اگر میں یہ کہوں جس سکیورٹی پالیسی کا اتنا چرچا کیا گیا ہے، وہ دراصل 2008ء میں اقوام متحدہ کی بنائی گئی ایک پالیسی کا چربہ ہے تو کیسا رہے گا؟
وزارت داخلہ کے جن افسروں کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا‘ انہوں نے گوگل کر کے یہ رپورٹ وہاں سے نکات لے کر بنائی ہے؟ خیر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ دنیا بھر کی سکیورٹی پالیسیوں کا جائزہ لے کر اپنی پالیسی بنالیں لیکن ایمانداری کا تقاضا ہے کہ اس کا حوالہ دیا جائے تاکہ اس کی ساکھ میں اضافہ ہو۔ ورنہ جن لوگوں نے اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ پڑھ رکھی ہے، وہ اس پر ہنسیں گے۔ باقی چھوڑیں کچھ پیرے تو ویسے ہی اٹھا کر پیسٹ کر دیے گئے ہیں اور ایسی چیزیں بھی ڈال دی گئی ہیں جو صرف مغربی ممالک کے لیے ہیں‘ پاکستان کے لیے نہیں۔
پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ وزارت داخلہ جس سے اسلام آباد شہر میں چار نوجوان ڈاکوئوں کا ایک گروہ پچھلے ایک سال سے نہیں پکڑا گیا وہ کیسے پورے ملک کی سکیورٹی کا بیڑا اٹھا رہی ہے ؟ اسلام آباد جیسے چھوٹے شہر میں روزانہ کسی گھر میں یہ ڈاکو داخل ہوتے ہیں، گھر والوں کو یرغمال بناتے ہیں، کچن میں صبح کا ناشتہ، لنچ یا ڈنر خود تیار کرتے ہیں‘ پورے گھر کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں اور سارا سامان باندھ کر لے جاتے ہیں اور ہمیں کہا جاتا ہے فکر نہ کریں۔ وزارت داخلہ اور دیگر اداروں کے پاس 26 ایجنسیاں ہیں۔ ان ایجنسیوں کا ہم نے کیا کرنا ہے جو ایک سال سے ان چار ڈاکوئوں کو نہیں پکڑ سکیں۔ سنا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے بعض اعلیٰ افسران کی ایک دوسرے سے بول چال تک نہیں ہے۔ چونکہ ان کے سفارشی مختلف ہیں‘ لہٰذا وہ ایک دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ایک پولیس افسر اتنا طاقتور ہے کہ اس کے ساتھ بارہ کمانڈوز کا دستہ پھرتا ہے جب کہ وزیرداخلہ کے پاس صرف دو گن مین ہیں ۔ کوئی بتائے گا کہ ان صاحب کو کس سے اتنا خطرہ ہے‘ جبکہ چوہدری نثار اور دیگر سیاستدانوں کو نہیں ہے‘ جن کی سکیورٹی وزارت داخلہ نے واپس لے لی ہے کہ اپنا بندوبست خود کرو؟ اور تو اور چیئرمین سینیٹ نیر حسین بخاری کی بھی سکیورٹی ہٹا لی گئی۔ شاید بخاری صاحب کے گارڈز ہی ہٹا کر ان صاحب کو دیے گئے ہیں کیونکہ ان کا سفارشی بہت تگڑا ہے۔
اسی اسلام آباد میں بیٹھ کر وزیرداخلہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ بہت جلد سب کچھ ٹھیک کردیں گے۔ رحمن ملک دور میں وزارت داخلہ میں جو تباہی مچی اس کے اثرات بڑی دیر تک محسوس ہوتے رہیں گے لیکن چوہدری نثار کا اب تک کا دور بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔ باتیں زیادہ اور ایکشن کم۔ دوسری طرف واقف حال بتاتے ہیں کہ جس سکیورٹی پالیسی یا طالبان کے ساتھ ڈیل کے معاملے کو میڈیا اور سیاسی جماعتیں کنفیوژن کہتی ہیں وہ دراصل ایک خوف کا نتیجہ ہے۔ جب وہ بڑے جنہوں نے طالبان کے خلاف لیڈ کرنا تھا‘ کچھ ایسے لوگوں کو بلا کر اپنا خوف ان کے ساتھ شیئر کریں گے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ طالبان تک ان کا پیغام پہنچا سکتے ہیں توپھر کون اور کیسے لڑے گا؟ جب ایک وزیر ایک بہت ہی معتبر بندے کو بلا کر کہے گا کہ بھائی دیکھو ناں طالبان کو بتائو کہ میں نے کبھی ان کے خلاف کوئی بات نہیں کی تو پھر سکیورٹی پالیسی بنا کر آپ نے کیوں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کیا؟ جب اس ملک کو چلانے پر مامور ایک بڑا لیڈر بھی اس سے ملتی جلتی گفتگو اس لیے کرے گا کہ طالبان تک یہ بات پہنچ جائے کہ اس نے کبھی ان کے خلاف کھل کر آپریشن کا لفظ ابھی تک استعمال نہیں کیا اور اپنی تقریروں میں بھی بہت احتیاط برتی ہے اور جو کچھ ہورہا ہے ، وہ فوج ردعمل کے طور پر
کررہی ہے تو پھر اس ملک کے لیے کون لڑے گا ؟
جن کو ابھی تک معلوم نہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے پنجاب ہائوس میں حکومتی اور طالبان کمیٹی کے ارکان کا خفیہ مشترکہ اجلاس کیوں بلایا تھا‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس اجلاس کو بلانے کی اجازت وزیراعظم نواز شریف نے دی تھی اور اس کی وجہ ان دونوں کا مشترکہ خوف تھا کہ طالبان کا ردعمل ان کے خلاف نہ ہو۔ اس اجلاس کا مقصد بھی یہی تھا کہ طالبان کو کسی طرح یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اگرچہ ایف سی کے 23 نوجوانوں کو ذبح کرنے کے بعد فوجی ردعمل ایف سولہ طیاروں کے حملوں کی شکل میں نکلا تھا لیکن وہ پھر بھی طالبان سے بات چیت کو تیار ہیں اور وہ ان کی بس اتنی مدد کردیں کہ سیزفائر پر مان جائیں۔ جب ہمارے لیڈر اس طرح کے پیغامات پنجاب ہائوس میں خفیہ اجلاس منعقد کر کے بھیجیں گے تو پھر کون سی لیڈرشپ اور کہاں کے لیڈر! اگر یہ لیڈر واقعی اپنے خاندان اور بچوں کے لیے اتنے پریشان ہیں تو انہیں کچھ عرصے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کیوں نہیں بھیج دیا جاتا ۔ چوہدری نثار کے بچے تو پہلے ہی امریکی شہری ہیں‘ لہٰذا ان کا کوئی مسئلہ نہیں اور وزیراعظم کے بچے بھی پہلے ہی لندن میں کاروبار کرتے ہیں، تو پھر یہ سب طالبان کے ردعمل سے کیوں اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہیں اس کام کے لیے حکومتی اور طالبان کمیٹی کے خفیہ اجلاس کی ضرورت پیش آتی ہے؟ کیا ہم سمجھ لیں اس ملک کو وہ وزیر چلا سکے گا جس کے جنرل نصیراللہ بابر کی طرح بچے نہیں ہوں گے اور وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرے گا ؟
تاہم بہادری کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی انسانی تاریخ میں قومی اور انفرادی حیثیت سے بہادری کے کارنامے دکھائے گئے۔ حیران ہوتا ہوں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں بڑے لوگوں کو صرف اپنے خاندانوں کی فکر ہے وہاں ڈیرہ اسماعیل خان کی دھرتی کے سپوت‘ سندھ کے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات میں اتنی جرأت کہاں سے آگئی کہ وہ اکیلا کراچی میں ڈٹ گیا ہے حالانکہ اس کے بھی تو بیوی بچے ہیں۔ پوٹھوہار کے فرزند سی آئی ڈی کراچی کے چوہدری اسلم کے بھی تو بیوی بچے تھے، وہ بھی ڈٹ گیا تھا ۔ اس نے دھمکی آمیز فون کال کے بعد بھی کراچی میں کوئی خفیہ اجلاس نہیں بلایا تھا تاکہ طالبان پر ایف سولہ طیاروں کے حملے کے بعد انہیں ٹھنڈا کیا جائے تاکہ کسی وزیراعظم یا وزیر کے خاندان کے خلاف کوئی ردعمل نہ ہو۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہی پوٹھوہار دھرتی کا ہیرو راجہ پورس بھی تو سکندر یونانی کی فوج کے آگے ڈٹ گیا تھا جب کہ ایران کا بڑا سورما دارا میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا۔ راجہ پورس جسے میں اس دھرتی کا ہیرو سمجھتا ہوں‘ کے بھی بیوی بچے تھے۔ ہم کس قدر احساس کمتری کا شکار ہیں کہ سکندر نے پورس کی بہادری کی قدر کی لیکن آج تک اسے پوٹھوہار کی دھرتی کا ہیرو نہیں سمجھا جاتا‘ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ ہمارے نزدیک کسی بھی ہیرو کا مسلمان ہونا ضروری ہے چاہے اس نے ہماری نسلوں کا لہو ہی کیوں نہ بہایا ہو۔
نواب مظفر خان شہید بھی رنجیت سنگھ کی فوجوں کے خلاف ملتان کو سکھوں کی یلغار سے بچانے کے لیے اپنے سات جوان بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ میں اتر گیا تھا اور وہ ساتوں ایک ایک کر کے کٹتے گئے۔ نواب مظفر کو علم تھا کہ اس کے کندھوں پر اپنے سات جوان بیٹوں سے زیادہ اس عوام کے بچوں کا بوجھ تھا جنہوں نے اسے اپنا حکمران مان رکھا تھا ۔ ابراہیم لودھی بھی اپنے بیوی بچوں کی پروا کیے بغیر، بابر کی فوج سے لڑ گیا تھا چاہے ہار ہی گیا۔ شیر شاہ سوری نے بھی اپنے بچوں کی پروا نہ کرتے ہوئے مغلوں کو ہندوستان سے مار بھگایا تھا اور جب تک وہ زندہ رہا، خوفزدہ مغل بچہ ہمایوں ایران میں پناہ لے کر بیٹھا رہا !
اگر کسی کو اپنے بیوی بچوں کی فکر عوام کے بچوں سے زیادہ ہے تو پھر بہتر ہے وہ گھر بیٹھے اور عوام کا لہو بہتے دیکھے، جیسے باقی دیکھ رہے ہیں۔ اس کم لکھے کو زیادہ جانیں کیونکہ میں ابھی اس موڈ میں نہیں ہوں کہ ساری تفصیل بتائوں کہ ترکی میں جب وزیراعظم نواز شریف اور آرمی قیادت کی ملاقات افغان صدر کرزئی اور ان کے افسران سے ہوئی تو کرزئی نے کیسے پاکستان کے خلاف طویل چارج شیٹ پڑھی۔ وزیراعظم چپ رہے اور پوچھنے کی جرأت نہ کر سکے کہ اگر پاکستان کی طرف سے افغانستان کے اندر سب کچھ ہورہا ہے تو پھر افغان بھی تو یہی کچھ ہمارے ساتھ کررہے ہیں۔ پھر گلہ کس بات کا ۔ دونوں پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایف سی کے 23نوجوان جو نواز کرزئی ملاقات کے بعد قتل ہوئے وہ بھی افغانستان کے اندر قید رکھے گئے تھے اور تحریک طالبان کے اکثر لیڈر وہیں سے آپریٹ کر رہے ہیں، تو کیا ان کے بہیمانہ قتل میں کرزئی کو شریک جرم سمجھا جائے؟
سنا ہے کچھ ہمت جنرل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے کی اور کرزئی کے الزامات کا جواب دیا، وگرنہ کرزئی جس نے اپنے محسنوں امریکیوں تک کو ٹف ٹائم دیے رکھا، کے خوفناک الزامات سن کر سیاسی قیادت کو سانپ سونگھ گیا تھا!!