گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو پیٹھ میں خنجر کھا کر آنسو بہاتے دیکھ کر بہت کچھ یاد آگیا ۔
سابق وزیراعظم گیلانی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ جب جنرل ضیا کو محسوس ہوا کہ وزیراعلیٰ نواز شریف کچھ پر پرزے نکال رہے ہیں تو انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا۔ گیلانی جونیجو کی کابینہ میں وزیر تھے۔ انہیں پیر پگاڑا نے اپنے مرشد جنرل ضیا کی خوشنودی کے لیے لاہور بھیجا کہ وہ وہاں جا کر ایم پی ایز کو ساتھ ملائیں اور نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔ گیلانی دوڑے دوڑے گئے۔ ایم پی ایز اکٹھے کر لیے تو پتہ چلا کہ نواز شریف نے جنرل ضیا سے ملاقات کر کے معافی تلافی کر لی اور پلان ختم ہوگیا تھا۔ جب گیلانی نے اس کا گلہ کیا تو پیرپگاڑا بولے‘ بیٹا ہم نے آپ کو استعمال کیا تھا۔ مقصد نواز شریف کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانا نہیں بلکہ ایک پیغام بھیجنا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ جنرل ضیا کی وجہ سے ہیں اور وہ کام ہوگیا تھا ۔ گیلانی نے پوچھا‘ پیرسائیں پاکستانی سیاستدان کب اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کو استعمال کرے اور انہیں پتہ بھی نہ چلنے دے... تو پیرپگاڑا نے کہا‘ بچہ‘ یہ فن سیکھنے کے لیے بیس برس لگتے ہیں ۔
آپ بھی کہیں گے کہ میں نے عابدہ حسین کی کتاب کو سر پر ہی سوار کر لیا ہے‘ لیکن کیا کریں‘ ہماری حالیہ تاریخ پر اگر کوئی کتاب لکھی گئی ہے تو وہ عابدہ حسین ہی کی کتاب ہے۔عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے لگی تھی تو عابدہ حسین کی ماں نے سختی سے بیٹی کو منع کیا تھا کہ تم بھٹو خاندان کے خلاف سازشوں کا حصہ نہ بنو مگر سیاست کی اپنی مجبوریاں تھیں جو ان کی ماں نہیں سمجھ سکتی تھیں‘ لہٰذا عابدہ حسین کو بھی اس قافلے کے ساتھ مری میں کچھ دن رہنا پڑگیا تھا جس نے بینظیر بھٹو کے خلاف ووٹ دینے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نواز شریف کا ان پر اعتماد بڑھتا گیا۔ شاید نواز شریف نے عابدہ حسین کو مستقبل میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔
بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں فاروق لغاری نے جب شاہد حامد کو اپنا ایڈوائزر لگایا تھا تو ان کا کچھ کرنے کا دل کررہا تھا۔ لغاری صاحب کے پرنسپل سیکرٹری شمشیر خان اور ایڈوائزر شاہد حامد بھی بے تاب تھے۔ سازش تیار ہونا شروع ہوگئی اور اسلام آباد میں عابدہ حسین کا گھر اس کا گڑھ بن گیا تھا۔ نواز شریف بینظیر بھٹو سے بدلہ لینے کے لیے پر تول رہے تھے اور لغاری بھی اس سوچ کے حامی تھے۔ فیصلہ ہوا کہ لغاری اور نواز شریف کی ملاقات ہو تاکہ راستہ ہموار کیا جائے۔ جب اس کی خبر فاروق لغاری کی بیگم نسرین تک پہنچی تو انہیں یہ منصوبہ پسند نہ آیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا خاوند غلط کررہا ہے۔ بیگم لغاری کے خیال میں بینظیر بھٹو نے فاروق لغاری کو وفاداری کا صلہ دیا تھا اور صدر بنوایا تھا۔ اب اسے بینظیر کے مخالفوں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونا چاہیے؛ تاہم سازشیوں کی مدد سے اپوزیشن لیڈر نواز شریف اور لغاری کے درمیان آخر ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات کے بعد ایک دن عابدہ حسین کو چوہدری نثار علی خان نے فون کیا کہ میاں محمد شریف ان سے مری میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ستمبر کی بات ہے ۔ عابدہ حسین کو تجسس ہوا کہ ابا جی کیوں ان سے ملنا چاہتے تھے۔ چوہدری نثار نے عابدہ حسین کو گاڑی میں ساتھ لیا اور مری لے گئے۔ جب عابدہ گاڑی میں بیٹھیں تو انہیں حیرانی ہوئی کہ چوہدری نثار کے ساتھ صدر لغاری کے ایڈوائزر شاہد حامد بھی تھے۔ کسی نے عابدہ کو نہیں بتایا کہ شاہد حامد مری کیا کرنے جا ر ہے تھے۔
سازش پک رہی تھی۔
عابدہ حسین نے مری کے سفر کے دوران وہ واقعات سنائے کہ کیسے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوشش کی گئی تھی اور اس کا کیا بنا تھا؛ تاہم چوہدری نثار علی خان مسلسل شاہد حامد کے کان میں یہ بات ڈال رہے تھے کہ اب کی دفعہ عدم اعتماد والا کوئی سین نہیں ہوگا ۔ لغاری کو اسمبلیاں توڑنی ہوں گی۔ یہ سن کر شاہد حامد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی‘ لیکن وہ کہتے کہ اس معاملے پر وہ کوئی وعدہ نہیں کر سکتا۔
جب وہ ایک بڑے گھر کے لان میں پہنچے تو وہاں ایک چھوٹے قد اور بڑی عمر کا شخص کھڑا تھا۔ وہ میاں محمد شریف ہی ہو سکتے تھے۔ میاں صاحب عابدہ حسین کو گھر کے اندر لے گئے اور بولے کہ آج کتنا خوش قسمت دن ہے کہ کرنل عابد حسین کی بیٹی ہمارے گھر برکت بن کر آئی ہے۔ اسی دوران نواز شریف اور شہباز شریف بھی نمودار ہوئے۔ میاں صاحب سب کے سامنے بتانے لگے کہ کرنل عابد سے کیسے ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ کہنے لگے کہ 1954ء میں ایک خوبصورت نوجوان ان کی چھوٹی سی فائونڈری پر آیا ۔ وہ اس وقت وزیرتھا ۔ اس نے کہا کہ اس نے شاہ جیونہ میں ٹیوب ویل لگوانا ہے۔ پھر وہ میاں صاحب کو اپنے ساتھ شاہ جیونہ لے گئے تاکہ وہاں ٹیوب ویل لگوا سکیں۔ میاں شریف صاحب نے اپنی نگرانی میں ٹیوب ویل ان کی زمینوں پر لگوایا تھا۔ اگلے سال کرنل عابد حسین ایک اور زمیندار سردار محمد خان لغاری کے ساتھ میاں شریف کی فائونڈری پر آئے۔ انہوں نے میاں شریف صاحب سے کہا کہ اب سردار لغاری کی زمینوں پر ٹیوب ویل لگانا ہے ۔
عابدہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ساری کہانی انہیں سنائی جارہی ہے۔ آخر میاں شریف بولے کہ کرنل عابد اور سردار لغاری سگے بھائیوں کی طرح تھے۔ اس لیے موجودہ صدر پاکستان فاروق لغاری عابدہ حسین کو اپنی سگی بہنوں کی طرح سمجھتا ہوگا اور وہ اگر اسے کوئی کام کہے گی تو وہ کبھی ناں نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر میاں شریف نے عابدہ حسین کو کہا کہ وہ لغاری کو کہے کہ وہ ان کے دونوں بیٹوں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف دل میں اگر کوئی غصہ یا ناراضگی رکھتے ہیں تو اسے ختم کردیں اور میاں شریف جو خدا سے ڈرتا ہے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ سب ساری عمر فاروق لغاری کے احسان مند رہیں گے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ میاں شریف نے اس عاجزانہ انداز میں ان سے یہ درخواست کی کہ وہ فوراً مان گئیں کہ وہ فاروق لغاری سے بات کریں گی۔ فاروق لغاری بھی میاں شریف سے متاثر ہو چکے تھے‘ اس لیے جب مری کی ملاقات کے بعد عابدہ حسین کی لغاری سے ملاقات ہوئی تو وہ یہ کھیل کھیلنے کو پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ پھر عابدہ حسین کے گھر پر چوہدری نثار علی خان کی شاہد حامد اور شمشیر خان سے خفیہ ملاقاتیں زیادہ ہونے لگی تھیں۔ نثار علی خان نے ایسی ایسی تجویزیں دیں کہ شہباز شریف بھی حیران رہ گئے۔ نومبر کے پہلے دنوں کی بات ہے‘ چوہدری نثار اور شہباز شریف عابدہ حسین کے گھر گئے اور کہا کہ اب لغاری کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہا کہ وہ اسمبلیاں توڑ دیں۔ اس دوران شاہد حامد نے عابدہ سے رابطہ کر کے بتایا کہ لغاری نے اسمبلیاں توڑنے کے حکم پر دستخط کر دیے ہیں اور ملک معراج خالد نگران وزیراعظم ہوں گے۔
الیکشن ہوگئے تھے۔ نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تھی۔ عابدہ حسین اور فخرامام نواز شریف کو مبارکباد دینے گئے۔ باتوں باتوں میں عابدہ حسین نے کہا‘ بہتر ہوگا کہ نواز شریف اچھے لوگوں کو وزیر بناتے وقت فاروق لغاری سے بھی مشورہ کر لیں جو ان سب کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے اور حکومتی معاملات کو بہتر جانتے تھے۔ جونہی عابدہ نے بات ختم کی، نواز شریف کے چہرے پر سخت ناپسندیدگی کے تاثرات ابھرے‘ جسے فخرامام اور عابدہ دونوں نے حیرانی سے محسوس کیا کہ وہ فاروق لغاری کے نام پر بدک کیوں گئے تھے۔ صرف تین ماہ پہلے تو میاں شریف نے اپنے دونوں بیٹوں کی موجودگی میں مری میں کہا تھا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان لغاری کا ہمیشہ کے لیے احسان مند رہے گا اور اب ان کا نام سن کر ہی نواز شریف بدک گئے! اس کے بعد نواز شریف نے لغاری کے ساتھ جو کچھ کیا‘ اس کا سب کو علم ہے۔ اس وقت ابھی ابا جی بھی زندہ تھے۔ بعد میں جو کچھ لغاری اور عابدہ کے ساتھ ہوا وہ اپنی جگہ ایک کہانی ہے۔ آپ چاہیں گے تو وہ بھی کہانی سنا دیں گے۔
ویسے ایوان صدر میں بیٹھے لغاری، ان کے ایڈوائزر شاہد حامد، شمشیر خان، عابدہ حسین اور سیاست پر عبور رکھنے والے دیگر تمام لوگوں سے زیادہ لغاری کی بیگم نسرین مردم شناس اور سمجھدار نکلی تھیں ۔ ایوان صدر کی غلام گردشوں میں وہ واحد خاتون تھیں جو لغاری کے اپنی محسن بینظیر بھٹو کو چھوڑ کر نواز شریف کو جوائن کرنے کے خلاف تھیں۔چلیے‘ ایوان صدر میں جب سازشیں اپنے عروج پر تھیں، بیگم نسرین لغاری جیساکوئی تو سمجھدار تھا جسے پتہ تھا کہ لغاری کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔
یہ الگ کہانی ہے کہ فاروق لغاری جیسا پڑھا لکھا سیاستدان بھی ایک عورت کے اندر خطرات بھاپننے کی صدیوں سے موجود غیرمعمولی چھٹی حس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا، جس کی لغاری اور بینظیر بھٹو سمیت سب نے بھاری قیمت ادا کی تھی!