آپ بھی کہیں گے میں یہ کیا کہانی لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ یہ بھی کوئی ایشو ہے۔ بندہ موقع محل ہی دیکھ لیتا ہے‘ اپنے ارد گرد نظر ہی دوڑا لیتا ہے۔ چلیں چھوڑیں... یہی سوچ لیں‘ کیا پاکستانی مرد یہ سب کام نہیں کرتے؟ ہم کون سے مختلف ہیں کہ دوسروں کو نصیحتیں کرنے بیٹھ جائیں۔ اپنے گریبان میں جھانکیں تو اتنے چھید نظر آتے ہیں کہ خوفزدہ ہو کر آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ کچھ دیر کے لیے اداکاری ہی سہی۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں اس طرح کے غیرضروری موضوعات پر لکھنے کا کیا مقصد؟
کیا کروں‘ بعض تحریریں‘ کچھ خطوط‘ کوئی چھوٹی سی بات‘ کوئی پرانا خیال‘ کسی کی بھولی بسری یادیں‘ پائوں کی زنجیریں بن جاتی ہیں۔ قدم بڑھانے کی کوشش کریں تو بھی یہ بھاری پتھر نہیں اٹھایا جاتا۔ یہ ای میل بھی انہی میں سے ایک ہے‘ جسے پڑھ کر میں رک گیا ہوں۔ ہو سکتا ہے اس ای میل کی ہماری زندگیوں میں اہمیت نہ ہو۔ ہو سکتا ہے‘ یہ ہر دوسرے گھر کی کہانی ہو۔ کسی کی آپ بیتی ہو۔ ایسی آپ بیتیاں روزانہ ہمارے ملک میں لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اس میں کیا نیا اور اچھوتا ہے؟ مجھے پتہ نہیں اس میں کیا نیا ہے۔ آپ خود ہی پڑھ لیں۔
ہمیں بعض اوقات یہ کیوں لگتا ہے کہ جو یورپ کو نکل گیا‘ اس کی زندگی بدل گئی۔ سات سمندر جانے کا رومانس۔ یورپ میں زندگی بسر کرنے کا جنون۔ بچوں کو یورپی ملکوں کی شہریت دلوانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار۔ ایک ہی خیال کہ بچوں کی زندگی بن جائے گی‘ چاہے اپنی زندگی میں کانٹے ہی کیوں نہ بچھ جائیں۔
پاکستان میں ہو سکتا ہے ان پردیسیوں کے خاندانوں کے سٹیٹس میں بہتری آجاتی ہو لیکن کچھ دوسرے معاملات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ میں کچھ ایسے واقعات سے آگاہ ہوں‘ جن کی بنا پر میں کبھی بیٹیوں کی بیرون ملک شادیاں کرنے کا حامی نہیں رہا۔ ہاں اگر لڑکے اور اس کے خاندان کو ذاتی طور پر جانتے ہوں تو الگ بات ہے‘ سبھی ایک جیسے نہیں ہوتے؛ تاہم ایسی کہانیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والے کئی شوقین حضرات صرف اس وجہ سے شادی کرتے ہیں کہ یار پاکستان جاتے ہیں‘ بور ہوتے ہیں۔ مائیں اور بہنیں بھی جان بوجھ کر اس کھیل میں شریک ہوتی ہیں۔ بھائی کے سر پر سہرا دیکھنے کے چکر میں سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ دودھ میں مکھی دیکھ کر بھی نگلنے کو تیار۔ کچھ دن پاکستان کے سیر سپاٹے پر آئے وہ نوجوان پاکستان میں بور ہوتے ہیں‘ لہٰذا ایک بیوی پاکستان میں رکھنے میں کیا ہرج ہے۔ ایک یورپ میں اور ایک پاکستان میں۔ پاکستانی بیوی انتظار کرتی رہے گی‘ آج دستاویزات بن کر آ جائیں گی۔ کچھ لیگل ایشوز کا بہانہ۔ وہاں اسٹور پر کام کرتا ہو گا تو یہاں بتایا جائے گا کہ لڑکا اسٹور کا مالک ہے اور پھر ایک طویل انتظار۔ یہ درست ہے‘ بیرون ملک سے آنے والے سب رشتے ایسے نہیں ہوتے۔ سب جگہ ایسا نہیں ہوتا‘ لیکن جہاں ہوتا ہے وہاں خاندان کیسے اجڑ جاتے ہیں‘ اس کا اندازہ آپ کو یہ ای میل پڑھ کر ہو گا۔ مجھے معلوم ہے‘ ہمیں اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ جو غلطی دوسرے نے کی‘ وہ اس سے نہیں ہوگی۔ اب ای میل پڑھیے۔
''سر میں آپ کے کالم پڑھتی رہتی ہوں۔ مجھے علم ہے آپ سیاسی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ آج میں نے سوچا آپ کے ساتھ ایک ایسا ایشو چھیڑا جائے‘ جسے پڑھ کر شاید آپ کچھ لکھ دیں اور ان پاکستانی مردوں تک میری بات پہنچ جائے جو عورتوںکو ایک کمپرومائز مشین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جس گھر میں پرورش پائی اس میں، میں نے اپنے بابا کو بہت محبت کرنے والا پایا۔ پتہ نہیں میری ماں کے ساتھ کیسے تھے وہ تو میری ماں ہی بہتر بتا سکتی ہیں۔ جب میں ماسٹرز کر رہی تھی تو ایک ڈرامہdoll's house A پڑھا تھا جو 21 دسمبر 1879ء کو کوپن ہیگن ڈنمارک میں سٹیج پر پرفارم کیا گیا۔ اس ڈرامے کے اختتام پر بیوی شوہر کو کہتی ہے: ''اب میرے لیے میں اور میرا اپنا آپ اہم ہیں‘‘ بیوی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے خاوند کی خوشی کے لیے سب کام کیے اور توقع کرتی رہی کہ ایک دن وہ اس کی عزت کرے گا۔ پھر بھی خاوند عزت نہیں کرتا۔ خاوند کے سنگدلانہ رویے سے دل برداشتہ ہو کر بیوی چھوڑ جاتی ہے۔ وہ ڈرامہ پڑھ کر میں نے سوچا تھا یہ گورے فضول میں عورتوں کو حقوق دیتے ہیں۔ آج جب مجھے طلاق ہو رہی ہے تو وہ ڈرامہ ڈالز ہائوس یاد آرہا ہے اور مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا ہے کہ اس ڈرامے میں کیا اہم پیغام تھا... میں اور میری ذات...! میں پاکستان میں اچھی نوکری کرتی تھی لیکن پھر شادی کے بعد میں برطانیہ آ گئی۔ میری ماں نے مجھے یہی سمجھایا کہ بیٹا گزارہ کرنا‘ کچھ بھی ہو جائے گزارہ کرتے رہنا۔ میرے شوہر تعلیم یافتہ ہیں اور برطانیہ میں پڑھاتے ہیں۔ وہ بہت ساری کتابیں پڑھتے تھے‘ لیکن جب وہ اپنی بیوی کو مارنا شروع کرتے تو پھر سب بھول جاتے۔ جب میرا خاوند مجھے مار رہا ہوتا تو میرے ذہن میں ایک ہی سوچ ہوتی‘ میں تعلیم یافتہ پاکستانی لڑکی ہوں‘ کیا ہوا وہ مجھے مارتا ہے‘ وہ میرا خاوند ہے‘ وہ مجھے روٹی کھلاتا ہے‘ ضروریات پوری کرتا ہے‘ اگر میں فون اٹھا کر برطانوی پولیس بلا لوں یا طلاق لے لوں تو اس سے میری اور میرے خاندان کی کیا عزت رہ جائے گی۔ یہ سب سوچ کر میں مار کھاتی رہتی؛ تاہم ایک دن میرے شوہر نے مجھے بہت مارا تو مجھے ڈرامہ ڈالز ہائوس کی وہ لائن یاد آئی... میں اور میری اپنی شخصیت... آج سے میں اور میری اپنی ذات میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اور پھر جب وہ مار مار کر تھک گیا‘ تو میں یہ سوچ کر گھر سے چلی گئی کہ اتنا کچھ پڑھ لکھ کر بھی میں اگر خود کو نہیں بچا سکتی تو پھر پڑھنے کا کیا فائدہ؟ آپ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے آپ ایک کالم لکھ دیں۔ والدین اور خاوندوں کے لیے‘ والدین کے لیے کہ وہ اپنی بچیوں کو مضبوط بنائیں اور اپنی بیٹیوں کی تربیت کا انداز بدلیں۔ پاکستانی والدین اپنی بچیوں کی جس طرح تربیت کرتے ہیں‘ اس سے برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی مرد پاکستانی لڑکیوں کی اس بچپن سے کی گئی تربیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بیٹا کچھ بھی ہو‘ گزارہ کرتے رہنا۔ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ برطانیہ میں مقیم یہ مرد پاکستانی لڑکیوں پر بھرپور تشدد کرتے ہیں اور لڑکیاں ماں کی تربیت کے زیر اثر مسلسل مار کھاتی رہتی ہیں۔ ہم عورتیں گھر بنانے میں جُتی رہتی ہیں اور مرد ہمیں سمجھنے کا ذرا سی بھی تکلف تک نہیں کرتے۔ برطانوی پاکستانی مرد کہتے ہیں پاکستانی لڑکیاں اچھی ہوتی ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں وہ گوری بیویوں پر تشدد نہیں کر سکتے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی مرد جانتے ہیں پاکستانی بیویاں کمپرومائز کرتی ہیں‘ اس لیے وہ انہیں اچھی لگتی ہیں۔ گوری بیوی کبھی کمپرومائز نہیں کرتی۔ پاکستانی بیوی کو اپنے خاندان کی عزت کا خیال ہوتا ہے‘ جس وجہ سے وہ کمپرومائز کرتی رہتی ہے اور کرتی ہی رہتی ہے اور روزانہ خاوند سے مار کھا کر بھی شکر ادا کرتی ہے کہ خاندان کی عزت بچ رہی ہے‘‘۔
ای میل ختم ہوئی۔ مجھے نہیں پتہ اس طرح کی ایک ای میل اس نے اپنی ماں کو بھی بھیجی یا نہیں۔ وہ نہیں چاہتی اس کا نام دیا جائے کیونکہ اس کے پورے خاندان کو اس کہانی کا علم ہے۔ وہ اب بھی خاندان کی عزت خراب ہونے سے ڈرتی ہے۔ اسے اب بھی اپنے خاوند کی عزت کا بہت خیال ہے۔ مقصد اس کا اپنے خاوند سے انتقام نہیں بلکہ وہ صرف اپنی مجبوریوں کا رونا رو رہی تھی کہ خاندان کی عزت بچانے کے لیے لڑکیاں کس حد تک کمپرومائز کرتی ہیں اور اس کمپرومائز سے مرد کیسے فائدے اٹھاتے ہیں۔ ویسے یورپ میں مقیم پاکستانی مرد کتنے سمجھدار ہیں کہ گوری بیوی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن پاکستان سے بیاہ کر برطانیہ لائی گئی بیوی کو دن رات مارتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ماں نے اسے ڈولی میں بٹھاتے وقت سرگوشی کی تھی... بیٹا کچھ بھی ہو جائے گزارہ کرتے رہنا۔ ساری عمر وہ سرگوشی اس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ ویسے ڈالز ہائوس کی وہ لائن کتنی پاورفل اور رومانٹک ہے: ''میں اور میری ذات...! آج سے اہم!‘‘
چلیں چھوڑیں۔ سرائیکی کے ایک بڑے شاعر اشو لال فقیر کا یہ شعر پڑھیں۔ یہ اس پاکستانی مرد کے نام‘ جو برطانیہ میں لیکچرر ہے۔ کتابیں پڑھتا اور پڑھاتا ہے۔ پاکستان کے برعکس ایک مہذب معاشرے میں رہتا ہے... اور دن رات بیوی کو مارتا ہے!
لکھ کتاباں پڑھ کے وی
مسجد مندر وڑ کے وی
بندہ جے کر بندہ نئیں
دوزخ اوندے جئیں!!