"RKC" (space) message & send to 7575

چوک اعظم کی بربادی

ایک دفعہ پھر لیہ کا طویل سفر درپیش تھا ۔
اسلام آباد سے دیر سے نکلا۔ رات کو میانوالی کے قریب بارش شروع ہوچکی تھی۔ سات گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد چوک اعظم شہر کے اندر داخل ہوا تو سکون ہوا کہ اب گھر تھوڑا دور رہ گیا تھا۔ اسی وقت مجھے محسوس ہوا کہ میری گاڑی سڑک پر نہیں بلکہ اچانک کسی دریا میں جاگری ہے۔
چوک اعظم کا تعارف کرا دوں۔ یہ ضلع لیہ کی اہم تحصیل ہے۔ اس شہر کے درمیان سے دو سڑکیں گزرتی ہیں جو بہت اہم ہیں بلکہ پورے ملک کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں۔ خیبر پختون خوا کے لوگوں نے اگر ملتان، بہاولپور یا سندھ جانا ہو تو وہ ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی، بھکر سے ہوتے ہوئے چوک اعظم کے شہر کے اندر سے گزر کر ہی آگے جاسکتے ہیں۔ اس طرح لاہور، فیصل آباد، جھنگ کو لیہ اور دیگر سرائیکی اور مرکزی پنجاب کے علاقوں سے ملانے والی سڑک بھی اسی شہر سے گزرتی ہے۔ یوں اگر یہ شہر اور اس کی سڑکیں پانی میں ڈوب جائیں اور سڑکیں تباہ ہوجائیں تو پھر سمجھ لیں کہ آپ کہاں پھنس گئے ہیں۔
اب اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے مجھے اپنے چاروں طرف پانی ہی پانی نظرآیا۔ حیران ہوا کہ ابھی تو سب کچھ ٹھیک تھا‘ اچانک رات کے دوبجے شہر میں داخل ہوتے ہی کیا ہوگیا تھا؟ میں نے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا اور گاڑی کو ریورس کیا۔ شکر ہے کامیابی سے واپس سڑک پر آگیا جہاں سے دریا میں گاڑی داخل کی تھی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی یہ ایک ہی سڑک ہے جو لیہ کی طرف جائے گی۔ اب رات گئے بیوی بچوں کے ساتھ کیسے اس دریا کو عبور کروں گا؟ خیر میں نے گاڑی سڑک کی سائیڈ پر دھیرے دھیرے چلانی شروع کی۔ مین چوک میں پہنچا تو پھر رائٹ سائیڈ پر ٹرن لیا تاکہ لیہ جا سکوں ۔ اب کی دفعہ میں سیدھا ایک سمندر میں جاگرا۔ جو پانی اس سڑک پر کھڑا تھا وہ پچھلی سڑک سے کئی گنا زیادہ تھا۔ میں رک گیا۔ اب سمجھ نہیں آرہی تھی گاڑی اس سمندر میں بند ہوگئی یا کسی کھڈے میں جاگری تو کیا کروں گا ۔ بچے ساتھ ہیں۔ انہیں کیسے نکالوں گا۔ اوپر سے بارش ہورہی ہے۔ اس وقت تاریک رات میں شدید بارش میں کون مدد کو آئے گا۔ تاحد نظر سڑک پر پانی ہی پانی بہہ رہا تھا اور لگ رہا تھا کہ سڑک پر کھڈے ہی کھڈے ہیں۔ مجھے پریشان دیکھ کر میری بیوی نے کہا کیا ساری رات یہاں کھڑے رہیں گے... اللہ کا نام لے کر چلو۔ میں نے کہا اگر گاڑی پھنس گئی تو پھر کیا ہوگا۔ ابھی تو چلو یہ اطمینان ہے کہ گاڑی چل رہی ہے۔ بچے بارش سے محفوظ ہیں۔
