میرے دوست اعجاز احمد جارجیا سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ ملتان سے امریکہ گئے اور وہیں بس گئے۔ ان سے پہلے ورجینیا کے دوست اکبر چوہدری پاکستان سے ہوکر گئے ہیں۔ ان کے بعد نیویارک سے مشتاق احمد جاوید آئے۔ طارق چوہدری، خالد بھائی اور پروفیسر غنی کے ساتھ میرے گھر پر محفل جمی رہی۔ پروفیسر غنی جن کی عمر چوراسی برس ہے‘ آسٹرولوجی کے حوالے سے بہت کچھ جانتے ہیں ۔ ان کی کہانی پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے جو باتیں ہوئیں‘ ان سے میں تو ڈر گیا ہوں۔
اعجاز بھائی نے جارجیا سے فون کر کے پوچھا: پاکستان آرہا ہوں‘ کچھ لانا ہے؟ مجھے یاد آیا سی آئی اے کے پاکستان میں سابق اسٹیشن چیف نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے، جو ابھی پاکستان میں نہیں مل رہی۔ میں نے کہا ہوسکے تو88 days to Kandahar, لے آئیں ۔ اس سے پہلے جب میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے پاس لیوس میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک دن ان کے گھر پر ایک پیکٹ ملا ،جس میں ہلیری کلنٹن کی 'ہارڈ چوائسز‘ تھی۔ حیران ہوا کس نے بھیجی ہے۔ پتہ چلا کہ جارجیا سے اعجاز بھائی نے ایڈوانس آرڈر پر لے کر میرے لیے بھیجی تھی۔
اب تین دن سے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کتاب پڑھی ؟ اس میں سے کیا نکلا ؟ میں نے کہا‘ اعجاز بھائی ابھی میں نے اپنے کالموں میں دو تین کتابوں کے حوالے دیے ہیں اور وہ پاکستانی دانشوروں سے ہضم نہیں ہورہے اور اب آپ سی آئی اے کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی بہت اہم کتاب لے آئے ہیں ۔ میں نے اس کتاب میں سے جب کچھ نکال کر اپنے قارئین کے ساتھ کالموں میں شیئر کرنا شروع کیا تو پھر شور مچ جائے گا کہ سی آئی اے نے کیسے پاکستان کو استعمال کیا اور کیسے سب استعمال ہوتے رہے۔ ہم نے کیا کیا نئی گیمز کھیلیں اور امریکہ تو تباہ ہوتا یا نہ ہوتا، ہم خود تباہ ہوگئے اور ہمیں اس
کا احساس تک نہیں ہے۔ میری مذمتوں کا نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ہلیری کلنٹن اور بروس ریڈل کی کتابوں سے جو ریفرنس پیش کیے‘ اس پر بہت سوں نے فرمایا، آپ امریکہ کے لکھاریوں پر بھروسہ کیوں کرتے ہیں؟ میں نے پوچھا کس پر بھروسہ کریں؟ کوئی پاکستانی سیاستدان اور فوجی افسر کچھ لکھتا ہی نہیں۔ جنرل کیانی کیوں اپنی کتاب نہیں لکھتے؟ جنرل احسان الحق اور جنرل پاشا بھی نہیں لکھتے۔ حمید گل بھی جرأت نہیں کرتے۔ غلام اسحاق خان نے کتاب نہیں لکھی، جب کہ کون سا امریکی جنرل یا سیاستدان ہے جس نے کتاب نہیں لکھی؟ سو جب ہمارے اندر کوئی کتاب ہی نہیں لکھی جائے گی تو کس کو پڑھیں ۔ عابدہ حسین کی کتاب میں سے اہم چیزیں کالموں میں شیئر کیں تو بھی پوری قوم ناراض ہوگئی کہ کیوں اس کی کتاب کی پروموشن کررہے ہو ۔ ہم بغیر کچھ پڑھے دانشور بن گئے ہیں۔ امریکہ کی باقی چیزیں استعمال کریں گے لیکن امریکیوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہمارے لیے حرام ہیں کیونکہ وہ ہمیں ہماری اندر کی نالائقی اور باتیں بتاتے ہیں جو ہم سننے یا پڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔
اعجاز بھائی نے پوچھا ،پھر بھی کچھ تو پڑھا ہوگا ۔ میں نے کہا‘ جی رات شروع کی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سی آئی اے کے پاکستان، افغانستان اور دیگر ملکوں میں کردارکے بارے میں ہے اور اس میں بہت اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ رابرٹ گرنیر سی آئی اے میں ایک بڑا نام سمجھا جاتا ہے اور وہ بہت اہم موقع پر پاکستان میں کام کر چکا ہے۔ اب اگر کتاب کا ذکر کیا تو پھر بعض دانشور تیس برس بعد بھی پاکستان کی غلط افغان پالیسی کا جواز پیش کریں گے۔ ہمیں پورا تناظر سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ جب کوئی جواز نہیں بن پائے گا تو پھر کہا جائے گا، چھوڑیں جی! آپ رپورٹر ہیں، آپ خبریں دیا کریں، ان ایشوز پر لکھنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان ایشوز پر لکھنا صرف ان کے بس کی بات ہے جو افغانستان میں ہمارے بلنڈرز اور غلطیوں کا دفاع کریں اور زندگی بھر ان ایشوز پر کوئی ایک بھی بہتر کتاب نہ پڑھی ہو ،جن پر دن رات صفحات سیاہ کرتے ہیں ۔ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کا مرنا ان کے نزدیک اس ''پورے تناظر‘‘ کا حصہ ہے۔میں نے کہا‘ اعجاز بھائی پھر آپ کے امریکی اور پاکستانی دوست آپ سے گلہ کریں گے کہ دیکھیں آپ کے دوست نے کیا لکھ دیا ،وہ امریکیوں کی کتابوں سے ریفرنس نکال کر ہمارے برسوں کے بنائے ہوئے بتوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ مہربان امریکہ جانا اور سیٹل ہونا پسند کرتے ہیں لیکن ویسے امریکہ انہیں برا لگتا ہے۔
اعجاز بھائی کے ساتھ ملتان سے میرے پرانے دوست خالد جاوید چوہدری، جو حال ہی میں محکمہ اوقاف سے ریٹائر ہوئے ، آئے ہوئے ہیں اور ساتھ میں ماجد چوہدری بھی۔ میں نے کہا‘ مان لیتے ہیں ہمارے دانشور درست کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوجی قیادت کا افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑنے کا فیصلہ درست تھا ،لیکن کیا کریں کہ آج تیس برس بعد یہ فیصلہ غلط ثابت ہوچکا ہے۔ مان لیتے ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا ان کی نیت نیک تھی،لیکن جب کوئی فیصلہ غلط ثابت ہو جاتا ہے تو پھر آپ لاکھ وضاحتیں پیش کرتے رہیں، تاریخ یہی کہے گی کہ وہ فیصلہ غلط تھا اور اس کا نتیجہ پاکستان کے لیے تباہ کن اثرات لایا۔
خالد جاوید چوہدری ،جن کی خوبصورت سٹالن اسٹائل مونچھیں مجھے بہت پسند ہیں‘ بولے: لیکن اگر جنرل ضیاء افغانستان میں اپنا مشن پورا کرتے تو پھر یہ مسائل نہ کھڑے ہوتے جو آج ہورہے ہیں۔ میں نے کہا‘ خالد بھائی !شکر کریں جنرل ضیاء کا مشن اس طرح پورا نہیں ہوا ‘جس طرح وہ چاہتے تھے‘ وگرنہ ٹارگٹ افغانستان پر صرف اپنی مرضی کی حکومت نہیں تھی۔ وہ پہلی منزل تھی۔ اس کے بعد کابل کی حکومت کے ذریعے ہمسایوں کو فتح کرنے کا سلسلہ شروع ہونا تھا۔ تب یہ خطہ اس سے بھی بڑی جنگ میں پھنس جاتا جس میں اب ہم پھنسے ہوئے ہیں ۔ چلیں 1988ء میں جنرل ضیاء کی مرضی کی حکومت کابل میں نہ بن سکی ‘جس سے خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ آپ 1996 ء کے بارے میں کیا کہیں گے ؟جب بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاء اور ان کے حمید گل جیسے کمانڈروں کا خواب پورا کیا اور افغانستان میں پاکستان کی حمایت یافتہ طالبان کی حکومت آگئی ؟ اس سے کیا نتائج نکلے؟ کیا اس سے دنیا پُرامن ہوگئی؟ پاکستان پُرسکون اور طاقتور ہوگیا؟ مسلمانوں کا پوری دنیا میں بول بالا ہوگیا؟
اس میں سے خانہ جنگی نکلی ۔ پاکستان کی تباہی نکلی۔ پاکستان کی حمایت یافتہ اس کابل حکومت میں سے گیارہ ستمبر نکلا، اسامہ بن لادن نکلا۔ اور پھر افغانستان پر دنیا کے باون ملکوں نے مل کر حملہ کیا اور دس لاکھ افغان باشندے مارے گئے۔ لاکھوں دربدر ہوئے اور ساٹھ ہزار پاکستانی مارے گئے۔ اب جنرل مشرف فرماتے ہیں کہ انہوں نے گیارہ ستمبر کے بعد افغان طالبان پیدا کیے، انہیں اسلحہ اور فنڈز فراہم کیے۔ انہی افغان طالبان نے پلٹ کر پشاور میں فوجیوں کے ہی ایک سو چالیس بچوں کو شہید کر دیا ۔ آج ہم انہی افغان طالبان کو ختم کرنے کے لیے کابل حکومت سے درخواست کر رہے ہیں جنہیں پیدا کرنے کا کریڈٹ بھی ہم لیتے ہیں ؟
میں نے کہا‘ شکر کریں جنرل ضیاء کا مشن ادھورا رہ گیا تھا ورنہ معاملہ صرف ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے دہشت گردی میں قتل تک محدود نہ رہتا۔ جن ملکوں کو فتح کرنے کے پلان جنرل ضیاء اور جنرل حمید گل نے بنائے تھے ان سب نے مل کر اسی طرح ہمارے اندر پراکسی جنگیں شروع کرنی تھیں جیسی ہمارے نزدیک بھارت کر رہا ہے۔ ابھی تو ایک بھارت ہے اور ہمارا یہ حال ہوگیا ہے، اگر اس پراکسی وار میں روس، چین، ایران اور سینٹرل ایشیا کی حکومتیں براہ راست ملوث ہوجاتیں تو پھر ہمارے ہاں سین ہی کوئی اور ہونا تھا۔ تقدیر جو کچھ کرتی ہے‘ وہ بہتر کرتی ہے۔ جنرل ضیا افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت اس لیے قائم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ اس سے سکون ہوجائے گا ۔ وہ کابل کے ذریعے پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔ اس خواب کی ایک جھلک جنرل ضیا کی موت کے بعد چند برس پہلے پنڈی کے ایک ہوٹل میں ایکس سروس مین سوسائٹی کے ایک سیمینار میں ہم سب نے اس وقت دیکھی جب جنرل حمید گل نے اپنا ویژن شیئر کیا تھا کہ اب بھی ہم افغانستان فتح کرنے کے بعد کن کن ملکوں کو مزید فتح کر سکتے ہیں اور اس پر احسن اقبال جیسا بندہ بھی حیران ہوکر بول پڑا تھا کہ ہمارے ریٹائرڈ جنرل کس دور میں زندہ ہیں۔ اعجاز بھائی پھر بھی پوچھنے سے باز نہیں آئے اور بولے‘ چھوڑو یار‘ یہ بتائو پاکستان میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف رابرٹ کی اس نئی کتاب میں سے کچھ نکلا؟
اب آپ ہی بتائیں میں انہیں کیا جواب دوں؟