جنوبی پنجاب کے ساتھ جو سلوک سینٹ الیکشن میں کیا گیا ہے، اس پر خاموشی دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور حیرانی بھی۔ سرائیکی علاقوں میں اس ناانصافی پر خاموشی سے‘ لگتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ ‘اب تخت لاہور سے اتنے مایوس ہوگئے ہیں کہ وہ احتجاج کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں یا پھر وہ سمجھ چکے ہیں کہ تخت لاہور سے جڑے رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بے حسی کا عروج پر پہنچنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ جب ناانصافی کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے تو سمجھ لیں کہ کوئی طوفان آنے والا ہے۔ بے حسی ایک حد تک کام دیتی ہے اس کے بعد شدید ردعمل ہوتا ہے۔ شاید تخت لاہور اس ردعمل کا انتظار کر رہا ہے یا پھر اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ سرائیکی علاقوں سے کوئی آواز نہیں اٹھے گی؟حیرت ہے اس بے حسی پر کہ مکھی کو دودھ میں دیکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ سب لوگ پاکستانی کیوں نہیں بنتے؟
جو کچھ پنجاب میں سینٹ الیکشن کے نام پر کیا گیا اس پر جس طرح میرے لاہور کے کالم نگار دوست، تجزیہ کار اور میڈیا نے خاموشی اختیار کی‘ حیرانی ہوتی ہے۔ کیا ذاتی تعلقات ریاست کے مفادات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ توقع تھی کہ لاہور کا میڈیا جنوبی پنجاب کے ساتھ ناانصافی پر آواز اٹھائے گا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا جو ایک آدھ آواز بلند ہوئی‘ وہ بھی اتنی مدہم اور کمزور تھی کہ اس سے بہتر تھا نہ بولتے اور بادشاہ سلامت کی آنکھوں میں اچھے بنے رہتے کیونکہ میرے جیسوں نے اکثر بڑے گھر جا کر دیسی مرغیاں کھانی ہوتی ہیں۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے گیارہ میں سے ایک سیٹ بھی سرائیکی علاقوں کو نہ ملے۔ جب میں نے ٹی وی شوز میں اعتراض کیا تو جواب ملا کہ آپ بھول گئے ہیں کہ غوث نیازی اور نجمہ حمید سرائیکی علاقوں سے ہیں۔ اس سے پتہ چلا ہمارے لاہوری دانشور سرائیکی صوبے کی سرحد کو بھکر سے آگے نہیں آنے دیتے لیکن اگر سینٹ میں فائدہ نظر آرہا ہو تو پھر سرحد چکوال تک لانے میں بھی چنداں مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ پتہ چلا کہ نیازی صاحب چکوال بار کے صدر ہیں ۔ حیران ہوا چکوال کب سے جنوبی پنجاب کا حصہ بن گیا۔ اس طرح نجمہ حمید کے والدین برسوں قبل ملتان ٹھہرے تھے۔ آج کل مستقل پتہ راولپنڈی ہے... یوں ملتان کا کوٹہ نجمہ حمید لے گئیں۔
اس وقت سینٹ میں جنوبی پنجاب سے سردار کھوسہ اور رفیق رجوانہ دو سینیٹرز ہیں۔ محسن لغاری آزاد حیثیت سے جیت کر گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے؟ رفیق رجوانہ جو مشکل دور میں بھی نواز لیگ کے ساتھ کھڑے رہے اور ماریں کھائیں وہ وزیر نہ بن سکے جب کہ ان کی جگہ سکندر بوسن کو وزیربنایا گیا جو جنرل مشرف دور کے وزیر تھے۔ اسی طرح کھوسہ کی جگہ ماروی میمن کو اہمیت دی گئی۔
ویسے بھی اگر جنوبی پنجاب سے سینٹرز بن جاتے تو کیا فرق پڑتا؟ ماضی میں کیا ہوا۔ سینیٹرز کے فنڈز جنوبی پنجاب سے شفٹ کر کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے داماد اور ایم این اے کیپٹن(ر) صفدر کے حلقے مانسہرہ بھیجے گئے تھے۔ سینیٹر چوہدری جعفر اقبال گجر کے بہاولپور ڈویژن کے فنڈز مانسہرہ بھیجے گئے۔ رفیق رجوانہ کو ملتان کے لیے دو کروڑ روپے ملے جوحکم ملنے پر فوراً مانسہرہ ٹرانسفر کرا دیئے۔ رجوانہ صاحب کو سمجھ آگئی ہوگی کہ انہیں یہ فنڈز ایک مخصوص شخصیت کے حلقے کو شفٹ کرنے کے لیے سینیٹر بنوایا گیاہے۔ بہاولپور میں دو خواتین ایم این ایز کو حکم ملا کہ وہ بھی اپنے فنڈز مانسہرہ منتقل کریں اور ہو گئے۔ ظفر علی شاہ ، پرویز رشید، اسحاق ڈار کے سینٹ فنڈز بھی
مانسہرہ بھیجے گئے۔ یہ ہے نواز لیگ کے سینیٹرز کا اصل استعمال۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ رفیق رجوانہ جو ایک ایماندار اور قابل مانے جاتے ہیں اور نواز لیگ کے بھی وفادار رہے انہیں وزیر کیوں نہ بنایا گیا جب کہ سکندر بوسن بن گئے؟ کیا نواز لیگ کو جنوبی پنجاب سے قابل لوگ اچھے نہیں لگتے جو ان کے سامنے کوئی بات کر سکیں۔
ظفر علی شاہ کو ٹکٹ اس لیے نہیں ملا کہ ان سے نواز شریف ناراض ہیں ‘ قصور یہ تھا کہ وہ فوجی عدالتوں کی مخالفت کر بیٹھے۔ یہ وہی ظفر علی شاہ ہیں جو فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں نواز شریف کے ٹرائل پر سات برس لڑتے رہے اور بہت کچھ بھگتا بھی۔ آج وہی برے ٹھہرے کہ انہوں نے فوجی عدالتوں کے خلاف کیوں بیان دیا۔ کیا ظفر علی شاہ جیسے سیاستدانوں کو برداشت نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ان کے خمیر میں اس طرح کی سمجھداری ہوتی جس کی توقع نواز شریف لگائے بیٹھے تھے تو وہ جنرل مشرف کے خلاف جدوجہد کرتے؟ ظفر علی شاہ بھی سمجھدار ہوتے تو سکندر بوسن کی طرح مشرف کے بھی وزیربنتے اور نواز شریف کے بھی چہیتے ٹھہرتے۔ پنجاب اسمبلی میں ساٹھ خواتین کی مخصوص سیٹوں میںسے چونتیس ایم پی ایز خواتین کا تعلق لاہور شہر سے ہے۔ کر لو جو کرنا ہے۔
بورے والا سے فون تھا کہ آپ ہی کچھ کریں۔۔ہم سب کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں زیادتی ہورہی ہے۔ اس دوست کو جواب دیا ؛ جب تک جنوبی پنجاب کے سرائیکی، پنجابی، مہاجر اور اردو بولنے والے الگ صوبے کے لیے کوشش نہیں کریں گے ‘ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔نئی بات سن لیں: وہاڑی اور ساہیوال کے کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا ۔ پنجاب پولیس ان پر ٹوٹ پڑی اور مار مار کر اُن کا حشر کر دیا۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اس پولیس جس نے کسانوں پر تشدد کیا وہ خود کسانوں کے بچے ہوں گے۔ انہیں بھی اپنے ماں باپ کو مارتے ہوئے شرم نہیں آئی کیونکہ حکم ملا تھا کہ مارو۔
دنیا اخبار میںہی حسن رضا کی ایک اہم خبر تھی جس پر کسی نے غور نہیں کیا کہ پنجاب حکومت نے 80 ارب روپے کی گندم پر سبسڈی دوسرے کاموں پر خرچ کر دی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔ گونگے ممبران اسمبلی بھرتی کر لیے گئے ہیں۔ اب بتائیں کسان کہاں جائے۔ کھاد، بیج اور دیگر اشیاء مہنگی ہورہی ہیں۔ اس سال مونجی کی فصل کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ زیادہ ہو جانے والی فصل مٹی کے بھائو بکتی ہے‘ بے چاراکسان مارا جاتا ہے۔ اگر وہ آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس تشدد کرتی ہے۔ اس ملک میں مارچ کرنے کا حق صرف اعلیٰ سیاستدانوں کو ہے‘ کسانوں کو نہیں۔ کیونکہ اب بیشتر سیاستدان بڑے صنعت کار بن گئے ہیں۔ کسان کو مارنے اور دبا کر رکھنے میں ہی ان کا کاروباری فائدہ ہے۔
عامر متین کا خیال تھا کہ چیئرمین سینٹ جنوبی پنجاب سے ہونا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ سرائیکی ہو۔ جواب میں‘ میری دلیل تھی کہ جنوبی پنجاب سے کسی سرائیکی کو اعلیٰ عہدہ دینے سے بات نہیں بنے گی۔ آپ مہربانی فرما کر جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنائیں۔ جنوبی پنجاب کے باسیوں کو ان کی اپنی پارلیمنٹ دیں، سینٹ میں بائیس سیٹیں دیں، این ایف سی میں سے تین سو ارب روپے دیں۔ سی ایس ایس ملازمتوں میں پندرہ فیصد کوٹہ دیں، علیحدہ پبلک سروس کمشن دیں‘ پھر ہی مسائل حل ہوں گے۔ سرائیکی وزیراعظم، وزیر یا چیئرمین سینیٹ دینے سے بات نہیں بنے گی کیونکہ ایسے اعلیٰ عہدوں سے چند خاندان سیاسی اور مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں‘ خطہ اور بالخصوص عام آدمی ویسے کا ویسے ہی محروم رہتا ہے!
پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی کا بھی یہی حال ہے۔ اس علاقے کو ترقی کی ضرورت ہے مگر یہاں بھی چند طاقتور لوگوں کو سیاسی طاقت مل گئی لہٰذا وہ بھی خاموش ہیں۔ جسے اقتدار میں حصہ ملتا ہے وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے مفادات بیچنے میں دیر نہیں لگاتا۔ کبھی غور کریں پوٹھوہار کے کتنے لیڈر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں شامل ہیں لیکن مجال ہے کبھی آپ نے پوٹھوہاریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کوئی بات میڈٖیا یا پارلیمنٹ میں سنی ہو ۔ بلکہ پوٹھوہاری ایک دوسرے کو پس ماندہ رکھ کر ہی خوش ہیں۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ ان پر دوسرے لوگ حکمرانی کریں۔ وہ یہ نہیں پسند کرتے کہ کچھ لوگ آگے آکر پوٹھوہار کے علیحدہ صوبے کا مقدمہ لڑیں۔
آپ کچھ بھی کرتے رہیں۔جب تک پنجاب کو چھوٹا نہیںکیا جائے گا ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بارہ کروڑ کی آبادی کی زندگی بدلے گی تو کچھ فرق نظر آئے گا۔ اس وقت جو حالات ہوچکے ہیں وہ کسی سرائیکی کے وزیراعلیٰ، گورنر، چیف سیکرٹری یا آئی جی بننے سے نہیں بدل سکتے۔ تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ نئے صوبے بنائیں اور اس کے ساتھ ہی طاقتور ضلعی حکومتیں بنائیں۔اس کے بغیر اس ملک میں نئی قیادت نہیں ابھرے گی‘ بلکہ مافیا کی طرح راج کرتی سیاسی اشرافیہ نئی قیادت ابھرنے ہی نہیں دے گی...!