"RKC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کے قاتل!

امریکہ سے آج کل دوستوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ میں برے وقت میں بڑے اچھے دوست بنے۔ پہلے ورجینیا کے دوست اکبر چوہدری اسلام آباد آئے ۔ عامر متین کے گھر محفلیں جمیں۔ اکبر چوہدری اپنے شہر اوکاڑہ گئے ہوئے ہیں۔ اب لانگ آئی لینڈ نیویارک سے میاں مشتاق احمد جاوید آئے ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے ہفتوں ڈاکٹر عاصم صہبائی کا انتظار کیا۔ ڈاکٹر عاصم اور ان کے ذہین بیٹے عثمان اور بھابھی عائشہ کو ہم سب مس کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر عاصم کیا شاندار انسان ہیں اور چارماہ ان کے ساتھ کیا خوبصورت وقت گزارا ہے۔ کتنی فلمیں لیوس شہر کے سینما ہائوس میں عاصم صاحب کے ساتھ دیکھیں۔ پورا ماہ میرے بچے خوش رہے کہ عاصم انکل آرہے ہیں۔ مگر وہ نہ آسکے۔ 
ویسے آج کل مسافروں کا پہلا ٹھکانہ بیوروکریٹ دوست طارق پیرزادہ کے گھر ہی ہوتا ہے۔ مہمان نوازی میں بھی پیرزادہ صاحب کا کوئی جوڑ نہیں ۔ دوست کالم نگار ہارون الرشید بھی آگئے، سابق سینیٹر طارق چوہدری، خالد بھائی، مشتاق بھائی پہلے سے موجود تھے اور یوں خوب محفل جمی۔ 
بات عمران خان کی شادی سے ہوتی ہوئی اسلام آباد کی بربادی تک پہنچ گئی۔ میں نے کہا‘ آج کل اسلام آباد کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ کیا خوبصورت شہر تھا اور کیسے برباد کر دیا گیا ہے۔ ایک سال میں ایک سو ارب روپے سے زیادہ رقم خرچ کر لی گئی لیکن لگتا ہے آپ کسی پس ماندہ علاقے کے قصبے میں رہتے ہیں۔ پچاس ارب روپے میٹرو پر لگ رہا ہے جس کی ضرورت نہیں تھی۔ کچھ عرصے میں 23 ارب روپے وزارت داخلہ نے امن و امان کے نام پر خرچ کر دیے ہیں۔ اس سے پہلے سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری کے دور میں ستر ارب روپے خرچ ہوئے تھے۔ پیرزادہ صاحب نے بیوروکریٹس کی مجبوریاں بیان کرنا شروع کر دیں جو ان کے خیال میں ہمیں نہیں بھولنا چاہئیں۔ انہوں نے کامران لاشاری کی کچھ اچھی باتیں بھی سنائیں۔ میں نے کہا‘ سر انہی مجبوریوں نے تو برباد کر دیا ہے۔ کسی کو پتہ ہے کہ سی ڈی اے میں 27 ہزار ملازم ہیں؟ میںنے دہرایا ''ستائیس ہزار ملازم‘‘ اور یہ پوری فوج کے برابر ہیں‘ لیکن اس سے زیادہ گندا شہر شاید ہی کوئی اور ہوگا۔ ہر ماہ کروڑوں روپے ان ستائیس ہزار ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات میں صرف ہورہے ہیں۔ ہر سال تین چار ارب روپے کے پلاٹ بیچ کر بھی یہ مزے کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کے ایک دوست نے ایک ہائوسنگ پروجیکٹ شروع کیا۔ لوگوں کو لالچ اور دھوکا دیا گیا کہ تین ماہ میں ریکارڈ ترقیاتی کام مکمل ہوں گے۔ چار ارب روپے اکٹھے کیے اور یہ جا‘ وہ جا۔ وہ چار ارب روپے کہیں اور خرچ ہوگئے اور جنہوں نے اس پروجیکٹ کے نام پر ادائیگیاں کی تھیں‘ آج تک دھکے کھارہے ہیں ۔ پتہ چلا اس سکیم کے مقابلے میں کسی نے ایک نیا سیکٹر کھول لیا۔ وہ سکیم مکمل ہوگئی ہے اور سی ڈی اے نے چار ارب روپے کا پھکا مارلیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس کا دائو لگ رہا ہے‘ لگا رہا ہے کیونکہ اوپر سے نیچے تک سب بک گئے ہیں۔ سب مال کما رہے ہیں۔ کوئی دور ہوتا تھا بیوروکریٹ اپنی عزت سنبھال کر رکھتا تھا۔ اب کہاں کی عزت اور کیسی عزت۔ بس پیسہ ہی عزت بن گیا ہے۔ 
اب سی ڈی اے کا ایک اور سکینڈل آرہا ہے کہ ایک اور سیکٹر کی فائلیں بک گئی ہیں اور زمین پوری نہیں ہے۔ پتہ چلا کہ سی ڈی اے کی یونین کی وجہ سے ملازمین کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ کر لو جو کرنا ہے۔ یہ فائدہ ہوا یونین بنانے کا ۔کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ یونین سب کا تحفظ کرتی ہے ماسوائے اس شہر کے مفادات کے تحفظ کے۔ 
سی ڈی اے میں ایک دن‘ اس ممبر کو فون کیا جس کا کام صفائی کو دیکھنا ہوتا ہے۔ درخواست کی‘ حضور شہر برباد ہورہا ہے۔ کبھی یہ جھیلوں کا شہر تھا‘ اب یہی جھیلیں گندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ ان میں پھینکا جاتا ہے۔ سی ڈی اے کے ستائیس ہزار ملازمین کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا‘ پلیز ان جھیلوں کی صفائی کا کام کرائیں‘ میں اپنے بچوں سمیت ان کی صفائی میں شریک ہوں گا‘ مگر کچھ نہ ہوا۔ تنخواہ اور مراعات سب لیتے ہیں‘ مگر کام کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ پچھلے ہفتے سی ڈی اے کے ایک اور بڑے افسر کو فون کیا اور کہا: ''اسلام آباد مررہا ہے۔ سپر مارکیٹ کے دل میں ایک خالی پلاٹ ہے۔ قریب ہی ایک مدرسہ ہے‘ یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ یہ پلاٹ اور مارکیٹ اس وقت راولپنڈی کے پیرودھائی بس سٹینڈ کا سین پیش کررہا ہے۔ ہر طرح کی پرانی بسیں، ٹرک، ٹیکسیاں، گھوڑے، گدھے وہاں پارک ہوتے ہیں۔ ہارن، دھواں، شور شرابا سب موجود ہے۔ وہاں اب دھیرے دھیرے قبضہ ہورہا ہے جیسے پہلے درجنوں پلاٹس پر قبضے کر کے غیرقانونی مسجدیں اور مدرسے کھڑے کر لیے گئے۔ اس پلاٹ پر ایک خوبصورت پارک کیوں نہیںبنادیتے؟ لوگوں کو شہر میں سبزہ اور پھولوں کی بھی اتنی ضرورت ہوتی ہے جتنی روٹی، کپڑا اور مکان کی‘‘۔ فرمانے لگے ''ابھی کرتے ہیں۔ اسے خالی کراتے ہیں‘‘۔ آج دس دن گزر گئے ہیں۔ پتہ تک نہیں ہلا۔ اگر کوئی ذاتی کام کہتا تو دوست ہونے کے ناتے فوراً کرتے۔ اجتماعی کام سے انہیں کیا غرض؟ 
میں سولہ سال سے اسلام آباد میں ہوں اور جتنا گندا میں نے اسلام آباد کو اب دیکھا ہے‘ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہاں اگر اسلام آباد صاف ستھرا ہے تو صرف کنونشن سنٹر سے لے کر وزیراعظم ہائوس تک جانے والی سڑک کی حد تک ہے۔ اس روڈ پر آپ کو ہر وقت سی ڈی اے کے ملازم پھول لگاتے یا انہیں اکھاڑتے نظر آئیں گے۔ لگتا ہے پورا اسلام آباد اس دو کلو میٹر کی سڑک پر سمٹ آیا ہے یا ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کو کروڑوں روپے کا بجٹ ملتا ہے کہ وہاں پھول لگائیں‘ سبزہ اگائیں کیونکہ انسان صرف وہیں رہتے ہیں۔ باقی سب گھوڑے گدھے ہیں۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس میں ہی گھاس لگے گی، اسے کاٹا جائے گا، وہیں پھول لگیں گے۔ پھر ان پھولوں کو وہاں سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا اور نئے سرے سے گھاس لگانے کی تیاری ہوگی۔ ہر تین ماہ بعد یہ مشق ہوتی ہے۔ ایک دن سابق آڈیٹر جنرل سے پوچھا‘ یہ کیا اور کیوں ہوتا ہے؟ فرمانے لگے‘ جناب بیوروکریٹ سب سے زیادہ پیسہ سول ورکس میں کماتے ہیں۔ جی ہاں‘ مٹی سے اس لیے کماتے ہیں کہ اس کا کوئی حساب نہیں ہوسکتا۔ یوں یہ لوٹ مار جاری ہے۔ 
ان بیوروکریٹس سے ان کے بچے تک نہیں پوچھتے‘ بابا آپ اس شہر کے بڑے افسر ہیں۔ یہ شہر کیوں مررہا ہے۔ یہ کیوں گندا ہے۔ آپ سی ڈی اے کے سربراہ ہیں۔ آپ ممبر ہیں۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔ کیوں اس شہر کو آپ نے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ کوئی سڑک دیکھ لیں، کوئی سیکٹر دیکھ لیں۔ سڑکوں کی حالت دیکھ لیں۔ کوئی بیوی یا بیٹا یا بیٹی اپنے باپ کو یہ بات نہیں کہتی‘ آپ ہمیں کیوں برباد کررہے ہیں ۔
بچپن میں ہم پڑھتے تھے‘ ایک کتا بھی بیٹھتا ہے تو وہ اپنی پونچھ سے پہلے زمین صاف کرتا ہے‘ پھر بیٹھتا ہے۔ ہم انسان ہوکر اتنے گندے کیوں ہیں ۔ ہمیں اس شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے پیسے ملتے ہیں‘ مراعات ملتی ہیں‘ لیکن شہر کے پارکس کو دیکھ لیں‘ لگتا ہے جنگل بھی زیادہ صاف ستھرے ہوں گے۔ 
ہم نے سی ڈی اے کے ان 27 ہزار ملازمین اور افسران کا کیا کرنا ہے جو اس شہر کو جونک کی طرح چوس رہے ہیں۔ فیصل صالح حیات وزیرداخلہ تھے تو ان کے دور میں بیوروکریسی کی عیاشی ہوگئی تھی۔ پچاس ڈی ایم جی افسران نے ڈیپوٹیشن کرائی اور خوب مزے لیے۔ زیرو پوائنٹ کے قریب پوش سیکٹر میں پرانے بس سٹینڈ کو گرا کر نئے پلاٹس پیدا کیے گئے اور بابوئوں نے آپس میں تقسیم کیے۔ یوں سی ڈی اے ان بابوئوں کے لیے کروڑوں روپے کے پلاٹس کا ذریعہ بن گیا۔ ہر کسی نے سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن کرالی۔ سب نے پلاٹ لیے۔ بیچے اور کروڑ پتی بن کر یہ جا‘ وہ جا۔ آج کل جو محل اس بس سٹینڈ پر تعمیر ہورہے ہیں انہیں دیکھ کر آپ کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ دوسری طرف اس شہر میں غریبوں کی بستیاں دیکھ لیں‘ جن کے لیے سی ڈی اے چند ہزار فلیٹ تک نہیں بنوا سکا۔ آخر وہ بھی انسان ہی تھے۔ پچاس ساٹھ بیوروکریٹس کو چار ارب روپے کے پلاٹ ملے جو وہ بیچ کر چلتے بنے اور آج اسلام آباد مررہا ہے۔ 
ایسے ایسے ٹھگ اس شہر پر راج کرتے ہیں‘ حیرانی ہوتی ہے۔ کوئی اپنے گھر کو بھی برباد کرتا ہے؟ کوئی اپنے گھر کو بھی لوٹتا ہے؟ ہم وہ ٹھگ ہیں جو اپنے آپ کو لوٹ رہے ہیں۔ اپنے آپ کو نوچ رہے ہیں۔ جو چھوٹا سا شہر اسلام آباد نہیں چلا سکتے وہ پورا ملک کیسے چلا سکیں گے۔ 
ان لٹیروں اور نالائقوں کے لیے عرض ہے کہ ٹویٹر پر سائنسی ویب سائٹ پر میں نے پڑھا‘ قبر میں تین دن بعد جو جسمانی نظام زندہ انسان کو خوراک ہضم کرنے میں مدد کرتا ہے، وہی خوراک نہ ملنے پر اسی انسان کی لاش کو کھانا شروع کردیتا ہے اور آخر میں صرف ہڈیاں بچ جاتی ہیں! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں