سے پڑھ لکھ کرآنے والے لوگ آمریت کے حامی بن گئے۔کیا اس لیے کہ یہ آپ لوگوں کو اقتدار میں پہنچنے کے لیے شارٹ کٹ فراہم کرتی ہے؟ اور میرے جیسے ٹاٹ سکولوں سے پڑھ کر یہاں پہنچنے والے نیم خواندہ دیہاتی آمریت کے مخالف بن چکے ہیں۔ دانیال عزیزکی ایک بات اچھی ہے، وہ دل میں کوئی بات نہیں رکھتے، موقعے پر ہی حساب برابرکر دیتے ہیں ؛ چنانچہ انہوں نے کہا: مسئلہ یہ ہے کہ آپ صحافی بھی اب صحافی نہیں رہے بلکہ جج بن گئے ہیں ۔ آپ سروں پر سفید وگ رکھ کر فیصلے سناتے ہیں۔۔۔۔۔ (شاید دانیال عزیز کی نظر میرے سر پرگئی ہو جہاں بال زیادہ نہیں بچے۔) اس طرح بات مذاق میں ٹل گئی۔
ہائوس کے اندر ماروی میمن ہمیں سناتی رہتی تھیں کہ نواز شریف جیسے سیاستدانوں نے ملک کو تباہ کیا ہے، جنرل مشرف نے دوودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔ ماروی بی بی کا شمار بھی بلاشبہ ذہین سیاستدانوںکی کیٹیگری میں ہوسکتا ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں شاید واحد ایم این اے تھیں جو تیاری کر کے آتیں اور نواز لیگ و پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیتی تھیں۔ جنرل مشرف کے اقتدار کے جتنے فوائد ماروی میمن نے پارلیمنٹ کے اندر اور دانیال عزیز نے باہرگنوائے تھے وہ مجھے زبانی یاد ہیں۔ اگر کسی دن جنرل مشرف کے اقتدارکے فوائد پر تقریری مقابلہ ہو تو میں ماروی میمن کی تقریروں کے حصے یاد کر کے اوّل انعام پا سکتا ہوں۔ جن دنوں دانیال اورماروی آمریت کے حق میں دلائل سے ہم جیسوں کوطعنے دے رہے تھے، پرویز رشید مشرف کے حکم پر اپنے اوپر ہونے والے تشددکے اثرات ختم کرنے کے لیے امریکہ میں زیر علاج تھے۔
اب وقت بدل چکاہے۔ آج پرویز رشیدکو دانیال اور ماروی کی ذہانت کی ضرورت ہے، ان کے ساتھ ہمارے دوست عرفان صدیقی اور لندن کے نادر چودھری نظر نہیں آتے۔انہیں لندن میں نادر چودھری کی ضرورت تھی، اب پاکستان میں ماروی کی ضرورت ہے۔ عرفان صدیقی ملے تو میں نے کہا: آپ کی پیٹھ پیچھے آپ کے خلاف گفتگو کی ہے۔ وہ مسکرا کر بولے: دوست ہی تو یہ کام کرتے ہیں۔انہیں بتایا کہ ایک حکومتی عہدے دار سے میں نے کہا کہ عرفان صدیقی آپ لوگوںکا اپنے اخباری کالم میں بہتر دفاع کر سکتے تھے، انہیںوزیر بناکر آپ لوگوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قیدکر دیاہے۔ جو لوگ آپ کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں وہی اب میڈیا میں حکومت کادفاع کرتے ہیں اوردنیا ہنستی ہے کہ جن لوگوں نے جنرل مشرف کے ساتھ مل کر آپ لوگوں کو مارا، آج وہی آپ کا دفاع کر رہے ہیں۔ ممکن ہے نواز لیگ کے لیڈرخوش ہوتے ہوں کہ دیکھا،جو لوگ کل جنرل مشرف کا دفاع کرتے تھے آج وہ ہمارا دفاع کر رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے ماروی جیسے کردار سوچتے ہوںکہ وہ سیاستدانوںکو بیوقوف بنا رہے ہیں۔۔۔۔ کل جنرل مشرف کے حق میں دلائل تو آج نواز شریف کے حق میں ۔ انہیں اپنے کام کا مناسب معاوضہ ملتا رہے تو وہ کسی کے لیے بھی یہ کام کرنے کو تیار ہوں گے۔ اللہ نے انہیں صلاحیتوں سے نوازا ہے، وہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ جنرل مشرف اور نواز شریف دونوں کے لیے ان کی خدمات حاضر ہیں۔ اسے سیاست نہیں، '' سیاسی کنسلٹینسی‘‘ سمجھا جائے۔ مجھ جیسوں نے جمہوریت کوکچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا ہے ۔ ایک دو بار نواز لیگ کے پرانے دوستوںکو لندن کے دنوں کی کہانیاں یاد دلانے کی کوشش کی تو وہ حیران ہوئے کہ میں کیا گفتگو کررہاہوں۔ جس جمہوریت اور نئے کلچر کی رام لیلا وہ سناتے تھے، وہ پاکستان لوٹتے ہی ہوا ہو گئی۔ دھوکوں اور فراڈ کی طویل کہانیاں ہیں ۔ سیاستدان، صحافیوں کو چائے پانی پلاکر استعمال کر لیتے ہیں۔ اپوزیشن کے سیاستدان سنجیدگی سے ملک کو بدلنے اوراصولوں کے تحت ملک چلانے کی بات کرتے ہیں تو ہم ان پر اندھا دھند یقین کرلیتے ہیں،لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر وہی زمینی حقائق کی کہانیاں سنانے لگتے ہیں۔ دراصل انہیں علم ہوتا ہے کہ کب خواب دکھانے ہیں اورکب اقتدار میں پہنچنے کے لیے ضمیر اوراصول بیچ دینے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ لوگ کیسے اپنے ضمیر اور اصولوں پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں ؟ کیا ایک زندگی بیکارگئی اور ہم اس دھرتی پر ایک بوجھ بن کر زندگی گزارکر مر کھپ گئے اورکسی دوسرے نے ہماری جگہ لے لی؟
پاکستانی سیاستدانوں کو دیکھ کر انگریز ڈرامہ نگارکرسٹوفر مارلو کا ڈرامہ ڈاکٹر فائوسٹ یاد آتا ہے۔ ڈاکٹر اپنی روح کا سودا کرنے پر تل جاتا ہے تو ایک فرشتہ اور شیطان حاضر ہوتے ہیں۔ وہ دونوں سے پوچھتا ہے:اس کی روح کی اچھی قیمت کون دے گا؟ دونوں بولی شروع کرتے ہیں۔۔۔۔۔ فرشتہ کہتا ہے اگر وہ اس کے ہاتھ اپنی روح بیچ دے تو مرنے کے بعد اسے فلاں فلاں ڈیل ملے گی اور وہ عیاشی کرے گا۔ ڈاکٹر فائوسٹ شیطان کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کے پاس کیا ہے؟ شیطان اسے قائل کرتا ہے کہ مرنے کے بعد کی بات چھوڑو، جو عیاشی کرنی ہے ابھی کرلو۔ ڈاکٹر فائوسٹ پوچھتا ہے کہ کیا وہ ہیلن آف ٹرائے کو حاضر کر سکتا ہے جس کی حرمت اور خوبصورتی پر ہزاروں یونانی تیرہ برس جنگ لڑتے رہے اور سیکڑوں کشتیاں ڈوب گئی تھیں؟ شیطان چٹکی بجا کر ہیلن کو حاضر کردیتا ہے۔ ڈاکٹر فائوسٹ یہ سوچ کر کہ ''دو نقد تیرہ ادھار ‘‘ سے بہتر ہیں، اپنی روح کا سودا شیطان سے کرلیتا ہے کیونکہ اسے طاقت، عیش اور شیطانی علم کی خواہش ہوتی ہے۔ یوں فائوسٹ، شیطان کے ساتھ ڈیل کرتا ہے کہ وہ چوبیس برس بعد اپنی روح اس کے حوالے کردے گا جسے وہ اپنے ساتھ دوزخ میں لے جائے گا۔ اپنی خواہشات کا غلام فائوسٹ اپنے خون کے ساتھ اس ڈیل پر دستخط کرتا ہے۔۔۔۔۔!
پاکستانی سیاست میں بھی ڈاکٹر فائوسٹ جیسے کردار زیادہ ہوگئے ہیں۔ روحوں کے سودے ہورہے ہیں، ہم سب اپنی اپنی روحوںکو بیچ رہے ہیں اس لیے کہ وہ ہماری وحشیانہ خواہشات کی غلام بن گئی ہیں۔ اگر انہیں آمریت اور جمہوریت دونوںکا دفاع کرنا ہے، دھرتی ماں اور قوم کو بیوقوف بنانا ہے، وزارت کے لیے روح کا سوداکرنا ہے تو پھر کیا فائدہ اپنے آپ کو مہذب کہلوانے کا، بیرونی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا ؟ اگر وہ اپنے کردار سے ہم جیسے گناہگاروںکے دل میں اپنے لیے عزت کا احساس نہیں جگا سکتے تو پھر یہ سب پاپڑ بیلنے کا کیا فائدہ ؟
شاید بلھے شاہ نے ہماری بیمار روحوں کے بارے میں کہا تھا:
پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اچیاں بانگاں، چانگاں ماریں
منبر تے چڑھ، وعظ پکاریں
تینوں علم کیتا خوار
علموں بس کریں او یار۔۔۔۔۔!