"RKC" (space) message & send to 7575

حکمرانی کا بھاری پتھر!

نواز شریف نے لاہور میں گلے شکوے کیے ہیں کہ میڈیا نے جنرل مشرف دور میں ان کے خلاف مزاحمت نہ کی۔ حیران ہوں کیا وہ یہ گلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ اس صورت میں کہ وہ جنرل مشرف کی کابینہ کے وزراء کو اپنی کابینہ میں بٹھا کر مزاحمت کی بات کر رہے ہیں۔ جب خود ان کی اپنی بہادری کا امتحان شروع ہوا تو وہ ڈیل کر کے نکل گئے اور اس وقت لوٹے جب باقاعدہ ایک نئی ڈیل کی گئی جس کے تحت وہ اگلے پانچ سال الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے اور انہوں نے وہ ڈیل قبول کی۔
یاد آیا 2007ء میں ایک دفعہ وہ برمنگھم میں جلاوطنی کے دوران پاکستانیوں سے خطاب کرنے گئے۔ میں بھی موجود تھا ۔ جب لوگوں نے انہیں دیکھ کر نعرے لگائے ''نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ تو میاں صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ اب ان نعروں پر یقین نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے بارہ اکتوبر کو قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا ۔
سوال یہ ہے کہ قصور کس کا ہے؟ کیا پاکستانی قوم ناشکری نکلی اور انہوں نے نواز شریف جیسے ہیرے کی قدر نہیں کی اور انہیں جدہ اور لندن میں جلاوطنی میں رہنا پڑگیا۔ یا پھر نواز شریف کا قصور تھا کہ انہوں نے جو اپنے تئیں اعلیٰ ترین قدم بارہ اکتوبر کو اٹھایا وہ درست سمت میں نہیں تھا۔ جب قدم اٹھانے کا وقت تھا اس وقت وہ جنرل مشرف کوبچانے کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے قدم اٹھایا تو سب کو لگا کہ دراصل وہ جنرل مشرف کو ہٹا کر خواجہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو لگانا چاہتے تھے جو ان کی اپنی برادری کے تھے۔
لوگ تو ساتھ دیتے ہیں۔ لوگ تو بھٹو کے ساتھ بھی نکلے تھے۔ جب بھٹو ان جاگیرداروں کے ساتھ مل گئے تھے جن کے خلاف بغاوت کی تھی تو پھر لوگ گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور بھٹو پھانسی لگ گئے۔ بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹی تھیں تو لاکھوں لوگ لاہور میں نکل آئے تھے۔ پھر وہی بینظیر بھٹو روایتی سیاستدان بن گئیں تو پھر کوئی باہر نہ نکلا۔ نواز شریف کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ لوگوں نے انہیں کیسے ہیرو بنایا اور انہوں نے ان کی توقعات کا کیسے خون کیا۔
نواز شریف کو سمجھنا چاہیے تھا کہ اگر وہ جیل میں جنرل مشرف کے خلاف نہیں بیٹھ سکتے تھے تو وہ کیسے توقع کر سکتے تھے کہ میڈیا ، عوام یا ان کی پارٹی کے لوگ ان کا ساتھ دیتے۔ وہ خود جدہ کے محل میں بیٹھ کر کیسے قوم سے توقع رکھتے تھے کہ وہ ان کو واپس اقتدار میں لانے کی جنگ لڑے گی اور جب وہ اقتدار میں لوٹیں گے تو پھر کیا ہوگا؟ اب جب وہ اقتدار میں لوٹے ہیں تو کس کو فائدہ ہورہا ہے؟ ان کے اپنے خاندان اور خاندانی کاروبار ترقی کر رہے ہیں ۔ پورا خاندان اقتدار میں ہے۔ خاندان کا ہر فرد کاروبار کرتا ہے اور ان کے مخالفوں کا جینا حرام ہے۔ اپنی برادری کے افراد کو چن چن کر اہم عہدے دیے گئے ہیں۔ اپنے وفاداروں کو ہر جگہ لگایا گیا ہے۔ لاہور سے باہر کچھ نظر نہیں آتا۔ یہی دیکھ لیں کہ پنجاب اسمبلی میں ساٹھ خصوصی سیٹوں پر چونتیس خواتین کا تعلق لاہور شہر سے ہے۔ ابھی سینیٹ کی ٹکٹیں دیکھ لیں کہ جنوبی پنجاب جہاں ڈیڑھ سو سے زائد ایم پی اے اور ایم این اے کی سیٹیں ہیں، ایک بھی سینیٹ کی سیٹ نہیں دی گئی بلکہ پنجاب میں سے تین‘ سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سینیٹ کی ٹکٹ دی گئی ہے۔ سرائیکی علاقوں کا تین سیٹوں کا حصہ کراچی کے لیڈروں کو دیا گیا ہے۔ اب جنوبی پنجاب کے لوگ کل کو نواز شریف کو کیسے اپنا لیڈر مان کر ان کو اقتدار میں واپس لانے کے لیے کوشش کریں گے۔ کیونکہ انہیں اقتدار میں لانے کا فائدہ لاہور کو ہوتا ہے یا پھر ٹکٹیں لاہور میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ دوسری طرف ایم این اے کو مال کھلانے کے لیے چھ ارب
روپے کا ترقیاتی فنڈ قائم کیا گیا ہے جس کا سربراہ کیپٹن صفدر کو بنایا گیا ہے۔ جس نے ترقی فنڈ کے نام پر دو کروڑ روپے لینے ہیں‘ وہ کیپٹن صفدر کے پاس جائے اور لے کر گھر جائے۔
اب سیف الرحمن کا نام ہر دوسرے سکینڈل میں آنا شروع ہوگیا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ چینی کمپنیوں کے نام پر دراصل فرنٹ مین سیف الرحمن ہیں۔ وہ ہر دوسرے ایم او یو پر دستخط کر رہے ہیں۔ موٹرویز سے لے کر گیس تک ہر ڈیل میں ان کا نام آرہا ہے۔ اب بتائیں لوگ کیا کریں۔ نواز شریف کی محبت میں خاموش رہیں ؟ نئی خبر سن لیں۔ اسحاق ڈار نے ایف بی آر کا ریونیو زیادہ دکھانے کے لیے بنکوں سے کمرشل قرضہ لیا‘ جسے سود سمیت واپس کیا جائے گا۔ اب بتائیں جب آپ کے اکنامک منیجر ہی فراڈ کرنے بیٹھ جائیں گے تو پھر کیا رہ جائے گا۔ سیاستدانوں نے کچھ سوچا ہے کہ وہ کس کھائی میں جاگرے ہیں ۔ ان کے اپنے کاروبار ترقی کر رہے ہیں جب کہ ملک تباہ ہورہا ہے۔ اس سال نوازشریف اور اسحاق ڈار کے اپنے اثاثے بڑھ گئے ہیں جب کہ ملک کی اکانومی نیچے جاگری ہے۔ جو اپنے کاروبار کامیابی سے چلا رہے ہیں ان سے ملک نہیں چل رہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ چھوٹے موٹے کاروباری لوگ تھے اور بن گئے ہیں سیاستدان۔ اب ان کے ہاتھ پورا ملک لگ گیا ہے۔ اپنا کاروبار چلانے کے لیے مارکیٹ سے بہترین لوگ لاتے ہیں جب کہ حکومت میں نالائق ترین لوگ اہم عہدوں پر بٹھا دیئے گئے۔ کوئی ایماندار اور قابل آدمی کسی کلیدی مقام پر پہنچ جائے تو اس کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ کراچی میں شاہد حیات جیسے پولیس افسر کو جس طرح نکال کر باہر کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔
ان سیاستدانوں کو پتہ لگ گیا ہے کہ یہ ملک نیچے جارہا ہے۔ انہیں اس ملک میں اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا ۔ ان کے پاس ایک آپشن تھا کہ وہ اپنے کاروبار بھول کر اس ملک کو بچانے کی کوشش کرتے اور دوسرا یہ کہ ان کے بس کا کام نہیں‘ لہٰذا وہ جتنا مال بنا سکتے ہیں وہ بنا لیں۔ ان لیڈروں نے دوسرا راستہ اپنایا ہے اور وہ بڑے آرام سے جو کچھ انہیں مل رہا ہے وہ اکٹھا کررہے ہیں۔ اس ملک میں کسی نے اس خبر پر کوئی غور نہیں کیا کہ صرف ایک سوئس بنک میں ساڑھے تین سو پاکستانیوں کے تقریباً نوے ارب روپے پڑے ہیں۔ یہ ایک بنک کی بات ہے؛ جب کہ اسحاق ڈار نے فرمایا تھا کہ دراصل دوسو ارب ڈالر پڑے ہیں۔ اب ذرا بتائیں کہ سوئس بنکوں میں رکھے یہ نوے ارب روپے کہاں سے کمائے گئے ہوں گے۔ اگر حلال کی آمدن تھی تو پھر پاکستانی بنکوں میں کیوں نہ رکھی گئی۔ اگلا سوال‘ یہ کہ یہ اربوں روپے سوئس بنکوں میں کیسے ٹرانسفر ہوئے اور اس ڈاکے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی‘ سب خاموش ہیں۔ جو جتنا لوٹ سکتا ہے وہ لوٹ کر جارہا ہے۔
اسی طرح دوبئی میں پاکستانیوں کا جائداد خریدنے کا نمبر سب سے اوپر ہے۔ اگر پاکستان کو دیکھیں تو لگتا ہے اس کے پاس ایک روپیہ تک نہیں اور ہر روز ہم نئے قرضے لیتے ہیں۔ جب بیرون ملک ان لیڈروں اور بڑے لوگوں کے اکائونٹس اور جائدادوں کی تفصیلات پڑھیں تو پتہ چلے گا پاکستان سے زیادہ امیر ترین ملک کوئی نہیں ہے۔
سندھ کو ہی دیکھ لیں۔ اب وہاں باقاعدہ فوج کو یہ کہنا پڑگیا ہے اب کوئی تبادلہ کمیٹی کے بغیر نہیں ہوگا جس میں فوج کے اعلی نمائندے موجود ہوں گے۔ اس کے بعد کیا اخلاقی جواز باقی رہ گیا ہے؟ سیاسی حکومتیں عوام سے ووٹ لے کر اخلاقی جواز پر حکمرانی کرتی ہیں۔ آٹھ برس کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اس مقام تک پہنچی ہیں کہ اب وہ اس قابل بھی نہیں کہ افسران کی مناسب تقرریاں اور تبادلے ہی کر سکیں۔ ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتا ۔ سب سمجھتے ہیں کہ جو بھی افسر ہٹتا یا لگتا ہے اس کے پیچھے لمبا مال ہوتا ہے۔ کراچی میں وزیروں نے لمبے مال ٹرانسفر پوسٹنگ میں کما لیے۔ وزراء کے بارے میں مشہور ہے کہ گھر کے بیسمنٹ میں کیش رکھا جاتا ہے۔۔شاید اب تو بیسمنٹ بھی چھوٹے پڑ گئے ہیں ۔
یہ بات طے ہے کہ یہ کاروباری سیاسی لیڈرز چھوٹے موٹے کام ہی کر سکتے ہیں۔ سرکاری سپیچ رائٹرز کی لکھی ہوئی تقریریں پڑھنے سے زیادہ ان کے اندر کوئی قابلیت نہیں۔ ان لیڈروں میں کتاب پڑھنے کا کوئی رواج نہیں۔ اس لیے ان کے پاس کوئی نئے آئیڈیاز اور سوچ نہیں۔ نہ انہیں دنیا کے بارے میں علم ہے کہ وہ کہاں جارہی ہے اور پاکستان کیسے اس میں ایڈجسٹ ہوسکتا ہے۔ ان کے نزدیک دنیا کا ایک ہی استعمال ہے۔ پاکستان سے مال بنائو اور باہر کے بنکوں میں رکھو۔ بچوں کو دنیا کے اچھے اچھے شہروں میں کاروبار سیٹ کر کے دو۔ یہ ملک چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر آٹھ برس کی جمہوریت اور کھلی چھٹی کے بعد بھی یہ لوگ ایسی ٹرانسفر اور پوسٹنگ نہیں کر سکتے جس میں کوئی پیسہ نہ کھایا گیا ہو تو اس کے بعد ان بونے لیڈروں کے پاس حکمرانی کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
مان لیں! اپنے ذاتی کاروبار کو ملک پر ترجیح دینے والے، ترقیاتی فنڈز کے نام پر کرپشن اور معمولی ٹرانسفر پوسٹنگ پر پیسہ کھانے والے یہ بونے حکمران‘ پاکستان پر حکمرانی کا بھاری پتھر اٹھانے کے قابل نہیں ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں