"RKC" (space) message & send to 7575

پاکستان آن ٹرائل

امریکہ میں قیام کے دوران جس شہر میں بھی گیا‘ کوشش کی کہ پرانی کتابوں کی دکان پر ضرور جائوں۔ بالٹی مور ہو، جارجیا، نیویارک یا واشنگٹن‘ پرانی کتابوں کی دکانوں پر ضرور چکر لگایا اور یقین کریں‘ نایاب کتابیں سستی مل گئیں ۔ ایک دن اپنے دوست اکبر چوہدری کو کہا تو بولے بالکل بھائی جی‘ ابھی چلیں۔ وہ ورجینیا سے چلے اور مجھے واشنگٹن کے ایک سکوائر میں چھوڑ آئے جہاں پرانی کتابوں کی ایک دکان میں سارا دن گم رہا۔
ڈیلور ریاست کے شہر لیوس سے بالٹی مور جانے کو جی نہیں کرتا تھا کیونکہ ڈاکٹر احتشام قریشی کی شرط تھی کہ چلنا ہے تو پھر صبح پانچ بجے نکلنا ہوگا کیونکہ ریحانہ بھابی نے وہاں ایک کلاس اٹینڈ کرنی تھی۔ مجھے قائل کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب ایک ہی بات کرتے‘ دیکھ لیں ایک نیا شہر دیکھ لیں گے وگرنہ تو لیوس ہی آپ کی یادوں میں رہے گا ۔ اس طرح ڈاکٹر احتشام نے کئی شہر اپنی گاڑی پر دکھا دیے جس کے لیے ان کا شکر گزار ہوں ۔ بالٹی مور کا قلعہ جو امریکی تاریخ کا اہم سنگ میل ہے، وہاں گھوم لیا ، دریا کے کنارے خوبصورت دوپہر میں ایک بنچ پر بیٹھے۔ قلعے کے اندر آج بھی امریکی بچے ڈرم بجاتے ہوئے پریڈ کرتے اور بالٹی مور کی جنگ اور ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ 
واپسی پر ڈاکٹر احتشام نے مجھے The Book Escape پر ڈراپ کیا۔ پرانی کتابوں میں کھوئے مجھے ایک بھاری بھر کم کتاب نظر آئی... امریکہ آن ٹرائل۔ پاکستان واپس آتے ہوئے جہاز میں یہ کتاب پڑھتا آیا ۔ اس میں امریکی تاریخ کے اہم عدالتی مقدمات کے ٹرائل کی کہانیاں شامل کی گئی ہیں؛ تاہم جس ٹرائل نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی‘ وہ جنگ عظیم دوم کے بعد نیورمبرگ ٹرائل تھا ۔اگرچہ ان ٹرائلز پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ فاتح کا انصاف تھا جو اپنی مرضی سے جرمن ملزمان کو دیا گیا۔ جج بھی فاتحین تھے۔ جب امریکیوں نے جرمنی کو شکست دی تو ایسے دستاویزی ثبوت ملے جن سے پتہ چلتا تھا کہ جرمنوں نے باقاعدہ تحریری طور پر پلان کر کے‘ جہاں یورپ میں جنگ شروع کر کے لاکھوں لوگوں کو مارا تھا وہیں جرمنی کے اندر یہودیوں اور جپسیوں کی بھی ایک پلان کے تحت نسل کشی کی گئی۔ امریکیوں کے ذہن میں ٹرائل کا منصوبہ اس وقت آیا جب انہیں ایسی جرمن دستاویزات ملیں جنہیں عدالت میں ثابت کیا جاسکتا تھا ۔ 
ا س ٹرائل کے دوران جہاں فوجی افسران کو سزائے موت دی گئی، وہاں ایک ایسے شخص کو بھی سزائے موت سنائی گئی جس نے کبھی کوئی گولی نہیں چلائی تھی اور نہ ہی کسی کو گیس چیمبر میں بھیجا تھا اور نہ ہی کسی کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی مارنے کا حکم دیا تھا۔ یہ ٹرائل کا مشکل اور اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ تھا کیونکہ ا س کی زہریلی تحریروں، کالموں اور زبانی جواز کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کی نسل کشی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ ایک صحافی تھا جس کا نام جولیس تھا۔ وہ ایک جرمن اخبار کا ایڈیٹر تھا جس نے اپنے اخبار میں پروپیگنڈے کا وہ زہر پھیلایا جس سے جرمنوں نے اپنے سے کم تر انسانوں کی نسل کشی شروع کی۔ جولیس کے اخبار 'Der Sturmer‘ اور اس کے لکھاریوں نے زہریلا پروپیگنڈا کیا جس نے ہٹلر کی نسل کشی کی مہم کا جواز پیش کیا اور ان تحریروں کو ہی بنیاد بنا کر بے گناہ انسانوں کا قتل کیا گیا۔ 
اس صحافی کو گرفتار کر کے اس پر مقدمے کی تیاری کی گئی۔ جب اسے ٹرائل کے لیے پیش کیا گیا تو اس نے ایک ایسے وکیل کا انتخاب کیا جو اس کے خیالات کا حامی تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یہ عدالت یہودی عدالت ہے‘ اس کا وکیل ایسا ہونا چاہیے جو یہودیوں سے نفرت کرتا ہو۔ ٹرائل کے دوران ثبوت سامنے لائے گئے کہ کیسے جولیس کی اپنے اخبار کے لیے لکھی گئی ادارتی تحریروں نے پورے جرمنی میں زہر گھول دیا تھا اور اس کی تحریروں کو بنیاد بنا کر قتل عام کیا گیا۔ اس نے جہاں اپنی تحریروں سے جرمنی میں نسل کشی کو جائز قرار دیا وہاں اس نے اپنی تقریروں سے بھی جواز پیش کیے کہ یہودیوں اور جپسیوں کو قتل کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ اس نسل سے تعلق نہیں رکھتے جو جرمن نسل ہے اور جو دوسروں سے برتر ہے‘ ان کے مخالفوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ٹرائل کے دوران بتایا گیا کہ اگرچہ اس کے ہاتھ میں کوئی تلوار نہیں تھی اور نہ ہی اس نے کوئی بندوق اٹھائی ہوئی تھی لیکن اس کا قلم تلوار سے بھی زیادہ خوفناک ثابت ہوا۔ اگر اس کے ہاتھ میں گن یا تلوار ہوتی تو شاید وہ کچھ سو لوگوں کو قتل کر سکتا تھا لیکن اس نے قلم کی وجہ سے جرمنی میں نسل کشی کا ماحول تخلیق کیا جس سے لاکھوں لوگ مارے گئے اور کسی کو افسوس تک نہیں ہوا کیونکہ ان کے قاتلوں کے تمام اقدامات کا جواز یہ صحافی اپنے اخباری اداریوں اور تحریروں میں فراہم کر رہا تھا۔ 
پہلی دفعہ اس عدالت میں اس بات پر بحث شروع ہوئی کہ لکھنے اور بولنے کی کتنی آزادی ہوسکتی ہے؟ کیا جب معصوم انسانوں کو ان کے رنگ، نسل، مذہب یا کم تر نسل ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر قتل کیا جارہا ہو تو اس کا جواز پیش کرنے والے کو آزادیِ اظہار کا حق دیا جا سکتا ہے‘ اس لیے کہ یہ اس کا بنیادی انسانی حق ہے؟ جن انسانوں کو جرمنوں نے قتل کیا‘ کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا مرنے والوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے یا پھر حقوق صرف ان کے ہوتے ہیں جو زندہ ہیں؟ 
اس ٹرائل کے دوران یہ بھی نکتہ سامنے لایا گیا کہ اگر اس صحافی اور اس کے اخبار کو اپنی رائے دینے کی آزادی تھی تو پھر جولیس اور اس کے اخبار کے مخالفین کو کیوں وہ آزادی نہیں دی گئی تھی؟ اگر فری سپیچ جولیس کے لیے تھی تو وہی فری سپیچ جولیس کے مخالفین کے لیے کیوں نہیں تھی جنہیں فائرنگ سکواڈ، گیس چیمبرز اور کیمپوں میں مار دیا گیا تھا؟ کیا اس لیے کہ وہ ہٹلر کے خیالات سے اختلاف کرتے تھے؟ ہٹلر کے جرمنی میں فاشزم تھا اور اس کے مخالفوں کے لیے موت کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں تھی ۔ 
