وزیراعظم نواز شریف کے ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں فرمودات جو انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء سے خطاب میں کہے اور جس میں انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کو مکروہ قرار دیا، سن کر سابق چیف سیکرٹری پنجاب جیون خان اور ان کی آپ بیتی جیون دھارا یاد آئی جو کچھ عرصہ قبل پڑھی تھی۔
اپنی چھوٹی سی لائبریری میں سے دوبارہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ غائب ہے ۔ اپنے آپ کو تسلی دی کہ ہر اچھی کتاب کو غائب ہی ہوجانا چاہیے تاکہ دوبارہ خرید کر پڑھی جا سکے۔ مسٹر بکس کے یوسف بھائی کو فون کیا ۔ پتہ چلا کہ دو جلدوں میں موجود ہے... جا کر خریدی اور دوبارہ پڑھنی شروع کی ۔
یہ خوبصورت تحریر پاکستانی سیاست اور بیوروکریسی کے عروج اور زوال کو عیاں کرتی ہے۔ سابق بیوروکریٹ جیون خان نے جس خوبصورتی سے یہ کتاب لکھی ہے اس پر وہ یقینا داد کے مستحق ہیں۔ اس کتاب سے اندازہ ہوگا کہ پاکستان اس حالت میں کیسے پہنچا اور پہنچانے والے کون تھے۔
وزیراعظم نواز شریف یہ بھول گئے کہ 2008ء کے الیکشن کے بعد جب شہباز شریف وزیراعلیٰ بننے لگے تو نمبرز پورے نہیں تھے جو ق لیگ کے ایم پی اے عطا مانیکا نے اس وقت پورے کر کے دیئے جب ان کو بیس ہزار ڈالرز بیرون ملک علاج کے لیے سرکاری خزانے سے عطا کیے گئے۔ سب خاموش رہے۔ اس وقت زرداری صاحب نواز لیگ کے ساتھ پاور شیئر کر رہے تھے لہٰذا انہوں نے اس ہارس ٹریڈنگ کو مکروہ قرار نہیں دیا اور یوں شہباز صاحب کی حکومت پانچ سال عطا مانیکا کے عطا کیے ہوئے ق لیگ کے ایم پی ایز پر چلتی رہی۔
اب ذرا جیون دھارا سے چند اقتباسات آپ کے لیے حاضر ہیں جن سے پتہ چلے گا کہ یہ مکروہ کام کب اور کیسے شروع ہوا۔
''جناب پرویز بٹ جو کمشنر کراچی اور ہوم سیکرٹری سندھ رہ چکے تھے‘ ایک دن ہولے سے بول پڑے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کو کچھ احساس ہے کہ پنجاب پولیس میں بے تحاشہ بھرتیاں ہورہی ہیں؟ وزیراعلیٰ پنجاب کو شاید سندھ کے حشر کی خبر نہیں ہے۔ ڈکیت راج جو
وہاں ہے وہ جب پنجاب میں برپا ہوگا تو پھر آنکھیں کھلیں گی؟ سندھ میں جوماضی کی حکومتوں نے بیج بویا تھا اس کی فصل اب سب کاٹ رہے ہیں۔ وڈیرے ہمیشہ سے بااثر رہے ہیں۔ سفارش کا چال چلن بہت پرانا ہے۔ سیاسی دور میں اس وبا نے زور پکڑا۔ بڑے لوگوں کے کہنے پر بہت بھرتیاں ہوئیں۔ سپاہی سے لے کر کپتان اور اسسٹنٹ کمشنر تک بغیر کسی امتحانی جھمیلے کے سرکاری ملازمت میں لیے گئے۔ اونچی نوکریاں بڑے لوگوں نے اپنے بیٹوں، بھتیجوں اور دامادوں کے لیے حاصل کیں اور چھوٹی نوکریاں اپنے حواریوں کی اولاد کو دلوا دیں۔ دوران ملازمت بھی اپنے برخورداروں کی سرپرستی اور پرورش کرتے رہے۔ اب سندھ میں فصل شباب پر ہے۔ کئی ایک تو ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے سربراہ ہیں۔ تھانوں اور تحصیلوں میں وڈیرا شاہی کے نمک خوار بیٹھے ہیں۔ وڈیرے سائیں کے دست شفقت کے بغیر ڈاکو زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔ خدشہ ہے پنجاب کا بھی حشر چند برسوں میں یہی ہوگا‘‘۔
''سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ پر تشویش کا اظہار ہوتا رہتا تھا۔ سیلاب کا ریلا کچھ کمزور پڑجاتا مگر تھمتا نہیں تھا۔ قصور سماجی نفسیات اور پرانے کلچر کا تھا۔ عوامی سطح پر سرکاری نوکری کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جسے مل جاتی، پورا خاندان جشن مناتا۔ سب سے بڑھ کر نوکریاں تھانیداری اور نائب تحصیل دار کی تھیں۔ اچھے اچھے گھرانوں کی خواہش تھی کہ نورچشم اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار ہوجائیں۔ اس سے بڑی نوکری ڈائریکٹ پولیس انسپکٹر کی تھی‘‘۔
''عوامی نمائندے انسان ہی ہوتے ہیں۔ خاندان کی ناموس عزیز ہوتی ہے۔ وہ اپنے وقار میں اضافہ چاہتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں انہیں معمار اعظم سمجھیں۔ ایسے بوٹے لگائیں جائیں جو مدتوں میٹھا پھل دیں۔ ممبری کا کیا بھروسہ ، آج ہے، کل نہ ہو۔ چنانچہ مانگنے والوں نے مانگا اور نواز شریف سرکار مان گئی۔ قواعد میں نرمی برتتے ہوئے بھرتی شروع ہوئی۔ جتنا گڑ اتنا میٹھا... کوئی اے ایس آئی بنا تو کوئی نائب تحصیل دار۔ بند میں شگاف پڑ گیا تو پانی کے دبائو سے یہ بڑھتا گیا ۔ تبادلوں کے لیے بھاگ دوڑ شروع ہوئی، بعض دفعہ محسوس ہونے لگا کہ کئی حلقے ایسے راجواڑے بن گئے جہاں ممبر صوبائی اسمبلی کے بغیر کوئی اہلکار لگ جاتا تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا۔ میرے حلقے میں مداخلت... یہ سازش ہے... جمہوری حکومت کو ناکام کرنے کی ناپاک جسارت۔ دل گردے والے افسر بھی سہم جاتے۔ اہلکار جو بیساکھیوں کے بل پر وہاں پہنچتے وہ اپنے ممبران کرم فرمائوں کی پوجا پاٹ کرتے اور بے وسیلہ مخلوق خدا کی کھال کھینچتے اور خون چوستے... ان حالات میں امن و امان کا متاثر ہونا لازمی تھا۔ سرکار کا خوف دل سے اٹھتا جارہا تھا۔ انصاف کی چولیں ہل رہی تھیں‘‘۔
''جنرل ضیاء کی موت کے بعد جب الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات میں پی پی پی جیت گئی اور صوبائی اسمبلی کے ہونے باقی تھے تو سب پنچھی نواز شریف کیمپ سے اڑ گئے۔ رات بھر میاں نواز شریف نے اپنے سارے سیاسی گھوڑے سرپٹ دوڑائے۔ امیدوار دل چھوٹا کیے بیٹھتے تھے۔ وہ نیا عزم لے کر اٹھے۔ جوڑ توڑ میں جان ڈال دی نتیجہ آیا تو نواز شریف کی برتری تھی۔ ایک مرتبہ وہ پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔ محترمہ بے نظیر وزیراعظم اور نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب... اقتدار کی نیام میں دو تلواریں... مار دھاڑ کے فلسفہ کے پجاری ہر حربہ استعمال کرنے پر تلے ہوئے... الزامات انکوائریاں، تبادلے... ہارس ٹریڈنگ!‘‘
اب ذرا پڑھیں جب غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ بنے تو پھر پنجاب میں کیا ہورہا تھا۔
''سیکرٹریٹ میں خالی اسامیوں کا اشتہار آیا تھا ۔ ان میں سو سے زیادہ چپڑاسی کی نوکریاں بھی تھیں۔ ہزاروں درخواستیں آئیں... پڑتال ہوئی تو سینکڑوں کو ایم اے اور بی اے پاس پایا۔ میٹرک میں حاصل کردہ نمبروں کے حساب سے فہرست مرتب کرائی تو ایسے امیدوار درجنوں میں تھے جنہوں نے ستر فیصد سے زیادہ نمبر لیے تھے۔ سر فہرست آنے والے کے نمبر 712 سے زیادہ تھے۔ یہ دیکھتے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اندر سے آواز آئی تم نے میٹرک میں سات سو بارہ نمبر لیے تھے اور والدین پیٹ کاٹ کر پڑھاتے رہے۔ اب تم پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہو۔ یہ لڑکا تم سے زیادہ قابل ہے لیکن والدین بے بس ہوگئے ہوں گے جو آگے پڑھا نہیں سکے۔اب مجبور ہو کر چپڑاسی کے لیے درخواست دی ہے۔ اگر یہ رہ گیا اور معمولی نوکری سفارش کی نذر ہوگئی تو لعنت ہے تم پر ۔ اس وقت چیف سیکرٹری کے پاس جا کر رونا رویا۔ وہ دوسرے دن وزیراعلیٰ کے پاس لے گئے۔ داستان سننے کے بعد وائیں نے کہا‘ جانتے ہو کہ ریوڑیاں کیسے بٹتی ہیں اور پھر بھی کانٹوں پر گھسیٹتے ہو۔ اچھا بابا جائو آدھی اسامیاں میرٹ پر کر لو۔ بقیہ نصف کے لیے میں تم سے بات کروں گا‘‘۔
''ٹال مٹول کرنے کے باوجود ہر ممبر صوبائی اسمبلی روزانہ بے شمار کاموں کی غرض سے سرکاری دفاتر کی یاترا کرتے۔ کہیں سواگت ہوتا‘ کہیں نیم رعونت سے واسطہ پڑتا۔ چٹکی بھرتے نوکری نہیںملتی تھی۔ ممبران کا مزاج برہم ہونا لازمی امر تھا۔ خفگی بڑھتی تو وزیراعلیٰ کے سامنے شکوہ شکایت کا انبار لگاتے۔ رسم ٹھہری کہ ممبران کو جہاں تک ہوسکے راضی رکھا جائے۔ اس کا اثر سب سے زیادہ سرکاری ملازمین کے تبادلوںپر پڑا۔ہوشیار افسران ایک ایم پی اے ساتھ لیتے اور تبادلہ کرالیتے۔ اگر نہ ہوتا تو وہ وزیراعلیٰ کے پاس چلے جاتے اور وہاں سے احکامات آجاتے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وزیراعلیٰ وائیں نے ایسے حکم ناموں کی بارش کر دی۔ نوبت یہاں تک آئی کہ سرکاری تبادلوں پر پابندی لگانا پڑی۔ لیکن پابندی کے دوران بھی احکامات اس طرح آتے رہے اور ممبران کو خوش رکھا گیا۔ یہ سب مصنوعی کھیل تھا۔ وائیں وزیراعلیٰ ضرور تھے لیکن پارٹی لیڈر تو نواز شریف تھے۔ سب رونقیں ان کے دم سے تھیں‘‘۔
''جب وائیں وزیراعلیٰ بنے تو نام ان کا تھا لیکن اصل معاملات شہباز شریف دیکھتے تھے۔ وزیراعلیٰ وائیں نے شہبازشریف کا نام اقوام متحدہ رکھا ہوا تھا جن کی مرضی کے بغیر وہ کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ وزیراعلیٰ وائیں دل و جان سے قانون کی بالادستی کے قائل تھے لیکن بھلا کب کر سکتے۔ وزیراعظم نواز شریف بھی جب ہر ہفتے ویک اینڈ پر لاہور تشریف لاتے تو وائیں صاحب میاں چنوں چلے جاتے۔ اس دوران نواز شریف خود پنجاب کے اجلاس بلاتے، اہم فیصلے کرتے اور افسران کو بتادیا جاتا کہ یہ سب فیصلے اور احکامات وہ وائیں صاحب کو سوموار کے روز پہنچا دیں کہ کیا کرنا ہے اور دل و جان سے اس پر عمل ہوتا...‘‘
ایک طویل داستان ہے جو اس کتاب میں چھپی ہوئی ہے۔ تھوڑے کو کم سمجھیں‘ وگرنہ جن لوگوں نے اس ملک کی بربادی کی داستان پڑھنی ہے تو پھر جیون خان کی جیون دھارا سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہوسکتی اور آپ کو پتہ چلے گا جو لوگ پاکستانی سیاست میں کاروبار اور پیسے کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے دراصل یہ کام انہی کے دور میں انہی کے نیک ہاتھوں سے ہی شروع ہوا تھا ۔ اگر ابھی بھی شک ہے تو پھر عابدہ حسین کی کتاب پڑھ لیں کہ مری میں جن ممبران کو بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے رکھا گیا تھا ان کی خدمت کس انداز میں کی گئی تھی اور کیسے گدھے گھوڑے خریدے جارہے تھے، جیسے آج کل یہ کاروبار دوبارہ اپنے عروج پر ہے!
آج اگر نواز شریف صاحب کے مخالفین ان کے 1985-99ء تک کے ہارس ٹریڈنگ کے حربے اب ان پر ہی استعمال کر رہے ہیں تو پھر وہ صبر کریں اور اپنے موقع کا انتظار کریں۔ وزیراعظم سے بہتر کون جانتا ہے کہ پاکستانی سیاست... کرپشن، ہارس ٹریڈنگ، انتظار اور ٹائمنگ کا ہی تو نام ہے!