آدھی رات سے زیادہ گزر چکی۔ نیند آنکھوں سے دور۔ ٹی وی سکرین پر ڈاکومنٹری چل رہی ہے۔ میں دم بخود بیٹھا دیکھ رہا ہوں کہ عشروں سے اس خطے میں جاری جنگ میں کس کس نے کیا کچھ قربان کیا اور ہمارے دانشوروں نے اس بربادی میں کیسے اپنا حصہ ڈالا اور آج تک اپنے لکھے پر شرمندہ بھی نہیں اور اوپر سے مسلسل اصرار کہ وہ اپنا منجن درست بیچ رہے تھے۔ یہ ڈاکومنٹری افغانستان کی ان بیوائوں کی زندگی کے بارے میںتھی جن کے خاوند افغان جنگ میں مارے گئے۔ انہیں ایک ایسے افغان معاشرے میں مرد کے بغیر زندہ رہنا تھا ، جس میں وہ دوسری شادی نہیں کرسکتی تھیں۔ کرتیں تو بچوں کو کھونا پڑتا۔
افغانستان میں عورت ہر دور میں مار کھاتی رہی ۔ طالبان کے دور میںعورتوں پر سرعام بازاروں میں تشدد ہوا۔ کابل کے فٹ بال گرائونڈ میں ایک بے بس عورت کو برقعے میں بٹھا کر پیچھے سے سر میں گولی مارنا ایک کھیل اور تفریح تھا ۔ ہمارے اردو لکھاریوں کے ساتھ ساتھ کچھ انگریزی لکھنے والی لبرل لکھاری خواتین‘ جنہیں ''اسلام آباد کی بیگمات‘‘ کا لقب ملا ہوا تھا‘ بھی طالبان کے حق میں لکھ لکھ کر بے ہوش ہورہی تھیں۔ وہ بیگمات ''اسٹریٹجک گہرائی‘‘ کے نام پر اسلام آباد میں بیٹھ کر ایسی مظلوم افغان خواتین کے قتل کے خوبصورت جواز گھڑ کر دنیا کو بیچ کر ہر ماہ اخبارات سے تگڑی تنخواہ کھری کر رہی تھیں۔ مگر پھر ایک دن ان گناہگار آنکھوں نے انہی بیگمات کو اسلام آبادمیں طالبان کے خلاف مارچ کرتے دیکھا‘ جس دن مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں خبردار کیا تھا کہ طالبان مارگلہ پہاڑیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ انگریزی میں کالم لکھنے والی بیگمات طالبان کے ہاتھوں جس طرح کی زندگی افغان خواتین کے لیے چاہتی تھیں، اپنے لیے ویسی زندگی کا سوچ کر ہی ان کی جان نکل گئی تھی ۔
اس ڈاکومنٹری کو دیکھ کر دل دہل جائیں لیکن ہمارے اندر دل ہیں کہاں؟ پتھر رکھے ہیں۔ پہلے روسی افواج تو بعد میں طویل خانہ جنگی‘ جس میں لاکھوں مارے گئے ‘نے ان عورتوں کی زندگیاں ان سے چھین لیں۔ رہی سہی کسر افغانستان پر امریکی حملوں کے بعد پوری ہوگئی ۔ روس نواز حکومت کے خلاف باغیوں کی جنگ ہو، امریکہ کی اسامہ بن لادن اور طالبان دشمنی ہو یا پاکستان بھارت کی کابل پر اپنے تسلط کی لڑائی، قیمت افغانستان کی عورتوں اور بچوں نے ہی ادا کی۔ یہ سب ممالک اپنے اپنے ملکوں کو محفوظ بنانے کے لیے افغانستان میں گھسے اوراسے تباہ کر کے رکھ دیا ۔اور ان پراکسی جنگوں میں افغان عورتیں اور بچے ہی ایندھن بنے۔
مہرجان بھی ایک ایسی بیوہ ہے جو اس جنگ سے متاثر ہوئی۔ کئی برس گزرے‘ ایک دن کچھ لوگ ایک لاش اس کے گھر کے آگے چھوڑ گئے۔ روتے بچوں نے ماں کو آواز دی کہ یہ توان کا باپ ہے۔ اس کے بعد وہ بچوں کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں اتنا کھوئی کہ چار برس خاوند کی قبر پرہی نہ جا سکی ۔ ان برسوں میں وہ مسجد کے باہر برقعہ پہن کر قالین بنتی رہی اور جو چند پیسے ملتے تھے ان سے بچوں کو پالتی رہی۔ برسوں بعد وہ بچوں کولے کر قبرستان لے گئی۔ ایک اجڑے قبرستان میں پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ اسے تو یاد ہی نہیں اس کے خاوند کی قبر کہاں ہے۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ اس قبر کو پختہ کراسکتی۔ وہ بچوں کے ساتھ قبرستان کے کونے کونے میں بھٹکتی رہی۔ آخر تھک کر اندازے سے ایک کچی قبر کے کنارے رک گئی ۔ بچوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ معصوم بچوں نے بھی ماں کو دیکھ کر ہاتھ باندھ لیے۔ ایک بیوی، ایک بیوہ اور ایک لاچار ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہوگئے۔ ماں کے بہتے آنسوئوں میں‘ اپنے مستقبل سے بے خبر‘ باپ کی قبر پربیٹھے بچوں کو بھوک لگنا شروع ہوئی تو مہرجان جو گھر سے کچھ پکا کر لے گئی تھی‘ پوٹلی کھول کر اسی قبر کے کنارے بچوں کو کھلانے بیٹھ گئی۔
مہرجان کے چھوٹے بچے سارا دن گندگی میں کھیلتے ہیں۔ وہ سکول نہیں جاتے۔ مہرجان کو معلوم ہے کہ ان کی زندگیوں میں بھی دکھ ہی دکھ ہیں جو ان کے بڑے ہونے کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ بغیر تعلیم کے وہ بھی اسی طرح جنگ کا شکار ہو جائیں گے جیسے ان کا باپ ہوا تھا۔ آنسوئوں کو پونچھتے ہوئے مہرجان بتاتی ہے کہ اس سے آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے؟ اس کا بڑا بیٹا تین برس افغان فوج میں رہا اور مہرجان کی جان پر بنی رہی۔ ان تین برسوں میں وہ ایک رات بھی سکون سے نہیں سو سکی۔ جب بھی وہ سوچتی کہ اگر خاوند کے بعد بیٹا بھی اس جنگ کا شکار ہوگیا تو کیا ہوگا؟۔اس سے آگے وہ کچھ نہیں سوچ سکتی تھی۔ تین برس بعد اس کا بیٹا فوج چھوڑ کر ماں کے پاس لوٹ آیا۔نوکری ڈھونڈنے کی کوشش کی تاکہ اپنی بیوہ ماں اور چھوٹے بھائی بہنوں کے قریب رہ کر ان کا خیال رکھ سکے تو پتہ چلا کہ افغانستان میں نوکری فوج میں ہی مل سکتی ہے۔ اب ماں ایک بار پھر امتحان میں پڑنے والی ہے کیونکہ مہرجان کا بیٹا سوچ رہا ہے کہ وہ پھر فوج میں چلا جائے وگرنہ اس کے بہن بھائی بھوکے مریں گے۔ مہرجان اب بھی کابل کی گلیوں میں قالین بُنتی ہے۔ تاہم اتنی مشکلات کے باوجود وہ یہ دعا کرنا نہیں بھولتی کہ کوئی بھی عورت ان مصائب سے نہ گزرے جن سے وہ گزر رہی ہے۔
ایک اور افغان بیوہ تندور پر روٹیاں لگاتی ہے ۔ اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ جب تک اس کا خاوند زندہ تھا اس کی زندگی بہت اچھی تھی۔ ایک دن وہ جنگ میں مارا گیا اور وہ تندور پر آبیٹھی۔ وہ سارا دن روٹیاں پکاتی ہے۔ اسے یقین نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کیا بیت گیا۔وہ سوچتی ہے کہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ وہ برقعے میں روٹیاں لگاتے ہوئے روتی رہتی ہے کہ زندگی نے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا۔ اب اسے زندگی خاصی مشکل لگتی ہے۔
ایک افغان فوجی افسر کی بیوہ کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے‘ اگرچہ اسے فوج کی طرف سے پنشن ملتی ہے۔ بچوں کے سامنے وہ بہادر بنتی ہے۔ ان کے سامنے اپنی آنکھ سے کوئی قطرہ نہیں گرنے دیتی ۔تاہم وہ گھر میں ان جگہوںکو دیکھ کر روتی ہے جہاں کبھی اس کا خاوند بیٹھا کرتا تھا ۔ جب بچوں سے ان کے باپ کے بارے میں پوچھا گیا تو ایک بچے نے اپنے باپ کی ایک تصویر نکال کر دکھائی اور بولا‘ اسے اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب وہ دوسرے بچوں کو اپنے باپ کے ساتھ مارکیٹ یا سکول میں دیکھتا ہے۔ اسے اس وقت احساس ہوتا ہے کہ اس کا باپ اس کے ساتھ کیوں نہیں ہے۔ وہ اس وقت اپنے باپ کو بہت مس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔وہ اس کے ساتھ کیوں نہیں رہتا۔!
پشاور میں ہونے والے ظلم نے پہلے ہی کئی راتیں نہیں سونے دیا تھا اور اب رہی سہی کسر کابل کی ان بے بس بیوائوں کے بارے میں بنائی گئی یہ ڈاکومنٹری پوری کر گئی ہے ! خوبصورت دھرتی جہنم میں بدل دی گئی۔ پوری دنیا افغانستان کے ساتھ کھیلتی رہی ۔ روس نے تباہی میں کوئی کسر چھوڑی تھی تو اچھے برے طالبان کے کھیل میں پوری ہو گئی۔ ہمارے جعلی دانشور گرم پانیوں کا جھوٹ بول کر اس خطے کو تباہ کرتے رہے اور آج تک ذرا بھی شرمندہ نہیں ۔ ابھی تک اپنی غلطیوں اور جھوٹ پر اصرار جاری ہے ۔ اب نیا منجن بیچ رہے ہیں کہ افغانستان کے بطن سے پانچ روسی مسلمان ریاستوں نے جنم لیا تھا ۔ سبحان اللہ ۔افغانستان تباہ و برباد ہوگیا ۔ لاکھوں افغانی مارے گئے۔ پچاس ہزار پاکستانی اب مارے گئے ہیں اور ہم پھر بھی تسلیاں دے رہے ہیں کہ ہم نے پانچ ریاستیں آزاد کرالی تھیں ۔ جن مبینہ مسلمان ریاستوں کو ہم نے آزاد کرایا وہ تو سکون کی نیند سوتے ہیں، اور وہ دانشور جو انہیں آزاد کرانے کا کریڈٹ لیتے ہیں ان کا اپنا ملک لہولہان اور برباد ہوگیا ہے۔ ویسے کسی دن ان پانچ ریاستو ں کا ویزہ لے کر دکھائیں تو لگ پتہ جائے گا ۔ وہ بھی اب ہمیں دہشت گرد قوم سمجھتے ہیں ۔ لیکن ہم ضد پر بھی قائم رہیں گے۔ اپنی غلطیوں پر اصرار کرتے رہیں گے۔ کیونکہ قلم ہمارے ہاتھ میں ہے ‘جب چاہیں امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں فساد کو جہاد لکھیں اور امریکہ کے ڈالروں کو حلال قرار دیں۔ اسرائیل سے خچر تک منگوا لیں کیونکہ اس وقت ہمارا لاڈلا جنرل ضیاء امریکہ کا کھیل جو کھیل رہا تھا ۔
جب جنرل ضیاء کے لاڈلے امریکی کانگریس مین چارلی ولسن کی شادی کا بندوبست خیبر پاس میں ہورہا تھا ، اس وقت مہرجان جیسی بیوائیں کابل کی مسجد کے باہر برقعہ پہن کر قالین بن رہی تھیں‘ تندور پر روٹیاں لگارہی تھیں اور ویران اجڑے قبرستانوں میں خاوندوں کی قبریں تلاش کر رہی تھیں۔ ان بوڑھی افغان بیوائوں کو آج تک علم نہیں، انہیں کس جرم کی سزا ملی تھی!