حیرانی ہوتی ہے کیسے عقل اور دانش سے بھرپور حکمران ہمیں عطا فرمائے گئے ہیں۔ جب سے وہ سب کچھ دیکھا ہے حیران ہوں یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اور ان کی عقل کی حد کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوجاتی ہے۔
یہ لاہور میں نئے کمانڈوز کی پاسنگ آئوٹ تقریب کا منظر ہے جہاں آرمی چیف سے لے کر وزیراعظم، وزیراعلیٰ، افسران اور کالم نگاروں اور صحافیوں کو بلایا گیا تھا۔ اس کے بعد پوری قوم کو براہ راست دکھایا گیا کہ ہمارے کمانڈوز کو کیا کیا تربیت دی گئی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ کون سے روپ اور بہروپ ہوں گے جنہیں دھار کر یہ نوجوان کمانڈوز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ ان بہروپوں میں ریڑھی بان سے لے کر تیسری جنس اور بھکاری تک کے روپ شامل تھے۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو کچھ کالم نگار دوستوں نے پوری تفصیل لکھ دی کہ پاکستانی کمانڈوز یا دیگر اہلکار کس انداز میں جاسوسی کریں گے۔
کیا سب کی عقل گھاس چرنے چلی گئی۔ جاسوسی کی دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ کوئی ایجنسی اپنے سارے کرتب اور طریقے کھول کر رکھ دے کہ وہ کیسے جاسوسی کرتے ہیں اور کس طرح مجرموں تک پہنچیں گے؟
اگر یہ سب کچھ آپ نے دہشت گردوں کو پہلے سے بتانا ہے کہ آپ ان کو کیسے پکڑیں گے تو پھر اس سارے ڈرامے کی کیا ضرورت ہے جو وار ان ٹیرر کے نام پر چل رہی ہے۔ ہم اب تک امریکیوں کو پولیو ورکرز کی ہلاکتوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسامہ کو ڈھونڈنے کے لیے پولیو مہم شروع کی۔ آج تک درجنوں جانیں اس وجہ سے چلی گئی ہیں کہ دہشت گرد ان کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب کیا دہشت گردوں کو نیا ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ وہ ریڑھی بان، تیسری جنس اور بھکاریوں کو جہاں دیکھیں انہیں پولیو ورکرز کی طرح گولیاں مارتے چلے جائیں ۔ اگر آپ نے سب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ یہ تین لوگ جاسوس ہیں جو ہر محلے اور علاقے میں ہوتے ہیں تو پھر اس جاسوسی کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ہماری ایسی حماقتوں کی داستان خاصی طویل ہے!
یہ کام اس وقت شروع ہوا جب سری لنکا ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا۔ لاہور کے ایک سابق گورنر ٹی وی پر نمودار ہوئے اور پریس سے بات چیت شروع کی۔ اُس وقت دہشت گردوں کو لاہور کی گلیوں میں تلاش کیا جارہا تھا۔ کسی میرے جیسے عقل مند صحافی نے سوال داغ دیا اب سری لنکا ٹیم کی حفاظت کا کیا بندوبست کیا گیا ہے؟ گورنر نے فوراً جواب دیا ابھی ہم نے ہیلی کاپٹر منگوایا ہے جو انہیں قذافی سٹیڈیم سے ایئرپورٹ لے جائے گا۔ ٹی وی پر یہ سن کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ ابھی دہشت گردوں کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ اگر کس کے پاس ہیلی کاپٹر کو اڑانے کے لیے کوئی اسلحہ ہوا تو کیا ہوگا؟ سکیورٹی کے معاملات راز رکھے جاتے ہیں۔ انہیں عوام اور میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا۔
چلیں گورنر سیاسی آدمی تھے انہیں سکیورٹی کے امور کا علم نہ تھا۔ آپ جنرل مشرف کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے اپنی کتاب میں پوری تفصیل سے لکھا کہ جنرل کیانی جو ڈی جی آئی ایس آئی تھے انہوں نے کیسے ایک فون سم کی مدد سے ان پر حملہ کرنے والوں کو ٹریس کیا تھا ۔ ویسے جنرل کیانی اس سم کو ڈھونڈنے کی وجہ سے ہی جنرل مشرف کے نزدیک آرمی چیف کے عہدہ کے لیے پسندیدہ ٹھہرے۔ شاید جنرل مشرف لکھنا نہیں چاہتے تھے یہ ٹیکنالوجی دراصل امریکیوں نے آئی ایس آئی کو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد دی تھی بلکہ استعمال کر کے بعض لوگوں کے گھروں سے القاعدہ کے دہشت گردوں کو ٹریس کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
اگر آپ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے تو پھر اس کا چرچا کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ آپ فون سم کے ذریعے کسی بھی آدمی تک پہنچ سکتے تھے۔ اس کے بعد ایک دوڑ لگ گئی۔ ٹی وی پر نمودار ہو کر ہر پولیس افسر ایک گھنٹے تک تفصیل سے بتانا شروع ہوگیاکہ اس کی ٹیم نے کیسے کیسے کن طریقوں سے ملزموں کو ٹریس کیا تھا۔ یوں دہشت گردوں کو سب معلوم ہوتا چلا گیا کہ ان سے کہاں غلطیاں ہوتی تھیں جس وجہ سے وہ ٹریس ہوتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے پرانے فون نمبروں اور موبائل فونز سے جان چھڑائی۔ اس کے بعد انہوں نے نئی سمیں لے لیں جنہیں وہ دہشت گردی کے وقت ہی استعمال کرتے تھے۔ تیسرا‘ وہ موبائل فونز بھی جائے وقوعہ پر چھوڑ جاتے کہ جو کرنا ہے کر لو۔
اب آخری کسر رہ گئی تھی جو شہباز شریف نے پوری کر دی کہ دہشت گردوں کو بتا دیا کہ جناب ہوشیار رہنا کہ ہم نے یہ طریقے دریافت کر لیے ہیں کہ آپ کو ہم نے کیسے ڈھونڈنا ہے۔ اگر ملزم پکڑے گئے تو ان کا اپنا قصور ہوگا کیونکہ ہم نے تو آپ کو وقت پر خبردار کر دیا تھا۔
دوسری طرف دیکھیں دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی ہے اور جاسوسی کرنے کے کیا نئے نئے ذرائع تلاش کر لیے ہیں۔ عابدہ حسین اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ جب نواز شریف کی دوسری حکومت بنی تو انہیں گندم کی قلت کا سامنا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا
کریں۔ ایک امریکی ڈپلومیٹ ملنے آیا تو اس نے مشورہ دیا کہ پریشان نہ ہوں آپ عالمی فوڈ کے پاکستان میں مرکز سے تین لاکھ ٹن گندم ادھار لے لیں‘ نئی فصل آنے پر لوٹا دینا۔ عابدہ حسین بڑی خوش ہوئیں کہ یہ بات ان کے ذہن میں کیوں نہیں آئی۔ اب عابدہ حسین کو پتہ نہیں تھا کہ پاکستان میں گندم کی نئی فصل کب برداشت ہوگی۔ امریکی نے کہا کہ یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا۔ عابدہ حسین سے کہا کہ بتائیں پاکستان کے کس حصے کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ گندم کی فصل کب تیار ہوگی۔ عابدہ حسین نے اُسے جھنگ میں اپنے فارم ہائوس کی تفصیلات بتائیں۔ امریکی نے تفصیلات لیپ ٹاپ میں ڈالیں اور چند لمحوں کے بعد عابدہ حسین کا جھنگ فارم اس کی نظروں کے سامنے لیپ ٹاپ پر موجود تھا گندم کی فصل سکرین پر پھیل گئی۔ اس نے زوم ان کر کے عابدہ حسین کو اُن کے کھیت کا ایک ایک کونہ دکھایا کہ دانا کتنا پک گیا تھا اور کب تیار ہوگا۔ اس نے عابدہ حسین کو تاریخ تک بتا دی کہ پنجاب میں گندم کب تک مارکیٹ میں آسکتی تھی اور کہا کہ اب ان تفصیلات کے مطابق نئی گندم پالیسی بنالیں۔ عابدہ لکھتی ہیں وہ حیرانی سے سب کچھ دیکھتی رہیں۔ عابدہ حسین کے بقول انہوں نے لیپ ٹاپ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔
یہ بات 1998ء کے اوائل کی ہے آج اس واقعہ کو سترہ برس گزر گئے ہیں اور ہم سترہ برس بعد صحافیوں کو بلا کر دہشت گردوں کو ڈھونڈنے کے روایتی بہروپ دکھا رہے ہیں کہ ہم کیسے تلاش کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ان طریقوں سے تلاش کر لیں کیونکہ انسانی جاسوسی بہتر سمجھی جاتی ہے لیکن اگر آپ نے سب کچھ پہلے سے بتا دینا ہے تو پھر ان باتوں کا کیا فائدہ ۔
کاش کہ تقریب میں موجود کچھ لوگ جرأت کرتے اور گستاخی کر کے ان سے پوچھ لیتے آپ نے یہ سب کچھ قوم کو لایئو دکھا کر کیا حاصل کیا ہے۔ دنیا بھر میں پاسنگ آئوٹ کی تقریب بڑی پروفیشنل ہوتی ہے۔ اس میں کچھ کرتب یقینا دکھائے جاتے ہیں۔ کمانڈوز کی کارگردگی دکھائی جاتی ہے لیکن جاسوسی کی تربیت ہم نے پہلی دفعہ ٹی وی سکرنیوں پر دیکھی ہے۔ اگر کالم نگار اور صحافی دوست ناراض نہ ہوں تو وہ سیاسی خبریں ضرور ڈھونڈیں لیکن ساتھ میں دیکھیں کہ جن سیاستدانوں سے وہ سیاسی خبریں نکلوا رہے ہیں ان سے جرأت کر کے یہ پوچھ لینا بھی گناہ نہیں ہے کہ وہ یہ سب کچھ کسے دکھا رہے ہیں اور اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ ویسے تو چغل خور یہ بھی کہتے ہیں کہ دراصل نئے کمانڈوز شاہی خاندان کی حفاظت کے لیے تیار کیے گئے ہیں اور بہت جلد ان کی ڈیوٹیاں شہریوں کی بجائے شاہی خاندان کو بچانے پر لگائی جائیں گی ، جہاں پہلے ہی ایک ہزار سے زیادہ ایلیٹ فورس تعینات ہے۔
سینئر دوست عارف نظامی کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے کالم میں گورنر‘ جنوبی پنجاب سے لینے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ نیا گورنر لاہور سے ہی ہونا چاہیے کیونکہ لاہور میں ہی سارے ذہین لوگ رہتے ہیں۔ اربوں روپے کے فنڈز سے لے کر اہم عہدے چاہے وہ جج ہوں، بیوروکریٹ یا پھر گورنر کے عہدے سب کچھ انہی کے لیے ہے۔ جنوبی پنجاب کا کیا ہے، وہاں سے وزیراعظم ، صدر اور گورنر بھی بنے لیکن پھر بھی پس ماندہ رہا کیونکہ لاہوری بیوروکریسی نے اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے رکھی۔ جنوبی پنجاب میں ہر کام کے لیے اعتراض اور لاہور میں راتوں رات اربوں روپے کے منصوبے مکمل!
جنوبی پنجاب گورنر سے پہلے بھی پسماندہ تھا۔ اگر جنوبی پنجاب سے لگ بھی گیا تو بھی پسماندہ رہے گا۔ پسماندہ لوگوں کے لیڈرز بھی پسماندہ ہوتے ہیں؛ لہٰذا میرا ووٹ لاہور کے رہائشی گورنر کے ہی حق میں ہے اور اگر ہوسکے تو گوالمنڈی یا جاتی امرا سے ہی کسی کو بننا چاہیے!