جب قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان اور دیگران کی طویل تقریریں سنتا ہوں‘ جن میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیسے حملہ آور کی انگلی، سر یا ٹانگ تلاش کر لی ہے تو مجھے اپنے نالائق ہونے کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔
کبھی سوچتا ہوں کہ میں کیوں پاکستان سے باہر جاتا ہوں ۔ کیوں میں وہاں ایسی چیزیں دیکھتا ہوں جو ہمارے ہاں ہو سکتی ہیں اور ان کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت بھی نہیں۔ ایک دن ایک دوست کو کہا کہ اگر مجھے اپنا گھر چلانے کے لیے ماہانہ تنخواہ کی ضرورت نہ ہوتی تو میں اسلام آباد کے میئر کا الیکشن لڑتا اور اس شہر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا۔ سی ڈی اے کے ستائیس ہزار ملازمین نے اس شہر کا بیڑا غرق کر دیا ہے کیونکہ ان کا باس ان سے کام نہیں لے پارہا اور آج یہ شہر دم توڑ رہا ہے۔ سی ڈی اے کے ایک افسر سے مذاق میں اسلام آباد شہر کا میئر بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ ہنس پڑا اور کہا‘ بھولے بادشاہو یہاں کون میئر کا نظام لانے دے گا۔ وہ ہم بیوروکریٹس کے ذریعے ہی ملک کو چلائیں گے۔ انہیں عوام سے زیادہ بیوروکریٹس پر اعتبار ہے جو ان کے کہنے پر اربوں روپے کے فراڈ میں ان کا ساتھ دیتے ہیں بلکہ طریقے بھی ڈھونڈ کر دیتے ہیں۔ وہ کیوں اس شہر کو میئر کے حوالے کریں گے؟ اور اگر ایسا ہوبھی گیا تو سی ڈی اے کی یونین کسی کو نہیں چلنے دے گی۔ آپ کسی اہلکار کو اس کی نالائقی کی وجہ سے معطل تک نہیں کر سکتے کیونکہ اگلے روز سی ڈی اے کی یونین ہڑتال اور مظاہرے شروع کر دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ سب پلاٹ لینا چاہتے ہیں۔ اب بتائیں دنیا کے کس شہر کی سوک باڈی کے ستائیس ہزار ملازمین ہوں گے‘ ایسے ملازمین جو کام بھی نہیں کرتے اور اگر کہا جائے کہ کرو تو ہڑتال کر دیتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ستائیس ہزار ملازم بھی اسلام آباد جیسے چھوٹے اور منظم شہر کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے اور شہر تباہ ہوگیا ہے۔
آخر ہمیں ہوا کیا ہے کہ ہر شے زوال کی طرف جارہی ہے۔ جس چیز کو ہاتھ لگائو‘ لگتا ہے گل سڑ گئی ہے۔ ہر شے کا معیار بہتر ہونے کی بجائے کمتر ہوگیا ہے۔ کوئی ادارہ ہو، محکمہ ہو، گورننس ہو، انسان ہوں، بیوروکریٹس ہوں، سب کچھ زوال پزیر ہے۔ لگتا ہے سب کچھ ختم ہورہا ہے۔ تاہم حکمرانوں کے کاروبار ترقی کررہے ہیں۔ ہر سال وہ منافع کما رہے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیرخزانہ کے اپنے اثاثے ایک سال میں کروڑوں میں بڑھ گئے ہیں جب کہ حکومتی ادارے سب گھاٹے میں جارہے ہیں۔ جیسے افراد یہ حکومتی عہدوں پر لگاتے ہیں‘ ویسے کبھی اپنے فارم ہائوس یا فیکٹری میں نہیں لگائیں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ وہ نہ صرف فارم ہائوس اور فیکٹری کو لوٹ کر کھا جائیں گے بلکہ اسے دیوالیہ کر کے چھوڑیں گے۔ جو دنیا جہان کا نکما اور ناکارہ بندہ ہوتا ہے اسے بڑے سے بڑا عہدہ ملتا ہے۔ میرٹ صرف یہ ہے کہ بندہ اپنا ہونا چاہیے۔ وفادار ہو، ہاں میں ہاں ملاتا ہو، لطیفے سناتا ہوِ، سنجیدہ گفتگو نہ کرتا ہو، کتاب سے نفرت کرتا ہو، ہر وقت بتاتا رہے کہ حضور کی وجہ سے پاکستان دنیا میں ترقی کر گیا ہے‘ ہر مخالف کو بکائو سمجھتا ہو، اور صرف ان صحافیوں اور کالم نگاروں کو رسائی ملتی ہو جو ان کے حق میں ڈھول پیٹتے ہوں اور جمہوریت کے نام پر ہر ٹی وی چینل پر کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہوں۔
آپ ہی بتائیں‘ ملک کا کون سا ادارہ بچ گیا ہے جس پر کچھ فخر کیا جاسکتا ہو؟ نادرا ہوسکتا تھا۔ ہاں‘ موٹروے ہوسکتی تھی۔ باقی کچھ ذہن میں نہیں آرہا۔ نادرا کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ طارق ملک سے دشمنی نکالنے کے لیے سری لنکا کے ساتھ ہونے والے دس ملین ڈالرز کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے افسران تک کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ ملک کا دس ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے تو ہوجائے لیکن دشمنی نکالنا ضروری ہے۔
ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی کرپشن پر ایک دوسرے کا بچائو کیا ہے۔ جب بھی ان سے بات کرو‘ فوراً کہیں گے کہ آپ کو فوجیوں کی کرپشن نظر نہیں آتی؟ جب کہا جاتا ہے کہ فوجیوں کو آپ پکڑیں‘ اگر وہ غلط کررہے ہیں کیونکہ لوگوں نے ووٹ آپ کو دیا ہے‘ ایگزیکٹو پاورز آپ کے پاس ہیں‘ عوام کے پاس تو نہیں ہیں‘ کیوں یہ سب ادارے جہاں ہاتھ لگتا ہے لوٹ رہے ہیں؟ تو جواب ملتا ہے کہ کیا بات کررہے ہیں۔ ہماری اتنی جرأت کہاں! دوسری طرف ایف آئی اے اور نیب والوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ چند سیاستدانوں کے مفاد میں کام کریں گے۔ ایف آئی اے نے چالیس سے زائد مقدمات اور سکینڈلز کی فہرست وزارت داخلہ کو بھیجی ہے۔ مجال ہے کسی میں بھی کسی کو سزا ہوئی ہو۔ سب تنخواہیں لے رہے ہیں۔مزے ہورہے ہیں ۔ آج کا دن گزر گیا، شکر کرتے ہیں۔ اگلے دن کا کل سوچیں گے۔
ان لوگوں نے پاکستان کو اپنی چراگاہ بنا رکھا ہے اورجب تک بس چلے گا‘ یہی کرتے رہیں گے۔ مال یہاں سے بناتے ہیں اور جائیدادیں دوبئی اور لندن میں خریدتے ہیں‘ صرف حکمرانی کرنے کے لیے ہمارے اوپر نازل ہوتے ہیں اور ہم جمہوریت کے نام پر کرپشن اور نالائق لوگوں کو برداشت کرتے چلے جاتے ہیں‘ یہ سوچ کر کہ ایک دن بہتر ی آئے گی۔
کبھی کبھی مجھے یہ غلامانہ سوچ گھیر لیتی ہے یا آپ اسے میرا احساس کمتری کہہ لیں کہ اگر انگریز ہمارے اوپر حکومت نہ کرتے تو ہم آج کہاں کھڑے ہوتے؟ اگر 'The Last Mughal' پڑھیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ حالات کہاں پہنچ گئے تھے اور اس خطے کا انجام کیا ہونا تھا ۔ بہادر شاہ ظفر کی رنگون کی جیل میں لکھی گئی شاعری پڑھیں تو بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کہاں کھڑا تھا ۔ اگر انگریز نہ آتے تو کیا ہونا تھا؟ یہ خطہ کیسے چلتا؟ کبھی ہم نے غور کیا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے میں حملہ آوروں کے مظالم کے بارے میں سوچ کر کانپ جاتا تھا کہ کیسے کیسے اجنبی جنگجو راتوں کو کسی خطے میں اترتے۔ گھروں کو آگ لگاتے، مردوں کی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے، عورتوں کو اغوا کرلیتے اور بچوں کو پتہ ہی نہ چلتا کہ ان کے سوتے میں کیا کچھ ہوگیا۔ پھر کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے آپ کو پازیٹو رکھنے کی غرض سے یہ سوچنا شروع کیا کہ جو بربادی اپنے ساتھ یہ بیرونی حملہ آور لاتے تھے‘ سو‘ لاتے تھے لیکن ان فوائد کو بھی تو دیکھنا چاہیے جو وہ یہاں چھوڑ گئے۔ دنیا بھر میں اگر دیکھا جائے تو بیرونی حملہ آوروں نے مقامی لوگوں کی ترقی میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا اور جو لوگ یہیں رچ بس گئے انہوں نے اپنے اپنے علاقوں کی چیزیں متعارف کرائیں۔ ایک طویل فہرست بنتی ہے کہ وہ کیا کچھ یہاں متعارف کراگئے جس سے ان علاقوں میں جہاں تباہی ہوئی وہاں مستقبل میں چیزیں بہتر بھی ہوئیں۔ یہ صرف ایک خطے کی کہانی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہی کچھ ہوا ہے۔
میں آج بھی امریکہ کی ترقی کی پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ سمجھتا ہوں جو اپنے ملک چھوڑ کر وہاں جا بسے۔ انگریزوں نے بھی جب اس خطے میں اپنے قدم جمائے تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے فوائد کے لیے سب کام کیے ہوں لیکن انہوں نے کچھ ادارے بنا دیے۔ ہمیں جدید زمانوں کی زبان دے دی، ریلوے، ہوائی جہاز، بندرگاہیں، نہری نظام، جدید کاشت کاری کے طریقے متعارف کرائے۔ کچھ عدالتیں اور قوانین بنائے، پولیس بنائی۔ ایک طویل فہرست ہے جو کام انہوں نے کیے۔
ایک مزے کی بات سنیے۔ قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو پانچ سو ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔ اسی دن یہ خبر چھپی کہ اسحاق ڈار نے دوبئی میں آئی ایم ایف سے پانچ سو ملین ڈالر کا قرضہ لینے کے لیے گھنٹوں منت ترلے کیے‘ جب کہ وزیراعظم ایک برس میں تیس کروڑ روپے اپنے بیرونی دوروں پر خرچ کرچکے ہیں۔ ہر ماہ انہوں نے اوسطاً ڈیڑھ دورے کیے۔ ان ''کامیاب‘‘ دوروں سے انہوں نے بھی وہی کچھ حاصل کیا جو ان سے پہلے جنرل مشرف، شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی نے حاصل کیا تھا اور ملک پہلے سے بھی بدتر ہوتا چلا گیا۔
ہماری حالت اس فقیرنی جیسی ہوچکی ہے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پلے نہیں دھیلا تے کردی میلا میلا!!