چار امریکی صدور کے ساتھ کام کرنے والے بروس ریڈل نے سوچا ہوگا کہ اس کی کتاب Avoiding Armageddon پڑھ کر اگر میرا خون جلنے سے کچھ بچ گیا تھا تو کیوں نہ نئی کتاب لکھی جائے جو زخموںکو کچوکے بھی لگائے اور ان پر نمک بھی چھڑکے۔ اس کی نئی کتاب کا نام What we won -America's secret war in Afghanistan-1979-88 ہے جو اس نے افغانستان میں روسی افواج کے حملے میں امریکہ اور پاکستان کے کردار پر لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام اس ایک میسج سے لیا گیا ہے جو اسلام آباد میں مقیم سی آئی اے کے چیف نے واشنگٹن بھیجا تھا‘ جس دن روسی افواج کا انخلا ہوا تھا‘ اس نے اتنا لکھ کر بھیجا تھا۔We won۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا یہ جنگ پاکستان کی جنگ تھی جس میں ہمارے ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ تو پھر امریکی سی آئی اے چیف نے یہ کریڈٹ کیوں ہم سے چھین لیا تھا کہ یہ امریکی جنگ تھی جو وہ جیت گئے تھے؟
یہ امریکہ کی سستی جنگوں میں سے ایک تھی۔ افغانستان کی دس سالہ جنگ میں امریکہ کا خرچہ صرف تین ارب ڈالر تھا جب کہ ویت نام جنگ کا خرچ تین سو ارب ڈالر تھا۔ عراقی جنگ میں امریکہ کا خرچہ ایک کھرب ڈالر ہوا تھا۔ پاکستانی حکمران نے اپنے آپ کو بہت سستا بیچا تھا ۔ امریکیوں نے جنرل ضیاء کو صرف تین ارب ڈالر کی ادائیگی کر کے روس کو شکست دے دی تھی ۔
اس جنگ میں ایک بھی امریکی سپاہی یا افسر نہیں مارا گیا تھا۔ جب کہ پاکستانی ایجنسی کے افسران اور اہلکارو ں کی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہوئی تھی جنہیں افغانستان کے اندر سادہ کپڑوں میں بھیجا گیا تھا کہ وہ وہاں لڑنے والوں کو تربیت دیں ۔ اس جنگ میں امریکہ نے صرف پیسہ اور اسلحہ دیا تھا باقی کا کام جنرل ضیاء کا تھا ۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے یہ ساری جنگ نہ امریکہ کی تھی اور نہ ہی پاکستان کی بلکہ اس جنگ کا اگر کوئی گاڈفادر اور آرکیٹیکٹ تھا تو وہ جنرل ضیاء تھا ۔ اس کتاب میں بار بار بتایا گیا ہے کہ کیسے جنرل ضیاء امریکیوں کو اس جنگ کی اہمیت کے بارے میں قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ وہ پاکستان کی اس جنگ کی اہمیت کو سمجھیں جس کا اصل میدان پاکستان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اس جنگ کو لڑنے کے لیے کتنے بے چین تھے۔
بروس ریڈل لکھتا ہے‘ ایک دفعہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے آرمی چیف جنرل ضیاء کے گھر گئے تو انہیں گھر کی دیواروں پر ہر جگہ اسلامی جگہوں کی تصاویر نظر آئیں تو انہوں نے حیرانی سے کہا ''جنرل‘ تم نے تو اپنے گھر کو بھی مسجد بنا رکھا ہے‘‘۔ اس کتاب کے بقول بھٹو نے جنرل ضیاء کا نک نیم Monkey General رکھا ہوا تھا اوریہ ایک اور داستان ہے کہ ایک دن اسی ''منکی جنرل‘‘ نے ہی اسے پھانسی لگوا دی۔
جنرل ضیاء صرف امریکیوں سے مال نہیں بٹور رہے تھے بلکہ عرب ملکوں سے بھی فنڈنگ حاصل کر رہے تھے اور وہ پیسہ مدرسوں کو قائم کرنے پر لگایا جارہا تھا تاکہ ایک متوازی فورس کھڑی کی جا سکے جو افغانستان میں لڑ سکے۔ اس پیسہ کی بدولت ہی جنرل ضیاء نے اپنی ایجنسی کی مدد سے 1983-87ء کے دوران مدارس کے 80 ہزار طالب علموں کو افغانستان میں لڑنے کے لیے جنگی تربیت دی اور انہیں ہر قسم کا اسلحہ دیا گیا ۔ ڈالرز اور ہتھیار امریکن دے رہے تھے اور لڑنے کے لیے غریبوں کے بچے جنرل ضیاء مدرسوں کی مدد سے اکٹھے کر رہے تھے۔
ڈالروں سے یاد آیا کچھ عرصہ قبل میں اپنی ایک کتاب پر کام کررہا تھا اور اس سلسلے میں آئی ایس آئی کے سابق افسر بریگیڈیئر امتیاز سے ملا تھا۔ بریگیڈیئر امتیاز نے مجھے خود بتایا کہ ان دنوں امریکہ سے بوریوں میں آنے والے ڈالر جنرل ضیاء کے گھر پر رکھے جاتے تھے اور ضرورت پڑنے پر افغان وار لارڈز میں کیش بانٹتے تھے۔صرف ایک ڈائری پر حساب کتاب لکھا جاتا تھا کہ کس کو کتنا مال ملا۔ بریگیڈیئر امتیاز کے بقول جس دن جنرل ضیاء کے طیارے کا حادثہ ہوا‘ اس دن بھی ڈالروں کی ایک بڑی مقدار ان کے گھر پر نقدی کی شکل میں موجود تھی ۔ جنرل ضیاء کی موت کے کچھ عرصہ بعد بقول بریگیڈیئر امتیاز، انہوں نے اپنے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی سے ان ڈالروں کی بابت بات کی کہ اب وہ ڈالرز جنرل ضیاء کے گھر سے واپس لائے جائیں اور آئی ایس آئی کے اکاونٹ میں جمع کرائے جائیں تو انہیں کہا گیا بھول جائو۔ آج کے بعد ان ڈالروں کا ذکر نہیں کرنا‘ پھر وہ ان گنت ڈالرز وارثوں کو مل گئے یا پھر کہیں اور پہنچ گئے‘ خدا ہی بہتر جانتا ہوگا ۔ ان دنوں ڈالرز واقعی بوریوں میں پاکستان لائے جاتے جو کسی بینک میں جمع نہیں ہوتے تھے۔
جنرل ضیاء نے افغان جنگ امریکیوں کو بیچ دی تھی اور امریکی خود ہی بھاگے بھاگے یہ سودا خریدنے پہنچ گئے؛ تاہم جنرل صاحب کے لیے اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اس جنگ کو پاکستان میں کیسے بیچا جائے خصوصاً جب اس جنگ میں پاکستان کے کردار بارے خود اندر سے کچھ آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی تھیں؟ کافی سوچ بچار کے بعد یہ تھیوری پیش کی گئی کہ روس کا مقصد افغانستان نہیں بلکہ پاکستان کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنا تھا ۔ یوں اپنے طبلچی صحافیوں اور کالم نگاروں کے ذریعے یہ منجن بیچنے کا کام شروع ہوا کہ اگر روس کو افغانستان میں نہ روکا گیا تو وہ بلوچستان کے ذریعے گوادر اور پھر سندھ سے کراچی پورٹ تک پہنچ جائے گا۔ اس وقت ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ روس ہر صورت گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے اور اس کا راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ یوں گرم پانی کا یہ وہ خوف تھا جسے ملک کے کونے کونے میں بیچا گیا اور مزے کی بات ہے کہ بڑی کامیابی سے یہ سودا بکا اور ہم سب نے جی بھر کر اسے ارزاں نرخوں پر خریدا بھی۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر روس نے گرم پانیوں تک پہنچنا تھا اور نہیں پہنچ سکا تو پھر اب روس ہمارے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے میں دلچسپی کیوں نہیں رکھتا ؟ اب تو پاکستان اور روس کے درمیان دوستی ہوگئی ہے۔ اب تو دفاعی معاہدے ہورہے ہیں ۔ آرمی چیف نے بھی روس کا دورہ کیا ہے۔ روس سٹیل ملز تک کو دوبارہ پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد کو تیار ہے۔پھر اب روس اور اس کی پانچ اسلامی ریاستیں پاکستان کے ذریعے دنیا سے تجارت کرنے کو تیار کیوں نہیں ہیں ؟ افغان جنگ ختم ہوئے چوبیس برس گزر گئے، روس ہمارے ان گرم پانیوں کے بغیر کیسے جی رہا ہے جنہیں بچانے کے لیے لاکھوں لوگ مارے گئے اور ہمارا ملک تباہ ہوکر رہ گیا ؟
چلیں روس کو چھوڑ دیں ہماری وسط ایشیا کی پانچ اسلامی ریاستوں نے کیا ایک دفعہ بھی پاکستان سے یہ درخواست کی کہ انہیں گوادر یا کراچی کے ذریعے دنیا بھر سے تجارت کرنے کی سہولت دی جائے‘ جیسا کہ ہم نے افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ کر رکھا ہے؟ اگر روس اور ا س کی ریاستوں کو گرم پانیوں کے لیے پاکستان کی ضرورت تھی تو وہ ضرورت افغان جنگ ختم ہونے کے فورا بعد کیوں ختم ہوگئی تھی ؟ یہ ریاستیں چاہتیں تو وہ افغانستان کی طرز پر ایک معاہدہ کے ذریعے باقاعدہ ا س کا کرایہ ادا کر کے ہماری بندرگاہیں استعمال کرسکتی تھیں؟ گوادر بندرگاہ برسوں سے خالی پڑی ہے... وہاں سے وسط ایشیا تجارت کیوں نہیں ہورہی؟ ہم تو بہت سارے پیسے کما سکتے تھے... ہم تو گوادر کو دوبئی کی طرح ایک عالمی شہر بنا کر بہت امیر ہوسکتے تھے؟ تو پھر کیا ہوا ؟ روس کیوں گرم پانیوں سے پیچھے ہٹ گیا اور آج تک روسی کیسے سانس لے رہے ہیں؟
یہ وہ جھوٹ ہیں جو اس قوم سے بولے گئے اور ہمارا لہو بہایا گیا۔ ہمارے بچوں کا لہو بہایا گیا۔ محض چند برس اقتدار میں رہنے کے لیے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو مروایا گیا۔ گرم پانیوں کا جھوٹ بولا گیا جس پر ہم سب دل و جان سے ایمان لائے تھے...!
پس تحریر: قارئین کی بڑی تعداد نے اس خبر کو گوگل سے ڈھونڈنے کی کوشش کی جس کا حوالہ میں نے پچھلے کالم میں دیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد کمپائونڈ سے کچھ اہم نام ملے تھے جو بقول اسامہ کے وہ سب القاعدہ کے ہمدرد تھے اور جنہیں القاعدہ کی خفیہ ویب سائٹ کا پاس ورڈ دیا جانا تھا تاکہ وہ وہاں سے القاعدہ کا مواد ڈائون لوڈ کر کے ٹی وی شوز اور کالموں میں استعمال کریں ۔
"Alqaida relations with Pakistan were fraught with difficulties"
by Anwar Iqbal
اس ہیڈ لائن کو گوگل کریں اور اس خوفناک خبر کو پورا پڑھیں جو پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان میں چھپی تھی۔ اسے پڑھ کر سر دھنیں یا ماتم کریں کہ کیسے کیسے جغادری صحافی اور ٹی وی اینکرز اپنے پچاس ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں کے ساتھ ''قلمی دوستیاں‘‘ نبھا رہے تھے۔!