اپریل 1971ء میں جب جنرل ٹکا ڈھاکہ میں فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے تھا تو چینی حکومت نے امریکہ کی یہ درخواست مان لی کہ ہنری کسنجر خفیہ طور پر بیجنگ کا دورہ کر سکتے ہیں۔ کسنجر نے چینیوں کو جون ہی میں بتادیا تھا کہ وہ خفیہ دورے کے لیے تیار تھے اور اس سلسلے میں وہ اسلام آباد آئے۔ پہلی دفعہ سی آئی اے اور پاکستان میں امریکی سفیر کو بتایا گیا کہ وہ جنرل یحییٰ کے ساتھ مل کر اس دورے کے معاملات کو طے کریں۔
اسلام آباد میں جب جنرل یحییٰ کے ساتھ ہنری کسنجر ڈنر کر چکا تو اس کے سٹاف نے میڈیا کو بتایا کہ اس کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور اگلے دن وہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں کچھ دن گزارے گا تاکہ اس کی طبیعت بحال ہوسکے۔ اس دوران وہ کسی صحافی سے کوئی ملاقات نہیں کرے گا اور آرام کرے گا۔
دس جولائی اکہتر کو ہنری کسنجر پاکستانی طیارے میں بیجنگ گیا جہاں اس کی چینی قیادت سے خفیہ ملاقات ہوئی اور وہ اگلے روز پاکستان لوٹ آیا۔ابھی تک یہ راز باقی تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان خفیہ ملاقاتیں ہورہی تھیں ۔ چند دن بعد نکسن نے اس بریک تھرو کا اعلان کیا جو چین اور امریکہ کے درمیان ہوچکا تھا ۔ نکسن نے امریکیوں کو بتایا کہ وہ بہت جلد چین کا دورہ کرے گا ۔ اپنے ایک ذاتی خط میں نکسن نے جنرل یحییٰ کو لکھا کہ آنے والی نسلیں جو دنیا کو پُرامن دیکھنا چاہتی تھیں وہ اس کی شکر گزار ہوں گی۔
دوسری طرف اندرا گاندھی کو نیا محاذ کھلتا نظرآیا کہ پاکستان، امریکہ اور چین ایک دوسرے کے قریب ہورہے تھے۔وہ پہلے ہی اس بات پر شور مچا رہی تھی کہ مشرقی پاکستان میں ہنگاموں اور سول وار کی وجہ سے کلکتہ اور آسام میں بنگالیوں کے آجانے سے حالات خراب ہورہے ہیں۔ اسی دوران اندرا گاندھی نے فلائٹ لی اور سیدھا ماسکو جااتری جہاں اس نے روس سے دوستی کا معاہدہ کر لیا ۔ اس معاہدے کے تحت اب بھارت روس کا اسلحہ اور دیگر سازو سامان خرید سکتا تھا۔ بھارت اور روس میں دفاعی معاہدہ ہوچکا تھا ۔ یوں اندرا گاندھی آئندہ جنگ میں چین کو پاکستان کی حمایت سے دور رکھنے کا بندوبست کر چکی تھی۔ اگر چین پاکستان کی مدد کو آتا تو پھر روس اس کے ساتھ سائبیریا اور منچوریا کی سرحد پر محاذ کھول سکتا تھا۔
چین کو نیوٹرل کیا جا چکا تھا ۔
