اسلام آباد میں متاثر کن پریڈ دیکھ کر سوچتا رہا کہ سات برس تک اس قوم کو دہشت گردوں کی دہشت میں رکھ کر ہماری ماضی کی فوجی اور سیاسی قیادت نے کیا حاصل کیا تھا ؟ عامر متین نے کیا خوبصورت بات کہی ۔ بولے‘ جب ہم خود ہی دہشت گردوں کے ڈر سے سالانہ پریڈ کرانے سے انکاری ہوگئے تو پھر عالمی کرکٹ ٹیموں نے بھلا کب پاکستان کھیلنے آنا تھا۔
کیا ہم ڈر گئے تھے؟ کیا مذہبی جماعتوں کا خوف ہمارے سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے اعصاب پر سوار ہوگیا تھا یا پھر تین برس کی توسیع کے بعد وہ قوت کمزور پڑ گئی تھی جو ایک آرمی چیف کو ملک کے دفاع کی خاطر سخت فیصلے کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے؟
ان سات برسوں میں جب تقریبا ًپچاس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، اب کیا بدل گیا ہے؟ شاید نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کچھ فرق ڈالا ہے۔ ورنہ جنرل مشرف سے لے کر ان کے پسندیدہ جنرل اشفاق پرویز کیانی جن کے ذریعے انہوں نے این آر او کرایا تھا ، تک کچھ نہیں بدلا تھا ۔ وہی دہشت گرد، ان کی دہشت اور خوفزدہ قوم ۔ دلیر فوجی سوچتے رہے‘ سپاہ سالار کیا چاہتا تھا۔ فوجیوں نے وہ وردی اس لیے نہیں پہنی تھی کہ چند ہزار لوگ ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس فوج سے اتنی طویل جنگ لڑ سکیں۔ ہم نے وہ جنگ مذمتی بیانات سے جیتنے کی کوشش کی۔ سوات کا ایک آپریشن کر کے سمجھ لیا گیا کہ کام ختم ہوگیا ہے ۔ طالبان شمالی وزیرستان میں اکٹھے ہوتے رہے اور ہم سوچتے ہی رہے کہ کرنا کیا ہے۔
ہماری سابق فوجی قیادت صحافیوں کو جی ایچ کیو بلا کر بریفنگ دیتی رہی اور فوکس ایک ہی بات پر تھا کہ امریکی ڈرون ہماری خود مختاری پر حملہ ہے۔ دوسری طرف ڈرون کے لیے اڈے بھی دے رکھے تھے ۔ امریکی ہنستے ہوں گے‘ کون سی خودمختاری! چند ہزار دہشت گردوں نے نچا کر رکھ دیا تھا ۔ میڈیا بھی ریاست کو کمزور دیکھ کر دہشت گردوں کا ساتھی بن گیا ۔ خودمختاری اس وقت ہوتی جب وہ علاقے ہمارے کنٹرول میں ہوتے۔ جتنی محنت اس حوالے سے میڈیا کے دوستوں پر صرف کی گئی‘اگر اتنی ہی سنجیدگی سے ان دہشت گردوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا جاتا تو شاید آج یہ ملک کب کا دہشت گردوں سے پاک ہوتا ۔
جب فیصلے کا وقت آیا تو بقول پاکستان آرمی کے سابق ترجمان جنرل اطہر عباس‘ سابق سپہ سالار فیصلہ ہی نہ کر سکے جنہیں نپولین سے بھی بڑا جنرل بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ سب کمانڈرز چاہتے تھے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے ‘ اور کوئی حل نہیں رہا ۔ سپہ سالار سگریٹ سلگا کر گہری سوچ میں ڈوبے رہے اور پھر ڈوبے ہی رہے۔ ایک سال بعد سوچنے سے فارغ ہوئے تو بولے‘ رہنے دیں۔ خوف غالب آگیا اور بہادر مائوں کے بچے تاریک راہوں میں مارے جاتے رہے۔ سب نے دیکھا ریاست جھکتی ہی چلی گئی۔ سب بھول گئے تاریخ میں کوئی بہانہ نہیں چلتا۔لاکھ کہتے رہیں ہمایوں کی شکست کی وجہ افیم یا پھر ہندوستان کا موسم برسات تھا ، کوئی نہیں مانے گا۔ سب کہیں گے ہمایوں شیرشاہ سوری کے مقابلے میں نالائق اور نکما کمانڈر تھا۔لاکھ کہتے رہیں نپولین کے ہارنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جنگ کے روز گھوڑے کی پشت پر سوار نہیں تھا کیونکہ اس کی اپنی پیٹھ زخمی تھی اور نپولین کی فوج نے اسے نہیں دیکھا تو سب دل ہار گئے ۔ساتھ ہی نپولین اپنی سلطنت بھی ہار گیا۔ کوئی نہیں مانے گا اور نہ ہی برسوں بعد تاریخ میں کوئی اسے سراہے گا۔ سب کہیں گے نپولین وہ جنگ ہار گیا تھا۔
لاکھ کہیں جرمن طیاروں نے پورے لندن کو بموں سے راکھ بنا دیا تھا۔ ہزاروں برطانوی مارے گئے۔ تاریخ میں صرف یہی لکھا جائے گا کہ چرچل نے برطانیہ کو فتح دلوائی تھی۔ آپ کہتے رہیں جاپانی بہت بہادر تھے اور جدید جنگی تاریخ میں انہوں نے اپنی دشمن فورس کے خلاف خودکشں حملوں کی روایت ڈالی تھی اور پرل ہاربر پر حملہ کر کے تاریخ میں بہادری کی نئی داستانیں رقم کی تھیں‘مورخ یہی لکھے گا کہ جاپان کو امریکہ نے شکست دی اور پرل ہاربر پر حملے کرنے والوں کی نسلیں بھی تباہ ہوگئیں اور آج بھی جاپان میں امریکی اپنے اڈے بنائے بیٹھے ہیں۔ آپ لاکھ کہتے رہیں ہٹلر نے جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کوناکوں چنے چبوائے تھے‘ تاریخ میں یہی لکھا جائے گا جرمنی کو بدترین شکست ہوئی تھی ۔
اسی طرح لاکھ کہتے رہیں کہ جنرل کیانی امریکیوں کے ساتھ بڑی سمجھداری سے چل رہے تھے، وہ افغانستان کو امریکیوں سے بہتر سمجھتے تھے‘ تاریخ یہی کہے گی کہ جنرل کیانی کے دور میں طالبان نے ریاست کو قدموں پر بٹھا دیا۔ ہمارے دانشور ان کی ذہانت اور بہادری کی ایسی دیومالائی کہانیاں سناتے رہے جن کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ مان لیتے ہیں کہ وہ بہت بہادر تھے۔۔لیکن چھ سال میں وہ ایک پریڈ تک نہ کراسکے جو اس گھبرائی قوم کو احساس تحفظ دے سکتی کہ ہمارے پاس جدید فورس اور بہادر جوان ہیں جو چند ہزار دہشت گردوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔تاریخ کسی کا لحاظ نہیں کیا کرتی۔ بڑے عہدے پر فائز اور بڑے ذمہ داروں کے ساتھ تاریخ زیادہ سختی سے پیش آتی ہے۔ تاریخ نے زیادہ وقت نہیں لیا اور ہمیں جلد ہی پریڈ دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ ماضی کے فیصلوں نے فوائد کی بجائے زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ آپ لاکھ وضاحتیں دیتے رہیں۔۔بات نہیں بنے گی۔
ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگ باہر نکلے اور خوب نکلے۔ یہ دن انہیں کئی برسوں تک نہیں بھولے گا‘ خصوصاً جے ایف تھنڈر اور ایف سولہ طیاروں کی گھن گرج نے سب کے دلوں کو گرما دیا۔ سمارٹ اور خوبصورت وردی میں ملبوس سپوت تیز قدموں سے سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرے تو ان کی آنکھوں میں اپنے ملک کے لیے قربانی دینے کے جذبے نے سب کو متاثر کیا۔ جب بتایا جارہا تھا کہ کس بٹالین نے اپنے کتنے جوان جنگ میں کھو دئیے تھے تو مجھے ان کے ماں باپ یاد آگئے۔ ان ماں باپ سے زیادہ بہادر دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا جو اپنے بچوں کو فوج میں بھیجتے ہیں‘جو وطن کی محبت میں ڈوبے اپنے بچوں کو کفن پہنا کر میدان جنگ میں بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو ان ماں باپ کی جگہ رکھا ۔ مجھے اپنا آپ پہلی دفعہ بہت کمزور لگا ۔ دل جیسے رک گیا ہو۔ مجھے لگا‘ دنیا کے بہادر والدین وہی ہوتے ہیں جو بچوں کو محاذ جنگ پر بھیجتے ہیں چاہے وہ کسی بھی خطے کے ہوں...!
پریڈ گرائونڈ میں بیٹھے مجھے ایک ماں کی ای میل یاد آئی جو چند برس قبل میرے ایک کالم '' بادشاہ بلبن کی تلاش میں‘‘کے جواب میں موصول ہوئی تھی۔ اس کالم میں، میں نے لکھا تھا کہ پاکستان کو آج بلبن جیسے بادشاہ کی ضرورت ہے جس نے تاتاریوں سے لڑنے کے لیے اپنے بیٹے شہزادہ محمد کو ملتان کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ شہزادے نے تاتاریوں کے خلاف جنگ میں قیادت کی اور جنگ میں ہی شہید ہوگیا تھا ۔ امیر خسرو‘ جو اس کے ملتان دربار میں شہزادے کا چہیتا تھا‘ نے اس کی قربانی اور یاد میں پتہ نہیںکتنے گیت گائے،ملتان کی میٹھی چاندنی راتوں کو آنسو بہائے،تڑپتے رہے،آج بھی سرائیکی علاقوں میں رنجیت سنگھ کے خلاف اپنے سات بیٹوں کی قربانی دینے والے نواب مظفر خان شہید کے علاوہ شہزادہ محمد کا ذکر بھی لوک قصہ کہانیوں میں آپ کو ملے گا۔
اس ماں نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ حکمران بلبن جیسے بے شک نہ ہوں جن کے بچے ملک کا دفاع کرنے کی بجائے اربوں روپے کے کاروبار کر رہے ہیں اور دن رات مال کمانے کی فکر میں ہیں؛تاہم ایک ماں ضرور ہے جس کا بیٹا قبائلی علاقوں میں غیرملکی دہشت گردوں سے لڑ رہا ہے اور یہ ماں اس ملک کے لیے اپنا وہ بیٹا قربان کرنے کو تیار ہے۔
پتہ نہیں کتنی دیر تک میں آنکھوں میں آنسوئوں لیے بیٹھا اس ماں کی ای میل پڑھتا رہا۔شاید اس دن مجھے اس طرح احساس نہیں ہوا تھا جو اب پریڈ میں ہوا کہ ملک کی محبت کیسے اپنے بچوں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کتنی مائوں نے اپنے بچے اس لیے قربان کیے کہ وطن پر آنچ نہ آئے۔
شاندار پریڈ اور جنگی طیاروں کے کرتب دیکھ کر جنرل اطہر عباس کا انٹرویو یاد آیا۔ ہم نے کیسے سات برس ضائع کیے۔قوم ڈرتی رہی۔دن رات کانپتی رہی۔سسک سسک کر دم توڑتی رہی اور ہماری سیاسی اور فوجی قیادت محض مذمت کے بیانات جاری کرتی رہی اور ہم ساری دنیا میں ایک مذاق بن کر رہ گئے۔
اس پریڈ نے جو اس قوم کا مورال بلند کیا ہے اس کا اندازہ انہیں کبھی نہیں ہوگا جو خوف کے مارے اہم فیصلے کرنے سے ہمیشہ کنی کتراتے رہے !ہم نے اپنے سات برس ضائع کیے۔ ہزاروں مروا دیے۔سوچتے رہے۔ ایک فیصلہ نہ ہوسکا ۔دکھ اس بات کا ہے کہ احساس زیاں بھی نہیں۔
سات برس بعد یوں لگا کہ اس ملک میں ایک فوج ہے۔ جدید ہتھیار ہیں۔جنگی جہاز اور سب سے بڑھ کر بہادر مائیں اور ان مائوں کے جنے بہادر سپوت جو دھرتی ماں پر قربان ہونے کو تیار ہیں...!