مہربان دوست ارشاد عارف کا کالم تھپڑ پڑھ کر فارغ ہوا ہوں۔ سینٹرل پنجاب کے ایک ایم این اے نے قومی اسمبلی میں نوازشریف سے ملنے کے لیے ہونے والی دھکم پیل میں مظفرگڑھ کے ایک ایم این اے کو تھپڑ دے مارا۔
کل رات دیر تک عابدہ حسین کی آپ بیتی پڑھتا رہا ۔ عابدہ حسین نے بھی کچھ واقعات لکھے ہیں ،جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوشامد کا انسانی زندگی میں کتنا اہم کردار ہوتا ہے۔
ہم سب صحافیوں کو وزیراعظم سے ملنے کے لیے ان ایم این ایز کی یہ بے چینی قومی اسمبلی میں اس دن نظر آتی ہے جس دن وزیراعظم ایوان میں آئیں ۔ مکھیوں کی طرح ایم این ایز ایک دوسرے کو دھکے دے کر جس طرح فرشی سلام کرتے ہیں، اسے دیکھ کر گھن آتی ہے۔ باقی چھوڑیں ایک دن تو سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی تک نواز شریف کے آگے بچھے جارہے تھے جو کبھی خود غرور کی مثال تھے۔ یہ جو ایم این ایز اپنے اپنے علاقوں میں فرعون بنے پھرتے ہیں، قومی اسمبلی میں ایک ڈرپورک گڈریے کی طرح لگ رہے ہوتے ہیں اور ان کی یہ حالت دیکھنے و الی ہوتی ہے ۔ ایسے ایسے کرتب دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ہم پریس گیلری میں بیٹھے شرمندہ ہورہے ہوتے ہیں۔ لیہ کا ایک نیم خواندہ ایم این اے جو پچھلے سات برس سے قومی اسمبلی میں ہے، نواز شریف سے بڑی مشکل سے ملا اور کافی دیر تک خوشامد کرتا رہا۔ بادشاہ سلامت نے خوش ہو کرپوچھا، مانگ بچہ کیا مانگتا ہے۔ مشکوک ڈگری کے حامل اس ایم این اے نے جواب دیا کہ وہ بہت غریب ہے۔ اس کے پاس کرائے کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ اسے بس پر لیہ سے اسلام آباد آنا پڑتا ہے۔ اسے سرکاری کار اور مفت پٹرول دیا جائے تو پیر صاحب کے اس بچے کا مقدر بدل جائے گا ۔ حالانکہ ان ایم این اے کی اپنی گدی ہے جہاں نیم خواندہ مرید ہر ماہ خاصی تگڑی رقم ان کی خدمت میں پیش کرجاتے ہیں اور موصوف کے ساتھ بڑی گاڑیوں کا قافلہ چلا کرتا ہے۔ بادشاہ سلامت نے جواب میں اسے پارلیمانی سیکرٹری کا عہدہ دیا تاکہ اسے مفت کار اور پٹرول مل سکے۔ جو گونگا ایم این اے ایک لفظ قومی اسمبلی میں نہیں بول سکتا وہ اب پارلیمانی سیکرٹری ہے۔ جب نواز شریف کو سرائیکی علاقوں سے ایسے خوشامدی ایم این ایز ملتے ہیں تو پھر انہیں تھپڑ ہی پڑیں گے۔ ملتان کے قریب سے منتخب ہونے والا ایک اور ایم این اے ملا۔ وہ بھی گدی نشین ہے ۔ بولا،ہمیں یہاں کوئی لفٹ نہیں کراتا ۔ میں نے کہا ،کمال ہے !جو خوشامدی تقریر آپ نے نواز شریف کو اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد کی اور جس حد تک آپ گر گئے تھے اس کے بعد بھی آپ کو کوئی لفٹ نہیں کراتا؟
ایک دفعہ چوہدری نثار علی خان نے مجھے بتایا تھا کہ نون لیگ کے پچھلے دور حکومت میں کئی ماہ گزر گئے تو کچھ وزراء ان کے پاس آئے اور کہا کہ وہ میاں نواز شریف سے کہیں کہ کابینہ کا اجلاس بلائیں ۔میاں صاحب کابینہ کا اجلاس نہیں بلاتے اور اپنی مرضی کے فیصلے کرتے رہتے ہیں ۔ بہت سارے اہم ایشوز اور شکایات ہیں۔ چوہدری نثار نے نواز شریف سے کہہ کر کابینہ کا اجلاس بلوا لیا۔ جب کابینہ کا اجلاس شروع ہوا تو چوہدری نثار کا خیال تھا کہ آج بہت ہنگامہ ہوگا کیونکہ بہت سے وزراء ناراض تھے۔ تاہم اس وقت چوہدری نثار کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہی وزراء نے نواز شریف کی خوشامدیں شروع کر دیں جو ان کے پاس غصے میں آئے تھے اور جن کے کہنے پر کابینہ کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ اس پر چوہدری نثار چپ نہ رہ سکے اور بولے ، میاں صاحب حیرت ہے جو وزراء آپ کی خوشامدیں کررہے ہیں وہ تو ان کے خلاف بھرے بیٹھے تھے۔ اس پر نواز شریف چوہدری نثار سے ناراض ہوگئے اور ایک چٹ بھیجی کہ وہ یہ بات اکیلے میں نہیں کر سکتے تھے؟
اسی طرح عابدہ حسین اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ جب وہ پیپلز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں ممبر تھیں تو جھنگ میں شدید سیلاب آیا ۔ ڈپٹی کمشنر جھنگ نے عابدہ کو بتایا کہ وزیراعظم بھٹو دورے پر آرہے ہیں۔ ریلیف کیمپ کے نزدیک ہیلی کاپٹر اترے گا، جلدی سے وہ ریلیف کیمپ کا دورہ کریں گے ،سیلاب متاثرین سے خطاب فرمائیں گے اور وہاں سے ملتان چلے جائیں گے۔ عابدہ حسین کو کہا گیا کہ وہ بھی ایک طویل قطار میں کھڑے ہو کر وزیراعظم کا استقبال کرسکتی تھیں۔
سرگودھا ڈویژن کی تمام بیوروکریسی جس میں کمشنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر شامل تھے ، اور اس علاقے کے سارے ایم این ایز اور ایم پی ایز نے ہیلی پیڈ پر ایک قطار بنائی ہوئی تھی۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر آیا اور قطار میں لگے ہوئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہاتھ میں پھولوں کے ہار پکڑانے شروع کردیے تاکہ وہ بھٹو صاحب کے گلے میں ڈالیں۔ جب وہ اے سی عابدہ حسین کے قریب پہنچا اور ہار دینے لگا تو وہ بولیں یہ ہار کس لیے؟ اسسٹنٹ کمشنر عابدہ حسین کا سوال سن کر حیران ہوا اور بولا،قائد عوام کے گلے میں پہنانے کے لیے!
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ بیوروکریسی کی طرف سے خوشامد کی یہ انتہا دیکھ کر انہیں دکھ ہوا ۔ وزیراعظم بھٹو یہاں لٹے پٹے سیلاب زدگان کا پتہ کرنے آرہے تھے تاکہ دیکھ سکیں کہ انہیں ریلیف کا سامان مل رہا تھا کہ نہیں اور یہاں بیوروکریسی نے سب کو قطار میں کھڑا کر کے پھولوں کے ہار پہنانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ وہ اپنا فرض نبھانے آرہے تھے اور یہاں پھولوں کے ہاروں کا مقابلہ ہورہا تھا۔ عابدہ حیران ہوئیں کہ بیوروکریسی کیوں اس موقع کو سیاسی جلسہ کا رنگ دے رہی تھی؟ یہ سوال جب عابدہ نے کمشنر سرگودھا سے پوچھا تو وہ بولا کہ ہیلی کاپٹر اترنے والا ہے ،اس پر بعد میں بات کریں گے۔ بھٹو ہیلی کاپٹر سے اترے۔ انہوں نے مائو کیپ پہنی ہوئی تھی اور سفید سفاری سوٹ پہنے ہوئے تھے ۔ سب نے بھٹو کے گلے میں ہار ڈالے ۔ عابدہ نے کوئی ہار نہیں پہنایا ۔ بھٹو نے یہ بات محسوس کی کہ ان کی پارٹی کی ایم پی اے نے انہیں ہار نہیں پہنایا ۔یکدم بھٹو صاحب کو احساس ہوا اور وہ اونچی آواز میں بولے، یہ موقع پھولوں کے ہار پہننے کا نہیں... یہ کہہ کر بھٹو نے آہستہ سے عابدہ حسین کو کہا۔''تم عابدہ ہو ؟تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم تو بہت بری حالت میں ہو!‘‘
'' جناب وزیراعظم ‘میں ان سیلاب زدگان کے لیے کام کررہی ہوں اور ان بے چاروں کی حالت بہت بری ہے‘‘۔ عابدہ بولیں۔
''کہاں ہیں وہ سب لوگ ...مجھے وہاں لے چلو‘‘بھٹو نے فورا ًکہا اور گورنر پنجاب مصطفی کھر کے ساتھ تیز قدموں کے ساتھ اس طرف چلنے لگے ۔ عابدہ نے بھی تیز قدموں سے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی ،جب کہ باقی کا ہجوم ان سے کچھ فاصلے پر پیچھے چل رہا تھا۔ جب بھٹو عورتوں اور بچوں کے قریب پہنچے تو اچانک سب کو وہاں بدبو محسوس ہوئی۔ بھٹو نے اپنی جیب سے رومال نکالا تاکہ اپنی ناک پر رکھ سکیں۔ تاہم جب انہوں نے ایک عورت کو مدد کے لیے روتے ہوئے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ بھٹو نیچے جھکے اور اس عورت کے بچے کو اپنے بازوئوں میں لے لیا اور اس رومال سے بچے کا میلا چہرہ صاف کرنے لگے۔
عابدہ لکھتی ہیں کہ اس وقت انہیں بھٹو کو دیکھ کر اپنے والد کرنل عابد حسین یاد آگئے جو اسی طرح کے انسانی جذبات رکھتے تھے ۔
''عابدہ‘‘ بھٹو صاحب نے انہیں پکارا ۔ '' بتائو ان بچوں اور عورتوں کو اس وقت فورا ًکس چیز کی ضرورت ہے؟‘‘
'' جناب انہیں اس وقت صابن، ڈیٹرجنٹ، بسکٹ، آٹا، چاول،آئل اور جوتوں کی ضرورت ہے اور ڈرائی راشن بھی چاہیے۔ انہیں اس وقت لائل پور اور لاہور سے نیک لوگ پرانے بستر بھیج رہے ہیں‘‘۔ ''باجوہ...‘‘بھٹو نے کمشنر کو کہا۔ ''فوراً سب چیزیں فراہم کرو‘‘۔پھر کہا ''اب مجھے وہاں لے جائو جہاں مرد بیٹھے ہیں‘‘۔
عابدہ حیران ہوئیں کہ وہاں ایک بڑا ڈائس بنایا گیا تھا اور سیلاب متاثرین مرد وہاں اکٹھے ہوئے تھے۔ پولیس کی ایک بھاری نفری تعینات تھی۔ جونہی بھٹو اوپر چڑھے ،پی پی پی جھنگ کا صدر عمر سیال ایک میگا فون پکڑ کر نعرے مار نے لگا ۔ ''قائدعوام زندہ باد‘‘۔
بھٹو اس کی طرف گئے۔ اس کے ہاتھ سے میگا فون چھینا اور زمین پر پھینک کر بولے '' چمچے بیٹھ جا‘‘۔
موصوف کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور اس نے دوباہ میگا فون زمین سے اٹھایا اور چلاّیا ''مجھے قائد عوام کا چمچہ ہونے پر فخر ہے‘‘۔
''اوئے چمچے !مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے ‘‘بھٹو اونچی آواز میں بولے ۔''مجھے پتہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کیسے کھاتے ہیں...!‘‘
مجمع یہ سب کچھ سن رہا تھا۔۔انہوں نے نعرے لگانے شروع کردیے۔''جیے بھٹو‘‘اور خاصی دیر تک نعرے لگتے رہے۔
اس لیے جب تین دن قبل قومی اسمبلی میں دو خوشامدی ایم این ایز...ایک لاہور اور دوسرا مظفر گڑھ سے ...وزیراعظم نواز شریف کے آگے فرش پر لیٹنے کے لیے لڑ پڑے اور ایک کو تھپڑ بھی پڑ گیا تو کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خوشامد وہ چمن ہے جس میں کبھی خزاں نہیں آتی ۔ بیوروکریٹ سے لے کر سیاستدان اور میرے جیسے گناہگار تک جو بھی یہ قیمتی راز پاگیا سمجھ لیں، وہ گوتم بدھ کی طرح صدیوں تک برگد تلے خاموش بیٹھے بغیر ہی نروان پاگیا...!