اب اندرا گاندھی جنگ کے لیے تیار تھی۔ جنگ کے بادل گہرے ہو چکے تھے۔ اس دوران اندرا گاندھی نومبر میں امریکہ گئی جہاں وہ اقوام متحدہ اور وائٹ ہائوس بھی گئی۔ جب اندرا گاندھی وائٹ ہائوس گئی تو اسے علم ہوا کہ نکسن اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا ۔ نکسن اب اندرا کو روس کا ساتھی سمجھ رہا تھا۔ یہ ملاقات ہر حوالے سے خراب تھی ۔ نکسن اندرا گاندھی کو ایک ناموزوں نک نیم سے یاد کرتا تھا ۔ جب کہ اندرا کا نکسن کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ سرد جنگ کا جنونی امریکی ہے‘ جسے انسانی زندگیوں کی کوئی پروا نہیں۔
بھارت لوٹ کر اندرا نے اپنے آرمی چیف جنرل مانک شا کو کہا کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہوجائے اور اپنے فوجی دستے موبائل کرے۔ جنرل مانک نے اسے بتایا کہ فوج تیار ہے؛ تاہم اس سے پہلے ہی پاکستان نے بھارتی اڈوں پر حملے کیے تاکہ انہیں تباہ کر کے بھارت پر کچھ برتری حاصل کی جائے؛ تاہم یہ حملے اتنے کامیاب نہ رہے جتنی توقع تھی۔ اس پر بھارت نے فوجیں پاکستان کے اندر داخل کر دیں۔ پاکستان تین اطراف سے گھر چکا تھا اور کمک مغربی پاکستان میں ہزاروں میل دور تھی۔
امریکہ نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بش سینئر نے (جو بعد میں امریکہ کے صد بنے) بھارت کو جارح قرار دیا ۔ اس دوران پاکستان کی مدد کے لیے کسنجر اور بش نے چینی سفیر سے بھی ملاقات کی کہ وہ پاکستان کی مددکرے۔ چینی سفیر کو بتایا گیا کہ اگرچہ امریکہ کی طرف سے 1965ء کی جنگ کے بعد لگائی گئی پابندی جاری تھی؛ تاہم امریکہ نے ایران اور اردن سے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر پاکستان کو امریکی اسلحہ کی سپلائی شروع کریں اور یوں دونوں ممالک نے F-104 طیارے پاکستان کے حوالے کیے ۔ ایران اور اردن کو بتایا گیا کہ ان ملکوں میں امریکی سفیر ان طیاروں کو پاکستان کے حوالے کرنے پر احتجاج کریں گے لیکن وہ اس کو نظر انداز کر کے پاکستان کو امداد جاری رکھیں۔
اس اثناء میں سی آئی اے نے ایک سیکرٹ رپورٹ نکسن کوخبر دی کہ اندرا گاندھی اب مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کو بھی تباہ کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہیں تاکہ پاکستان کی فوجی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے تاکہ وہ کل کلاں کشمیر پر کوئی لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ اس رپورٹ کے بعد نکسن نے فیصلہ کیا کہ وہ اب چھٹا بحری بیڑا بھیجے گاتاکہ وہ مغربی پاکستان کا دفاع کر سکے اور پاکستان کا بھی حوصلہ بڑھایا جائے کہ وہ اس جنگ میں اکیلا نہیں تھا ۔ نکسن کو امید تھی چھٹے بحری بیڑے کے بعد چینی بھی حوصلہ پکڑیں گے اور پاکستان کی مدد کو آئیں گے۔
اس سے پہلے ہی چودہ دسمبر کو پاکستان نے ڈھاکہ میں امریکی کونسل جنرل کو اطلاع دی کہ وہ بھارت کو بتائیں کہ وہ سرنڈر کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن آچکا تھا!!
اس دن بھٹو اقوام متحدہ میں تھا ۔ فوری طور پر بھٹو کی ملاقات صدر نکسن اور ہنری کسنجر سے کرائی گئی۔ نکسن نے بعد میں بھٹو کے بارے میں کہا کہ وہ اسے Brilliant and charming لگا تھا۔ پاکستان کے اگلے سربراہ کے طور پر بھٹو کا نام کلیئر کر دیا گیا تھا۔ جنرل یحییٰ کو بتایا گیا کہ وہ اقتدار بھٹو کے حوالے کر دے۔
جنگ ختم ہوگئی‘ پاکستان ہار گیا جب کہ اندرا گاندھی جیت گئی تھیں؛ تاہم امریکیوں کو اس جنگ کا یہ نقصان ہوا دونوں پاکستان اور بھارت دونوں اس سے ناراض تھے۔ بھارت کو شکایت تھی کہ امریکہ نے پاکستان کی کھل کر مدد کی تھی۔ بھارت یہ توقع کرتا تھا کہ امریکہ مشرقی پاکستان میں مبینہ طور پر نسل کشی کو روکنے کے لیے کردار ادا کرے گا۔ لیکن اس نے پاکستان کو نہیں روکا ۔ جب کہ پاکستان کو یہ شکایت تھی کہ امریکی مدد بھی اسے جنگ نہیں جتوا سکی تھی۔ امریکی اس بات پر حیران تھے کہ انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان اتنی جلدی جنگ ہارجائے گا اور سرنڈر کر دے گا ۔
بھٹو کو پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے امریکی مدد کی ضرورت تھی اور وہ امریکہ کے علاوہ چین سے لے کر سعودی عرب تک گھومتا رہا۔ بھٹو نے امریکہ سے کہا کہ پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی دوبارہ شروع کی جائے اور اس کے بدلے بھٹو نے امریکہ کو گوادر میں اڈوں کی پیشکش کی؛ تاہم نکسن نے بھٹو کی گوادر امریکیوں کے حوالے کرنے کی اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور کوئی دلچسپی نہ دکھائی۔ دوسری طرف اندراگاندھی کو امریکہ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ نکسن کو بھارت کا دشمن سمجھتی تھی اور وہ اندیشوں کا اظہار کرتی رہتی تھی کہ سی آئی اے اسے قتل کرانا چاہتی تھی خصوصاً جب شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش میں خاندان سمیت
ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا ۔
بھٹو کے پاس بھارت سے مقابلہ کرنے کا ایک ہی آپشن بچ گیا تھا۔ جوہری بم جس پر بھٹو نے خفیہ کام شروع کر دیا تھا ۔
یہ ہے وہ کہانی جو چار امریکی صدر کے ساتھ کام کرنے والے بروس ریڈل نے اپنی کتاب Avoiding Armgeddon میں لکھی ہے۔ امریکی حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے برسوں تک بھارت سے تعلقات اس لیے خراب رکھے کیونکہ نکسن پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا اور پوری جنگ میں اس نے ساتھ دیا ۔
امریکیوں کے دو اندازے اس جنگ میں غلط نکلے تھے۔ ایک تو ان کا خیال تھا کہ چین پاکستان کا ساتھ دے گا جو اس نے نہیںدیا ۔ دوسرے امریکیوں کے خیال میں پاکستان اتنی جلدی ہتھیار نہیں ڈالے گا اور وہ اسے اسلحہ اور دیگر سامان دوسرے ملکوں سے لے کر دیں گے اور اگر مغربی پاکستان پر حملہ ہوا تو وہ چھٹے بحری بیڑے کو استعمال کریں گے؛ تاہم بعد میں امریکیوں کو پتہ چلا کہ سی آئی اے کی رپورٹ درست نہیں تھی کہ اندرا گاندھی مغربی پاکستان پر حملہ کرنا چاہتی تھیں؛ تاہم امریکی ان حالات میں بھی اس رپورٹ کو سنجیدگی کے ساتھ لینے پر مجبور تھے اور اس وجہ سے نکسن نے چھٹی بحری بیڑے کو تیار رہنے کا حکم دیا تھا ۔
ہر قوم، ملک اورشخص کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے۔ یہ امریکیوں کا اپنا سچ ہے جو بروس ریڈل نے کلاسیفائیڈ دستاویزات کی مدد سے لکھا ہے اور نکسن دور کے بہت سارے افسران سے انٹرویوز کے بعد کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔
ہم پاکستانی چاہیں تو اسے تسلیم کرلیں کہ امریکیوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور ہمارے روایتی دوست چین نے ہماری کوئی مدد نہیں کی تھی یا پھر بروس ریڈل کی اس اہم اور سینکڑوں ریفرنسوں پر مشتمل کتاب کو امریکیوں کی اپنے آپ کو معصوم قرار دینے کی ''سازش‘‘ قرار دے کر مسترد کردیں!