مقدمہ ختم ہوا تو ججوں نے جولیس کو پھانسی کی سزا سنائی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے قلم نے بے گناہ انسانوں کی موت کا جواز پیش کیا تھا؛ تاہم ایک امریکی جج اسے پھانسی دینے کے حق میں نہیں تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ جب اس کے ہاتھوں کسی کا قتل نہیں ہوا تو پھر اسے پھانسی کیسے ہوسکتی ہے؛ تاہم اس کی تحریروں کے ثبوت پیش کیے گئے کہ قاتلوں کو جواز فراہم کرنا کیسے قتل کے برابر ہے۔ 
تاہم ججوں نے اتنی مہربانی کی کہ اپنے فیصلے میں لکھا‘ جولیس کو اس طرح کی پھانسی دی جائے کہ وہ جلدی مرجائے، وگرنہ ایسے پھانسی گھاٹ بھی بنائے گئے تھے جو فوری طور پر گردن توڑ کر انسانی جان نکالنے کے بجائے اذیت ناک انداز میں اٹھارہ سے بیس منٹ میں مارتے تھے اور پھانسی پر لٹکا ہوا شخص تڑپ تڑپ کر جان دیتا تھا۔ 
اس صحافی کی پھانسی پر بھی بحث شروع ہوئی کہ کیا کسی کے کہے یا لکھے ہوئے الفاظ اس قاتل کے برابر سزا کے مستحق ہوسکتے ہیں جس نے اپنے ہاتھوں سے کسی کو مارا ہو؟ اس سزا کے ناقد کہتے ہیں کہ جولیس کو جو سزا ملی وہ قانون کے مطابق نہیں تھی بلکہ اسے وجہ سے سزا دی گئی کہ اس کی تحریروں کی وجہ سے وہ فضا پیدا ہوئی جس سے بے گناہ انسان مارے گئے۔ اس ٹرائل کے 67 برس بعد 2003ء میں عالمی عدالت نے روانڈہ میں ہونے والی نسل کشی میں میڈیا کو بھی مجرم قرار دیا تھا کہ یہ اپنی تحریروں سے نسل کشی کا دفاع کر رہا تھا۔ 
اگر اس ٹرائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو جولیس تو ایک صحافی تھا جس نے نسل کشی کی حمایت کی تھی‘ اپنی تحریروں اور اپنی تقریروں سے‘ پاکستان میں تو مجھ جیسے کئی صحافی، ریٹائرڈ اور سرونگ بیوروکریٹس، مذہبی علماء، ریٹائرڈ فوجی دانشور اور پارلیمنٹ میں عوام کی تنخواہوں پر پلنے والے سیاستدان یہی کام کررہے تھے جب وہ پچاس ہزار معصوم انسانوں کے قاتلوں کو اس خونریزی کا جواز فراہم کررہے تھے۔ انہیں ناراض بھائی کہہ کر پاکستانیوں کے بہتے لہو کا جواز پیش کیا جارہا تھا ۔ 
کیا کوئی جرأت کرکے پاکستان میں یہ ٹرائل شروع کرسکے گا جو جنگ عظیم دوم کے بعد شروع کیے گئے‘ چاہے یہ ٹرائل علامتی طور پر ہی کیوں نہ ہوں؟ پچاس ہزار افراد اور اب مزید ایک سو چالیس بچے بھی تو بے گناہ انسان تھے۔ جن لوگوں نے پاکستان میں اپنے قلم اور زبان سے ان قاتلوں کا دفاع کیا ، جواز تراشے، کیا ان معصوموں کا مقدمہ ان پر کبھی نہیں چلے گا ؟ یا پھر ان معصوموں کا بہتا خون ان کے قاتلوں کے خون سے کم تر ہے؟ کیا طالبان اور ان کے میڈیا میں بیٹھے ہمدردوں نے بھی جرمنوں کی طرح سمجھ لیا ہے کہ تحریر، تقریر اور زندہ رہنے کا حق صرف انہی کو ہے، ان کی فلاسفی یا رائے کے مخالفوں کو نہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں