اس ملک پر کئی صدمے گزر گئے۔
پاکستان ایک سو ارب ڈالر کے قریب کا مقروض ہوگیا۔ چند لوگ کمشن کھا گئے۔ عوام ابھی قرضے ادا کررہے ہیں ۔ اب قرضے کیسے اوپر نہیں جائیں گے جب نندی پور پاور پلانٹ کا منصوبہ بارہ ارب روپے سے شروع ہو کر ایک سوارب روپے سے اوپر چلا جائے گا‘ جیسے منگلا ڈیم اونچا کرنے کا منصوبہ چالیس ارب روپے سے شروع ہوکر ایک سو چالیس ارب روپے پر پہنچ گیا تھا۔
پیپلز پارٹی دور میں سیف سٹی پروجیکٹ بھی ایک سو پینتالیس ملین ڈالر سے شروع ہوا۔ پتہ چلا بیس ملین ڈالرز کا کمشن ہے تو معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا ۔ ستر ملین ڈالر چینی کمپنی کوایڈوانس ادا کیے گئے اور وہ لے کر وطن لوٹ گئی۔سنا ہے سیف سٹی اور دیگر پروجیکٹس سے کمایا گیا مال اب لندن کی ایجورڈ روڈ پر ہوٹل کی خرید میں کام آیا ہے۔ باچا خان اور ولی خان کے وارثوں کا خیبر پختون خوا میں دائو لگا تو چار ارب روپے کے اسلحہ کی خریداری میں ایک ارب روپے کا کمشن کھا گئے۔ دوبئی میں ڈالروں میں ادائیگی کی گئی۔ شاید باچا خان کو پتہ تھا اس کی نسلیں کیا ہاتھ دکھائیں گی‘ لہٰذا اس نے پشاور کی بجائے افغانستان میں دفن ہونا پسند کیا تھا ۔
اب امریکہ میں پاکستانی کی سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین کی آٹوبائیوگرافی'Power failure' نے پرانے زخم ہرے کر دیے ہیں ۔ عابدہ حسین نے نمک کا ایک پورا جگ لے کر زخموں پر انڈیل دیا ہے۔ 2000ء میں جب میں ڈان میں کام کررہا تھا تو میں نے ایک سکینڈل فائل کیا تھا۔ پاکستان نے اسّی کی دہائی میں امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی ڈیل کی اور ساڑھے پانچ سو ملین ڈالر ادا کیے۔ تاہم پریسلر ترمیم کی وجہ سے وہ طیارے روک دیے گئے کہ پاکستان ایٹم بم بنارہا تھا ۔ اب امریکی نہ طیارے دے رہے تھے اور نہ ہی پیسے۔ کلنٹن پاکستان آئے تو جنرل مشرف نے ایف سولہ طیاروں کی رقم کی واپسی کا معاملہ اٹھایا۔ یہاں سے ساری گیم شروع ہوئی۔ اس وقت کے
وزیرخزانہ شوکت عزیز نے جنرل مشرف کو بتائے بغیر امریکیوں کے ساتھ ایف سولہ طیاروں کے لیے پھنسی رقم کے بدلے گندم اور Edible oil لینے کا ایک نیا معاہدہ کیا تھا‘ حالانکہ نواز شریف یہ معاہدہ دسمبر 1998ء میں کر چکے تھے جس کے تحت امریکیوں نے ساڑھے تین سو ملین ڈالر کی نقد ادائیگی کرنی تھی جب کہ ڈیڑھ سو ملین ڈالر کا سویا بین دیا جانا تھا ۔ تاہم جنرل مشرف اور بل کلنٹن میں گفتگو کے بعد امریکہ نے اس تین لاکھ ٹن گندم کا بل بنا لیا جو وہ پاکستان کو اپنے ایک پروگرام PL480 کے تحت مفت فراہم کر چکے تھے۔ ساتھ ہی جس بحری جہاز پر وہ گندم بھیجی گئی تھی اس کا بل بھی مرضی سے بنالیا۔ اس وقت جہاز کا کرایہ 30 ڈالر فی ٹن تھا لیکن 80 ڈالر فی ٹن کا ریٹ لگا کر32 ملین ڈالر کاٹ لیے گئے۔ یوں کل 60 ملین ڈالر کے قریب پرانی گندم اور جہاز کے بل میں ایڈجسٹ کر لیے گئے اور شوکت عزیزاور عبدالستار نے خاموشی سے اس پر دستخط بھی کر دیے۔
جب میں نے یہ سکینڈل فائل کیا تو جنر ل مشرف نے ہنگامی اجلاس بلایا ۔ اس اجلاس میں شوکت عزیز اور وزیرخارجہ عبدالستار نے سارا ملبہ نوازشریف پر ڈال دیا جو ان دنوں اٹک قلعے میں قید تھے۔ جنرل مشرف کو بتایا گیا کہ یہ معاہدہ نواز شریف نے دسمبر 1998ء میں واشنگٹن کے دورے میں بل کلنٹن کے ساتھ کیا تھا ۔ حالانکہ نواز شریف کے معاہدے میں تین لاکھ ٹن گندم اور بحری جہاز کے کرائے کا ذکر نہیں تھا ۔
اب اس سکینڈل کی پوری کہانی عابدہ حسین نے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب وہ 1991ء میں امریکہ میں سفیر مقرر ہوئیں تو سفارت خانے کے ڈیفنس سیکشن کے سربراہ بریگیڈیئر ہارون نے ایف سولہ طیاروں کے جھگڑے پر بریفنگ دی۔ عابدہ حسین کو بتایا گیا کہ پاکستان دو سو ملین ڈالر ایڈوانس اور تین سو ملین ڈالر پہلی قسط کے طور پر ادا کر چکا تھا اور اگلی دو سو ملین ڈالر کی قسط ادا ہونے والی تھی۔ اگر ادائیگی نہ کی تو ہمارے ڈیڑھ سو ملین ڈالر جرمانے کے طور پر امریکی کمپنی کاٹ لے گی۔ عابدہ نے پوچھا کہ اگر اس کمپنی نے ہمیں جہاز فراہم نہ کیے تو اس پر کیا جرمانہ ہوگا کیونکہ ممکن ہے پاکستان کو پریسلر ترمیم سے چھوٹ نہ ملے۔
عابدہ حسین کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ معاہدے میں اس طرح کی کوئی شق نہیں ڈالی گئی تھی کہ اگر کمپنی نے ایف سولہ طیارے سپلائی نہ کیے تو اس پر کیا جرمانہ ہوگا؟ دوسرے لفظوں میں حکومت پاکستان نے یکطرفہ معاہدہ کیا تھا جس کا سارا فائدہ اس امریکی کمپنی کو ہورہا تھا اور یقینا جس پاکستانی نے یہ معاہدہ کیا تھا‘ اس نے خاصا لمبا مال اس ڈیل میں بنا لیا تھا۔
اس پر عابدہ حسین کا پارہ چڑھ گیا ۔ اکنامک منسٹر ارشد فاروق نے عابدہ حسین کو مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا تحقیقات نہ کی جائیں کیونکہ جنہوں نے وہ کمشن کھایا تھا وہ عابدہ حسین کا سیاسی کیریئر تباہ کر دیں گے۔ عابدہ حسین سوچ میں پڑ گئیں کیونکہ ارشد فاروق نے اس کے بھلے کی بات کی تھی اور یہ تمام افسران اس ڈیل کے وقت یہاں موجود نہیں تھے۔ عابدہ کا کہنا تھا کہ بہرحال اس بارے میں جاننا پاکستان کے قومی مفاد میں تھا۔ عابدہ حسین نے کارل فورڈ سے ملاقات کی جو محکمہ دفاع میں ڈپٹی سیکرٹری تھا۔ اس نے عابدہ حسین کو بتایا کہ یہ جہاز کوریا کوبیچنے کے بعد پاکستان کو پیسے ملیں گے لیکن اس میں سے ڈیڑھ سو ملین ڈالر کاٹ لیے جائیں گے۔ انتظامی اخراجات کی مد میں بھی کٹوتی ہوگی۔ اس پر عابدہ حسین نے پوچھا‘ وہ کیوں؟ تو کارل بولا‘ میڈم کیونکہ یہ رقم پاکستانیوں کی طرف سے انتظامی اخراجات کے نام پر ڈائون پے منٹ میں کاٹ لی گئی تھی۔ عابدہ حسین نے کہا‘ گویا آپ کہہ رہے ہیں جن پاکستانیوں نے وہ ڈیل کی تھی انہوں نے انتظامی اخراجات کی مد میں وہ رقم خود لے لی تھی؟ وہ ایسا کیوں کریں گے؟کارل بولا‘ امریکی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ پاکستان بھی امریکی کمپنی کے ساتھ معاہدے میں شق رکھتا کہ اگر اس نے جہاز فراہم نہ کیے تو اس پر بھی جرمانہ ہوگا جیسے اب پاکستان پر ہوگا۔ جو پاکستانی ڈیل کرنے آئے تھے انہوں نے خود ہی یہ شق اس معاہدے میں نہیں ڈلوائی تھی اور پاکستانیوں نے انتظامی اخراجات کے تیس ملین ڈالر خود ہی وصول کیے تھے اور اس کے بعد ہی انہوں نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
عابدہ حسین نے کھل کر پوچھا‘ تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جو پاکستانی معاہدہ کرنے آئے تھے انہوں نے اپنی ہی رقم میں سے تیس ملین ڈالر خود کمشن کے طور پر رکھ لیے تھے؟ اور اب امریکی کمپنی ڈیڑھ سو ملین ڈالر جرمانہ کے علاوہ وہ تیس ملین ڈالر کاٹ کر باقی پیسے واپس کرے گی؟
کارل مسکراتے ہوئے بولا‘ آپ درست کہہ رہی ہیں ۔
جب امریکی کمپنی کو پتہ چلا کہ پاکستان یہ ڈیل کینسل کر کے چھ سو ملین ڈالر واپس لینا چاہتا ہے تو کمپنی نے ایئر اتاشی شاہد اور عابدہ حسین کو جہاز بھیج کر ٹیکساس بلایا۔ عابدہ حسین اور شاہد کو ایک بورڈ روم میں لے جایا گیا جہاں اس کمپنی کے ٹاپ ایگزیکٹو بیٹھے تھے۔ ایک عابدہ حسین کی طرف مڑا اور بولا‘ اب کیا ہو سکتا ہے؟ عابدہ حسین نے جواب دیا‘ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وہ کمپنی کانگریس کو راضی نہیں کر سکی کہ وہ طیارے جن کی ادائیگی ہوچکی تھی پاکستان کے حوالے کیے جائیں، اس لیے پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ڈیل کو ختم کر دیا جائے اور پیسے واپس لیے جائیں۔
ایئراتاشی شاہد کے قریب بیٹھے کمپنی کے ایک اہلکار نے اچانک شاہد کو کہا‘ کیا خیال ہے وہ ایف سولہ کے کاک پٹ میں بیٹھنے کا لطف لینا پسند کرے گا ؟ شاہد نے عابدہ حسین کی طرف دیکھا تو انہوں نے سر ہلا کر اجازت دے دی۔ جیسے ہی شاہد کمرے سے باہر نکلا‘ کمپنی کا سربراہ عابدہ کی طرف مڑا اور بولا‘ اسلام آباد میں ہمارے ذرائع کہتے ہیں کہ عابدہ حسین کا وزیراعظم پر بہت اثرورسوخ ہے اور وہ انہیں اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ اس کے بدلے وہ عابدہ حسین کو واشنگٹن ڈی سی میں ایک خوبصورت گھر خرید کر دے سکتے ہیں جسے وہ کرائے پر چڑھا کر ہارورڈ میں زیرتعلیم اپنی دو بچیوں کی فیس ادا کرسکتی ہیں۔
یہ بات سن کر عابدہ کو ایک دھچکا لگا اور وہ سختی سے بولیں‘ ان کی بیٹیوں کو یونیورسٹی سے گرانٹ ملتی ہے اور وہ خود بھی فیس ادا کرسکتی ہیںاور ویسے بھی ان کی ضروریات مناسب ہیں۔ اس پر کمپنی کے سربراہ نے طنزیہ جملہ کسا ''خوشی ہوئی کہ پہلی بار کوئی پاکستانی ملا ہے جس کی ضروریات ''مناسب‘‘ ہیں۔ عابدہ لکھتی ہیں کہ اپنے تئیں اس نے اس کمپنی کے سربراہ کو جھاڑا تھا لیکن اس نے الٹا طعنہ دے کر گویا تھپڑ دے مارا۔
اب کہنے کو رہ گیا تھا۔ عابدہ میٹنگ روم سے نکل گئیں۔
اس قوم کے خون پسینے کی کمائی میں سے چند طاقتور لوگ ایف سولہ طیاروں کی ڈ یل میں لمبا مال بنا گئے۔وہ طیارے جو کبھی پاکستان کو ملے بھی نہیں۔ ہمارے شیروں نے کمشن بھی کھایا تو اپنی قوم کے پیسوں سے نہ کہ امریکی کمپنی سے!تین ارب روپے کا چونا بھی لگایا تو اپنے ہی ملک کو...! ماں صدقے...!