اچانک خیال آیا‘ چوک اعظم میں میرے دوست رانا اعجاز محمود بھی رہتے ہیں۔ ان کا گھر قریب ہی ہے۔ پھر خیال آیا اگر وہ بھی میری طرح موبائل فون آف کر کے سوتے ہوں تو ؟ خیال آیا رانا صاحب کو ان کے گھر جا کر جگا لوں گا کہ جناب ہماری گاڑی چوک اعظم کی سڑکوں پر بہتے دریائوں میں سے نکال دیں۔ میں نے سڑک کے کناروں کو دیکھنا شروع کیا وہاں سے اگر کوئی چھوٹا سا راستہ مل جائے۔ ہر جگہ پانی ہی پانی تھا بلکہ اب پانی قریبی دکانوں سے نکل کر سڑک پر مزید پھیل رہا تھا۔ میں نے احتیاط سے کام لیا اور گاڑی کو دکانوں کے آگے سے گزارنے کی بجائے سڑک پر ہی رہنے کو ترجیح دی کہ کسی بڑے کھڈے میں نہ جاگروں۔ ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ اللہ بھلا کرے‘ ایک ٹرک ہمارے قریب سے گزرا اور سیدھا دریا کے عین درمیان سے سڑک پر چلتا گیا ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ پانی کتنا گہرا تھا اور کہیں کوئی گہرا گڑھا تھا یا نہیں۔ وہ ٹرک دو تین دفعہ دھکے کھاتا ہوا دور نکل گیا تو میں نے آنکھیں بند کیں۔ خدا سے دعا مانگی اور سمندر میں گاڑی ڈال دی۔ وہ چند منٹ جس طرح میں نے گاڑی ڈرائیو کی اور جن امتحان سے گزرا‘ وہ میں ہی جانتا ہوں۔ کافی دیر تک شدید دبائو کا شکار رہا اور ہزاروں وسوسے حملہ آور ہوتے رہے۔
اگلے دن نعیم بھائی کی برسی پر رانا اعجاز محمود گائوں آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ رات چوک اعظم پر ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا اب واپس جانے کے لیے کون سا راستہ لوں کیونکہ چوک اعظم کی اہم سڑکیں تو دریا بن گئی ہیں۔ رانا صاحب نے کہا اللہ سے دعا کرو کہ دھوپ نکل آئے کیونکہ اب یہ پانی کئی دنوں تک اس وقت تک اس سڑک پر کھڑا رہے گا جب تک یہ بھاپ بن کر اڑ نہیں جاتا ۔
میں نے کہا کوئی میونسپل کمیٹی، کوئی ادارہ نہیں ہے جو اگلے دن اس پانی کووہاں سے نکال کر سڑک کو اس قابل بنائے کہ ٹریفک وہاں سے گزر سکے۔ رانا اعجاز بولے: چوک اعظم اس خطے کا اہم شہر ہے۔ چوک اعظم میں انیس کروڑ روپے اکٹھے ہوتے ہیں جو آگے چلے جاتے ہیں اور واپس اس شہر کو دو کروڑ روپے ملتے ہیں۔ اب بتائیں جو شہر یہاں کاروبار کے حوالے سے اہم ہے وہاں کا فنڈ اس پر نہیں لگ رہا تو پھر یہ حالت تو ہوگی جو اس وقت چوک اعظم کی ہوچکی ہے۔
میں نے کہا ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ ناظم اور کونسلر بہت نااہل لوگ ہیں۔ زکوٹا جنوں نے کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ضلعی نظام کو ختم کیا۔ نوے ہزار منتخب کونسلرز کو گھر بھیج کر ان کی جگہ ڈی ایم جی افسران نے لے لی اور دعویٰ فرمایا اب ہر ضلع پیرس بن جائے گا۔ اب چھ برس بعد جب سے ضلعی نظام ختم ہوا‘ ملک کا یہ حال ہوگیا ہے کہ تھوڑی سی بارش ہوجائے تو آپ شہر سے گزر نہیں سکتے اور کئی کئی دنوں تک پانی کھڑا رہتا ہے۔ دھوپ نکلے تو پانی سوکھے گا وگرنہ کوئی بندوبست نہیں۔ پورا سیوریج سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ اسلام آباد، لاہور سے لے کر چوک اعظم تک کوئی سرکاری ادارہ کام نہیں کررہا۔
میرے بڑے بھائی سلیم جو چوک اعظم میں بنک میں جاب کرتے رہے ہیں‘ بولے: کچھ قصور لوگوں کا بھی ہے جو شاپرز کو اٹھا کر سیوریج میں ڈال دیتے ہیں جس سے پانی کی نکاسی کا نظام تباہ ہوگیا ہے۔ میں نے کہا بالکل درست۔ سوال یہ ہے لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا تو بھی ریاست کا کام ہے۔ سڑک بناتے وقت کوئی نہیں دیکھتا کہ بارش کا پانی کہاں جائے گا۔ ایک سال بعد نئی سڑک بارش کے پانی سے تباہ ہوجاتی ہے اور برسوں تک تباہ ہی رہتی ہے۔ متعلقہ مقامی اداروں کا کام ہے وہ لوگوں کو بتاتے کہ شاپرز مت پھینکیں۔کوئی کونسلر یا نمائندہ ہر جگہ تحریک چلاتا کہ مت برباد کریں اپنے شہر کو۔ اگر لوگ باز نہیں آتے تو پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی۔ کچھ افراد اور دکاندار گندگی سیوریج میں پھینکنے کے جرم میں گرفتار ہوں گے ، ان کی پریس کے ذریعے مشہوری ہوگی تو کچھ کام ہوسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمیں بتایا گیا تھا زکوٹا جن ہر ضلع اور تحصیل کو امریکہ بنا دیں گے اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا... تو اب تک کیوں یہ شہر بہتر نہیں ہوئے؟ پنجاب کو ہر سال این ایف سی سے ملنے والے نو سو ارب روپے میں سے ان شہروں کا حصہ کدھر ہے۔ چوک اعظم سے اکٹھے ہونے والے انیس کروڑ روپے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ اگر ایک تحصیل کی یہ حالت ہے تو پھر آپ باقی قصبوں کی حالت کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔
دوسری طرف الیکشن کمشن بھی سیاستدانوں کے ساتھ مل گیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے خلاف کیس چل رہا ہے۔ یہ کیس افتخار چودھری دور میں شروع ہوا تھا جب ابھی ان کے دو برس رہتے تھے۔ اب ان کے بعد دو چیف جسٹس مزید آئے اور گئے ہیں اور ابھی تک کیس چل رہا ہے۔ ہر دفعہ پنجاب اور سندھ کوئی نیا بہانہ تراش کے سپریم کورٹ سے وقت لے لیتے ہیں۔ الیکشن کمشن ان صوبوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں کو ختم کر دیا گیا ہے جس سے شہر برباد ہوگئے ہیں۔ سڑکیں تباہ ہوگئی ہیں۔ سرکاری بابوئوں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے پیسوں سے گاڑیاں، پٹرول اور ٹی اے ڈی اے کیسے اکٹھا کرنا ہے اور یوں عوام ڈوب گئے ہیں۔
اگر سپریم کورٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں برطرف کر سکتی ہے تو پھر ان سیاستدانوں اور بابوئوں کو کیوں نہیں جو پچھلے چھ برسوں سے بلدیاتی اداروں کے الیکشن نہیں ہونے دے رہے۔ ایک آدھ وزیراعلیٰ پر یوسف رضاگیلانی فارمولا لگائیں اور پھر دیکھیں کہ اس ملک میں ضلعی حکومتوں کے انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں...!
شہباز شریف فرماتے ہیں 2017ء تک ہر تحصیل لیول پر پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے‘ اب بندہ روئے کہ ہنسے جناب! آپ پینے کا صاف پانی نہ فراہم کریں‘ سڑکوں پر کئی دنوں سے کھڑا بارش کا پانی ہی صاف کرادیں۔ کیونکہ آپ کے حکم کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا اور‘ ہاں... آپ کے پسندیدہ ڈی ایم جی افسران نے آخر اس ملک کا بیڑا غرق کر ہی دیا!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں