چند برس قبل چینی وزیراعظم نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک چینی کہاوت سنائی تھی ۔ اس کہاوت کا یہ مفہوم تھا ''گھر میں لگی ہوئی آگ دور کے پانی سے نہیںبجھائی جا سکتی‘‘۔
مارچ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی ٹی وی اور ریڈیو پر براہ راست پاکستانی قوم سے خطاب کر کے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ہم کیسے اپنے آپ کو نئی دنیا میں ڈھالیں اور یہ کہ ایک ذمہ دار قوم بن کر ابھرنا ہمارے ہی فائدے میں ہے۔ مگر ہم نے نہ سمجھنا تھا اور نہ ہی آج تک سمجھے۔ ہمارے نزدیک تو یا آپ ہمارے دوست ہیں یا پھر دشمن۔ صدر بش کی طرح درمیان میں ہمارے نزدیک کوئی جگہ نہیں اور یہی سوچ ہماری فارن پالیسی کا محور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بش ایسا کہنا افورڈ کر سکتا تھا‘ ہم نہیں کر سکتے۔
ہم نے فارن پالیسی کیسے چلائی؟ ہنری کسنجر نے امریکہ میں پاکستان کی سفیر عابدہ حسین کو بتایا تھا کہ انہوں نے کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی نہیں دی تھی‘ اس کا چرچا انہوں نے خود کیا تھا‘ انہوں نے تو بھٹو سے صرف یہ کہا تھا کہ اگر پاکستان نیوکلیئر بم بنانے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی ۔ اب عبرت ناک مثال بنانے اور مشکلات پیدا کرنے میں بہت فرق ہے‘ لیکن ہم کیوں اس فرق کو سمجھیں!
شاید چینی لیڈر پاکستان کو ایک پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ خطے میں اپنے ہمسائے بھارت سے دوستی کرنے کا سوچے‘ نہ کہ ہر بار ہزاروں میل دور بیٹھے امریکہ سے مدد مانگے۔ چین نے پاکستان کو یہ پیغام دینے سے قبل یہ کام خود کر کے دکھایا۔ تائیوان سے لے کر جاپان اور بھارت تک سے اپنے تعلقات میں بہتری پیدا کی۔ چین نے تائیوان پر قبضہ نہیں کیا کیونکہ اس کو علم ہے کہ اس سے اس کی امریکہ سے اربوں ڈالرز کی سالانہ تجارت کو نقصان ہوگا۔ کسی نے چین کو بے غیرتی کے طعنے نہیں دیے۔ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات کو بڑی حد تک حل کر لیا جو 1962ء کی جنگ کا سبب بنے تھے۔ اب ہم اسی چین سے کہتے ہیں کہ وہ ہماری خاطر بھارت اور امریکہ سے دشمنی مول لے اور اپنے تعلقات خراب کرے کیونکہ ہم اس کے دوست ہیں اور ہماری امریکہ اور بھارت سے نہیں بنتی۔
یقینا چینی ہنستے ہوں گے کہ ہم ان سے کیا چاہتے ہیں اور شاید اسی تناظر میں چینی لیڈر نے وہ قول ہماری پارلیمنٹ کو سنایا تھا کہ ممکن ہے ہمیں کچھ عقل آجائے لیکن ساون کے اندھوں کا آپ کیا بگاڑ سکتے ہیں ۔
ایک اور سن لیں۔ صدر نکسن کی ہدایت پر ہنری کسنجر نے چین کے سفیر کو بلا کر کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ ایک محاذ کھولیں تاکہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج پر دبائو کم ہو۔ اتنی دیر میں وہ اپنا بحری بیڑا روانہ کررہے ہیں۔ چینی سفیر نے جواب تک نہ دیا کیونکہ چین کو خطرہ تھا کہ اس صورت میں روس اس کے ساتھ محاذ کھولنے کوتیار ہوگا۔ چین نے پاکستان کی خاطر بھارت اور روس سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لیا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ پاکستان چند ماہ تک جنگ تو لڑے گا اور اس دوران بحری بیڑا پہنچ جائے گا۔ چند دن بعد پتہ چلا کہ بحری بیڑے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ آج تک امریکیوں کو طعنے ملتے ہیں کہ ان کا بحری بیڑا کیوں نہ پہنچ سکا ۔ امریکی حیران ہوتے ہیں کہ بحری بیڑے کے پہنچنے سے پہلے تو پاکستان ہتھیار ڈال چکا تھا۔ بحری بیڑا کوئی ایف سولہ طیارہ تو تھا نہیں کہ چند گھنٹوں میں اڑ کر پہنچ جاتا۔ مگر ہم آج تک ناراض ہیں۔
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوچکا ہے کہ ہم جیسے ذاتی دوستی میں ایک دوسرے سے توقعات کے پہاڑ کھڑے کرلیتے ہیں اور دوستوں سے توقعات پوری نہ ہونے پر ناراض ہوجاتے ہیں، ایسے ہی ملکوں کے ساتھ دوستی میں چاہتے ہیں۔ ایک ٹی وی شو میں ایک صاحب نے فرمایا ''فارن پالیسی عزت اور غیرت کا معاملہ ہے‘‘۔ میں نے حیران ہوکر کہا‘ دنیا کے کتنے ممالک اس نظریے پر چلتے ہوں گے۔ اس طرح تو کوئی بھی ملک دوسرے سے تعلقات نہیں رکھ سکتا۔ پھر تو چین، بھارت، برطانیہ، جرمنی، فرانس میں غیرت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے جو امریکہ کے کہنے پر چلتے ہیں ۔ یہ ممالک بے غیرت یا کمزور ہرگز نہیں بلکہ سمجھدار ہیں۔ انہیںپتہ ہے کہ زیادہ فائدہ کس بات میں ہے۔ اگر بھارتی وزیراعظم مودی کو روایت کے برعکس ایئرپورٹ پر جا کر امریکی صدر کا استقبال کرنا پڑے تو وہ کرتا ہے۔ مودی کو اپنے فائدے سے غرض ہے‘ نہ کہ کسی کے مذاق اڑانے سے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین امریکہ سے نہیں دبتا۔ چین نے پاکستان کو ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پانچ سو ملین ڈالرز کا قرضہ دینا تھا ۔ امریکہ نے پیغام بھیجا کہ قرضہ نہیں دینا کیونکہ امریکہ اس پائپ لائن کے خلاف ہے۔ چین نے اگلے روز اسلام آباد کوبتادیا کہ ہم امریکہ کو انکار نہیں کر سکتے۔ امریکہ نے بھارت کو پیغام بھیجا کہ ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے سے نکل جائو۔ بھارت سمجھدار نکلا۔ اس نے کہا کہ پھر ہماری انرجی کی ضروریات کا کیا بنے گا ۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر لیا۔ آپ اور میں اسے بے غیرتی کہیں گے‘ لیکن دنیا اسے سمجھداری کہتی ہے۔ امریکہ سے تعلقات بھی بچا لیے اور سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی لے لی ۔
امریکہ نے عراق پر حملہ کرنا تھا تو اس نے برطانیہ اور یورپی ملکوں کو کہا کہ اس جنگ میں شمولیت اختیار کرو۔ تیس لاکھ یورپین نے مظاہرے کیے۔ ملین مارچ ہوئے لیکن ان کی حکومتیں ٹس سے مس نہ ہوئیں کیونکہ انہیں علم تھا کہ معاملہ غیرت بے غیرتی کا نہیں بلکہ وہ ممالک امریکہ سے دوری افورڈ نہیں کر سکتے‘ حالانکہ برطانیہ، جرمنی کو یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اگر عراق وار میں فوجیں نہ بھیجیں تو امریکہ جاپان کی طرح ان پر ایٹم بم ماردے گا۔ فرانس نے اس جنگ میں شمولیت سے انکار کیا لیکن بعد میں امریکہ کے قدموں میں بیٹھ کر معافی مانگی ۔ جاپان اور جرمنی میں آج بھی امریکی اڈے موجود ہیں۔ عرب ممالک میں بھی اڈے ہیں۔ وہاں کوئی انہیں بے غیرت نہیں کہتا ۔ سب سمجھتے ہیں کہ طاقتور کے ساتھ دوستی کر کے ہی کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے نہ کہ پنگا لے کر‘ جس میں ہم کمال رکھتے ہیں ۔
آج جب اوباما بھارت میں ہیں اور ہمارے ہاں مسلسل سیاپا ہورہا ہے کہ وہ یہاں کیوں نہیں آیا تو کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم نے امریکہ سے وہ فوائد کیوں نہیں اٹھائے جو آج بھارت، چین یا خطے کے دیگر ملک اٹھارہے ہیں ۔ عابدہ حسین کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے لوگوں کو بتارہے تھے کہ افغانستان کی جنگ ہماری جنگ تھی اور اگر نہ کرتے تو روس ہمارے ملک پر قبضہ کر لیتا۔ جب کہ عابدہ حسین کے مطابق انہیں امریکہ تعینات ہونے سے قبل فارن آفس نے جو بریفنگ دی تھی اس کابنیادی نکتہ ایک ہی تھا کہ ہم نے امریکہ کی جنگ لڑی تھی اور اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں‘ لہٰذا اب ان کی ہر بات اور ہر کام پر امریکہ اپنا سر ہلاتا رہے‘ وگرنہ ہم اس پر بے وفائی کا الزام لگائیں گے۔ جب بھی عابدہ حسین امریکی لیڈروں سے ملتیں تو وہ یہی کہانی دہراتیں کہ ہم نے آپ کے لیے افغانستان کی جنگ میں کیسی کیسی قربانیاں دی تھیں ۔ امریکی ہنستے کہ جناب اس جنگ کے بدلے ہم نے آپ کو اسلحہ دیا تھا‘ ڈالروں کی بوریاں دی تھیں۔ پھر وقت بدل گیا تو امریکی ترجیحات بھی بدل گئیں۔ اگر پاکستان مزید امداد اور امریکی دوستی کا خواہاں ہے تو پھر اسے خود کو امریکہ کی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ہوگا جیسے امریکیوں نے جنرل ضیاء کے مطالبے کے بعد اپنے آپ کو ڈھالا تھا‘ جب جنرل نے فرمایا تھا کہ تین سو ملین ڈالرز کی امداد تو بہت کم ہے۔ ہمیں مزید نوٹ دکھائو تاکہ ہمارا موڈ بنے۔ امریکی سمجھ چکے ہیں کہ اس قوم کو نوٹ دکھائو تو ان کا موڈ بن جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت نے تین جنگیں لڑیں لیکن اس طرح کی نسل کشی نہیں کی جیسے یورپ میں کی گئی ۔ یورپ میں نپولین سے لے کر جنگ عظیم اول اور دوم میں کڑوروں لوگ مارے گئے۔ ایک دوسرے کی نسلوں تک کو ختم کیا گیا ۔ پاکستان اور بھارت کی دشمنی برطانیہ اور جرمنی یا جرمنی اور فرانس کی دشمنی سے زیادہ نہیں مگر ان ملکوں نے نئی نسل کو اپنے ماضی کا غلام نہیں بنایا۔ جاپانی ایٹم بم کو لے کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ اسی امریکہ کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کیا۔
پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کا بہتر ہونا ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ بھارت سے لڑنے کے لیے جو ہم نے امریکہ کے ساتھ کمپرو مائز کر رکھے ہیں‘ اس سے بہتر ہے کہ بھارت سے براہ راست تعلقات بہتر کر کے مسائل حل کر لیے جائیں اور سب سے پہلے دونوں ممالک پراکسی جنگوں کے ذریعے ایک دوسرے کے بے گناہ شہری مارنا بند کریں۔ پاکستانیوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دنیا ہمیشہ سے طاقت ور کی ہے۔ جس دن آپ طاقتور ہوجائیں گے‘ اس دن آپ بھی اپنی شرائط پر دنیا کو چلا لیجیے گا۔ تب تک چینی قیادت کے اس قیمتی مشورے پر غورکریں کہ
"A distant water supply is no good in putting out a nearby fire".