"RKC" (space) message & send to 7575

’’عقل متوں موج اے‘‘

امریکہ کی ریاست جارجیا سے اپنے بھائی اعجاز محمود کا فون تھا ۔ میرے گرم پانیوں کے جھوٹ والے کالم پر کہا: امریکہ میں بھی بہت لوگ یہ کالم پڑھ کر اپ سیٹ ہیں کیونکہ بات سمجھ میں آتی ہے ؛ اگر روس کو گرم پانیوں تک پہنچنا تھا تو اب جب پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی معاہدوں تک کی دوستی ہوچکی ہے، اسے گرم پانیوں تک رسائی کیوں نہیں چاہیے؟ روس بھی ہم سے اُس طرح کے تجارتی اور راہداری معاہدے کیوں نہیں کرتا جیسے پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ جیسے معاہدے افغانستان کے ساتھ کررکھے ہیں ۔ اعجاز بھائی کا کہنا تھا: سب کا میرے کالم پر نیا اعتراض یہ ہے کہ مان لیتے ہیں، روس نے گرم پانیوں کی خاطر افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا، تو پھر وہ افغانستان کرنے کیا آیا تھا؟ دوسرے لفظوں میں وہ افغانستان میں''امب لین آیا سی؟‘‘(آم لینے آیا تھا۔) میں نے کہا، اعجاز بھائی اس پر بھی لکھ دیں گے لیکن مجھے یقین ہے، ہمارے وہ دوست جنہوں نے عقل استعمال نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، کوئی نیا اعتراض ڈھونڈ لیں گے۔۔۔۔ پہلے وہ گرم پانی کا منجن تو ہضم کر لیںکیونکہ کئی دانشوروں سے وہ بھی ہضم نہیں ہورہا ۔ جب انہیں کوئی بات سمجھ نہیں آتی، سارا ملبہ لبرلز پر ڈال دیتے ہیں۔کنفیوژن کے شکار یہ لکھاری رائٹ ونگ کو فرشتہ اور لبرلزکو شیطان بناکر پیش کرتے ہیں۔ان دانشوروں کے نزدیک افغانستان میں بُرا لبرلزکے باعث اوراچھا رائٹ ونگ کی بدولت ہوا۔ مجھے کوئی بتائے، کتنے لبرلز اس وقت دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں یا قتل کرنے کے جرم میں پھانسی لگ چکے ہیں ؟ کتنے لبرل لکھاریوں نے انسانوںکو قتل کرنے والوں کی حمایت کی، ان کے پریس ریلیز چھاپے، دہشت گردوںکے انٹرویوزکیے یا ٹی وی پر انہیں گلیمرائزکرکے پیش کیا ؟ کتنے لبرلز پر الزام ہے کہ انہوں نے گروہ بنا کر ریاست کے خلاف ہتھیاراٹھالیے، عورتوں اور بچوں کے گلے کاٹے یا طالبان کو اپنے ناراض بھائی کا درجہ دیا؟ کیا لبرلز نے گزشتہ دہائی کے دوران پچاس ہزار انسانوں کو قتل کیا یا مینار پاکستان پر کسی اجتماع میں قتال کا فتویٰ دے ڈالا یا پشاور میں ایک سو چالیس بچوں کو قتل کیا ؟
اس ملک میں مذہب کے نام پر کھیلنا آسان رہا ہے۔ اگر مجھے اجازت مل جائے تو ان کالموں اور تحریروںکے اقتباسات پیش کروں کہ جب امریکہ سے ڈالرزکی بوریاں آتی تھیں تو لکھا جاتا تھا کہ کرسچین ورلڈ اور مسلمانوںکا فطری اتحاد ہے، اہل کتاب سے شادی جائز ہے، روسی کافر ہیں ، وہ خداکو نہیں مانتے ، ان کے خلاف جہاد جائز ہے۔ اس وقت امریکہ کے حق میں جو تاویلیں دی جاتی تھی انہیں پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آج وہی دانشور امریکہ کوکافر قرار دے کر اس کے خلاف جہاد جائز سمجھتے ہیں۔ 
اس ملک میں دانشوروں کی موج ہے، کتاب پڑھنے کا رواج ہی نہیں ۔ ہم امتحان پاس کرنے کے لیے نصابی کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور ساری عمر انہی کے سہارے دانشوری بگھارتے ہیں۔ چند کالم اور خبریں پڑھ لیں تو دانش کے پیغمبر بن جاتے ہیں ۔ میں کئی دانشوروں کے عالمی یا علاقائی سیاست پرکالم پڑھتا ہوں تو ہنسی روکنا مشکل ہو جاتی ہے۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی ان موضوعات پرایک کتاب بھی نہیں پڑھتا۔ ایک دفعہ میں نے یونیورسٹی کے کچھ طالب علموں سے کہا کہ وہ اس موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھیںکہ رائے عامہ ہموارکرنے والے دانشور خود سال میں کتنی کتابیں پڑھتے ہیں اور جن موضوعات پر وہ لکھتے یا بولتے ہیں ان پرکتنا پڑھتے ہیں؟ میرا خیال 
ہے قوم یہ معلوم کر کے حیرت میں ڈوب جائے گی کہ ہمارے دانشور اپنے سوا کسی کو نہیں پڑھتے ۔کسی دن سروے کرا کے ہی دیکھ لیں، جو ہم روزانہ لکھ لکھ کر کاغذ سیاہ کرتے ہیں، خود کتنا پڑھتے ہیں۔ 
نہ پڑھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بحث تعلیمی کے بجائے ذاتی ہوجاتی ہے اور ہمارے اس قماش کے دانشور فوراً ناراض ہوکر گالم گلوچ اور طعنہ زنی پر اتر آتے ہیں۔ کتاب ذہن کو کھولتی ہے، نئے زاویے سمجھاتی ہے، دنیا کو دوسرے کی آنکھ سے دیکھنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ کتاب سے دور دانشور پہلے اپنے مخالف کو روسی ایجنٹ قراردیتے تھے، جب سے روس کے ساتھ دفاعی معاہدے ہوئے، وہ مخالف کو امریکی ایجنٹ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔۔۔۔۔ یہ انجام ہوا ہماری دانش اور دانشوروں کا ! 
میں نے اپنے کالموں میں کچھ کتابوں کے حوالے دیے تو کچھ حضرات نے حسب توقع کہا کہ امریکی مصنفین کی کتابوں پریقین نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے جواباً عرض کیا اورکس نے کتابیں لکھی ہیں جن پر یقین کیا جائے ؟ امریکیوں اور یورپیوں کے ایجاد کردہ کمپیوٹر پرتو ہمیں یقین ہے۔۔۔۔ انٹرنیٹ، وائی فائی، واٹس ایپ، فیس بک، وائبر، ٹویٹر پر یقین ہے ، لیکن امریکی دانشوروں کی لکھی ہوئی کتابوں پر یقین نہیں ۔ ہمیں امریکی میڈیکل سائنس پر یقین ہے، ہمارے میڈیکل کالجوں میں اسی کی میڈیکل ریسرچ پڑھائی جاتی ہے۔ جنرل ضیا، جنرل اختر عبدالرحمن یا قاضی حسین احمدکے بچے امریکہ ہی میں پڑھتے رہے۔ ہمیں امریکی اسلحہ، ایف 16 طیاروں، اواکس طیاروں، میزائلوں اور توپوں پر تو یقین ہے لیکن ان کے کسی دانشورکی لکھی ہوئی کتاب پرہمیں شک ہوجاتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے سانحے کے حوالے سے سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب India at Risk میں جنرل جیکب کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان نے کیسے ہتھیار ڈالے تھے؛ اگر اس کی تفصیل لکھوں تو شاید بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم سچ سننا چاہتے ہیں نہ پڑھنا، اپنا خول بنایا ہوا ہے جس میں ہم زندہ اور خوش ہیں۔ 
ہمارے دانشور افغانستان کے معاملے میں بہت جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ایک دانشورکا پاکستان کی افغانستان میں مداخلت کا جواز پڑھا۔ فرماتے ہیں، پاکستان کا فرض بنتا تھاکہ افغانیوں کی مدد کرے۔ چلیں مان لیا۔ اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ کیا ہم یہ حق بھارت کودے سکتے ہیں کہ اس نے مشرقی پاکستان میں جو چڑھائی کی تھی وہ بھی اپنے ہمسائے ملک میں جاری سول جنگ سے متاثر ہونے والے بنگالی ہندوئوںکی مدد کے لیے تھی؟ پاکستان کہتا ہے، ہم نے افغانستان میں اپنے مسلمان بھائیوںکی بیرونی روسی جارحیت کے خلاف مدد کی تھی۔ اندرا گاندھی بھی عالمی فورم پر یہی کہتی تھیں کہ مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج وہاں کے بنگالیوں پر ظلم کر رہی تھی اور لاکھوں ہندو اور مسلمان بنگالی ہجرت کر کے آسام اور کلکتہ آگئے تھے۔ اندرا گاندھی جنگ سے پہلے یہی بات امریکی صدر نکسن کو سمجھانے واشنگٹن گئی تھیں۔ ان کے ہاں لاکھوں بنگالی مسلمان اور ہندو ہجرت کر کے آگئے تھے جس سے ہندوستان کے لیے مسائل کھڑے ہوگئے تھے۔وہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن بند کرانا چاہتی تھیں لیکن نکسن نے انکار کر دیا۔ یوں بھارت نے وہ موقف اختیارکیا جو دس برس بعد ہم نے افغانستان میں کیا کہ ہمسایہ ملک میں سول وار کی وجہ سے ہم متاثر ہورہے ہیں اور پناہ گزینوں کی وجہ سے ہمارا ملک خراب ہورہا ہے ، لہٰذا بیرونی افواج افغانستان سے نکل جائیں ۔
میرے رائٹ ونگ کے دانشور دوست جس شک کا فائدہ اپنے محسن اور ہیرو جنرل ضیا کو دیتے ہیں، در اصل وہ سب مل کر اندرا گاندھی کے جوازکو مضبوط کررہے ہیں کہ وہ بنگالی ہندوئوں کی مدد کے لیے مکتی باہنی کی مدد کررہی تھیں۔ ہم افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت چاہتے تھے، لہٰذا دس برس ہم نے جنگ لڑی۔ اندرا گاندھی بھی مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش میں دوست ملک چاہتی تھی، اس نے بھی وہاں جنگ لڑی۔ ویسے ہمارے جودانشور کتاب سے دور رہتے ہیں وہ اچھا ہی کرتے ہیںکیونکہ کتاب سے شعور ملتا ہے اور شعور آپ پر ذہنی تشدد کرتا ہے۔ شعور اورکتاب سب سے پہلے قاری کے بوسیدہ خیالات اور تعصبات پر حملہ آور ہوتی ہے جنہیں اس نے بڑی محبت اور لاڈ سے پال پوس کر بڑاکیا ہوتا ہے۔ اس لیے شاید زیادہ پڑھنا بھی دانش کے لیے اچھا نہیں۔ 
شاید میرے جیسے بیوقوف فائدے میں رہتے ہیں جو شعور اورکتاب سے دور رہتے ہیں۔ہم نے اتنا سمجھدار ہوکرکرنا بھی کیا ہے۔۔۔۔۔ ہم بے شعور ہی بھلے۔۔۔۔۔ شاید کسی سیانے سرائیکی نے ہم جیسوں کے بارے میں ہی کہا تھا : ''عقل متوں، موج اے‘‘۔۔۔۔! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں