اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا‘ اس کا ڈر تھا ۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں جو کچھ ہوا اس کی کم از کم اس روز اس موقع پر توقع ہرگز نہیں تھی ۔
یہ اجلاس یمن میں پاکستانی فوجوں کو سعودی عرب کی مدد کے لیے بھیجنے کے سلسلے میں بلایا گیا تھا۔ امید تھی کہ چونکہ پاکستان ایک بڑی جنگ کا حصہ بننے جارہا ہے لہٰذا پورے ہائوس میں ایک سنجیدگی کا عالم ہوگا ۔ قوم سے ہر ماہ ایک تگڑی تنخواہ کے علاوہ درجنوں بے بہا سہولتیں مفت میں پانے والے کچھ احساس کریں گے‘ کچھ درد محسوس کرنے کی اداکاری کریں گے‘ کچھ آنسو بہائیں گے اور مجبوری کا رونا روئیں گے اور ایک طویل بحث ہوگی جس میں فیصلہ ہوگا کہ قوم کے بچوں کو وطن سے دور جنگ میں بھیجا جائے یا نہیں ۔ ایک ایسی جنگ میں جو پاکستان کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور لڑی جارہی ہے۔ کوئی بتائے گا کہ اس جنگ میں شریک ہونے کے کیا نتائج ہوں گے۔
پوری قوم اس لیے بھی پارلیمنٹ کے اس سیشن پر آنکھیں لگائے بیٹھی تھی کہ قوم کے بیٹوں کی زندگیوں اور موت کا فیصلہ ہونے والا تھا ۔ افغانستان کے بطن سے جنم لینے والے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے پیارے طالبان نے جس طرح پاکستان کے شہریوں کا لہو بہایا ہے وہ ابھی تک تازہ ہے۔ ابھی افغانستان کی جنگ کے اثرات باقی ہیں کہ اب کہا جارہا ہے کہ نہیں ابھی سعودی عرب کی جنگ لڑنی باقی ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس وقت سب کو جب بہت سے اہم سوالات کا جواب چاہیے تھا‘ پتہ چلا کہ وزیراعظم کے پاس تو اس سیشن کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ بتایا گیا کہ سری لنکا کے صدر تشریف لائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سب کو پتہ تھا کہ غیرملکی مہمان تشریف لائے ہیں تو سیشن سوموار کی بجائے منگل کو ہو سکتا تھا۔ اجلاس صبح کی بجائے دوپہر یا شام کو بھی شروع کیا جاسکتا تھا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم تک نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر خود افغانستان اور عراق میں فوجیں بھیجنے کا کیس پیش کیا تھا ۔ اس لیے اگر خورشید شاہ اور دیگر ارکان یہ توقع رکھ بیٹھے تھے کہ نواز شریف بھی اس طرح پارلیمنٹ کے اجلاس میں خود کھڑے ہوکر بتائیں گے کہ وہ اس جنگ میں کیوں شریک ہورہے ہیں‘ تو وہ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔
اب حال یہ ہوگیا ہے کہ نواز شریف پارلیمنٹ بھی تشریف لاتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ سب پر احسان فرما رہے ہیں۔ اس لیے جب وہ شام کو سیشن میں تشریف لائے تو طنزاً کہا کہ سنا ہے کہ آپ نے مجھے یاد کیا ہے‘ تو میں آگیا ہوں ۔ اس پر بھی تالیاں بجیں کہ حضور کی سواری تشریف لائی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا کہ نواز شریف قومی اسمبلی سے دور رہے ہوں اور ممبران کی خوش محبتی پر کبھی تشریف لائے ہوں تو سب کو احسان جتانے کے انداز میں کہا ہو کہ آپ نے یاد کیا تو میں آگیا ہوں۔ عمران خان کے دھرنے سے قبل وہ سات ماہ تک قومی اسمبلی ہی نہیں آئے تھے۔ تاہم اچانک کرسی خطرے میں لگی تو فوراً پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھ گئے اور دو ہفتوں تک بیٹھے ہی رہے۔ اب دھرنے کے بعد وہ پھر پارلیمنٹ سے دور رہنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے سینیٹ میں بھی ایک سال تک نواز شریف تشریف نہیں لے گئے۔ وہاں جب سینیٹرز نے قانون میں تبدیلی کر کے وزیراعظم کے لیے ضروری کر دیا کہ وہ سینیٹ میں ایک دفعہ تشریف لایا کریں گے تو سینیٹ گئے اور یہی بات کہی کہ سنا ہے‘ آپ لوگ مجھے یاد کر رہے تھے سو میں آگیا ہوں ۔ سینیٹ میں اپوزیشن اور حکومت نے ایک دوسرے پر کچھ مزاحیہ جملے کسے اور سارا معاملہ ایسے لگا جیسے کسی نے سینیٹ میں جا کر ایک ذاتی احسان کیا تھا۔ سب نے کھڑے ہو کر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ اس کے بعد اب پانچ ماہ سے زائد وقت گزر گیا ہے وہ دوبارہ سینیٹ میں نظر نہیں آئے۔
اس لیے یہ سوالات پوچھنے بنتے ہیں کہ کیا اس اہم مشترکہ اجلاس کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا تاکہ لوگوں کی توجہ اصل ایشو سے ہٹ جائے؟ اور پوری قوم کو پاکستانی فوجی امداد کی بجائے تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی لڑائی میں مصروف رکھا جائے؟ یا پھر جو فیصلے پہلے ہی ہو چکے ہیں اس کے بعد ضرورت نہیں تھی کہ پارلیمنٹ بحث کرے؟ میاں صاحب آرمی چیف کے ساتھ بیٹھ کر سب کچھ طے کر چکے ہیں۔ سعودی عرب نے جو وش لسٹ پیش کی تھی اس پر عمل شروع ہوچکا ۔ باقی ایک رسمی سی کارروائی ہے۔ زرداری صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے معاملے میں میاں صاحب کا ساتھ دیں گے تو اس کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں باقی کیا رہ گیا تھا۔ اعتزاز احسن کو بھی اپنی تقریر کرتے ہوئے سب پتہ تھا۔ وہ محض ایک دفعہ پھر اچھی تقریر کرنے کا ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے خطاب فرما رہے ہیں ورنہ فیصلہ تو زرداری صاحب کر ہی چکے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ جو سوالات وہ اٹھا رہے ہیں کہ کس قیمت پر فوج سعودی عرب کو بھیجی گئی تھی‘ ان کے جوابات انہیں کبھی نہیں ملیں گے کیونکہ زرداری صاحب پہلے ہی منظوری دے چکے ہیں۔ اس کے بعد ایک تقریری مقابلہ ہے جو جاری رہے گا جیسے پارلیمنٹ کے پچھلے مشترکہ اجلاس میں دیکھنے میں آیا تھا جب عمران خان کا دھرنا جاری تھا۔
خواجہ آصف صاحب کی توپوں کا رخ تحریک انصاف کی طرف دیکھ کر خیال آیا کہ جس پارلیمنٹ کی وجہ سے وہ آج وزیراعظم اور وزیر ہیں‘ نہ جانے کیوں اسی کی توقیر میں خود ہی کمی کر رہے ہیں۔ خیر‘ عمران خان کا اس پورے معاملے میں فائدہ ہی ہوا۔ تحریک انصاف مظلوم بن کر ابھری ۔ عمران خان نے ایک طرح سے میرے جیسے صحافی ناقدین کے منہ بند کر دیے کہ جو کہتے تھے کہ پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے لیں‘ جو ایشوز پارلیمنٹ کے فورم پر حل ہوسکتے ہیں وہیں جا کر حل کریں‘ دھرنے بند کریں اور اپنا کردار ادا کریں ۔ جب عمران خان میڈیا، عوام اور سیاستدانوں کی بات سن کو پارلیمنٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں تو پلان ہی کچھ اور تھا ۔ اسحاق ڈار نے یہ شرط رکھی تھی کہ تحریک انصاف اب عدالتی کمشن بننے کے بعد دوبارہ پارلیمنٹ جائے گی۔ یوں تحریک انصاف کو فیصلہ کرنا پڑ گیا تھا اس لیے وہ پارلیمنٹ دوبارہ پہنچ گئی۔ تو کیا اسحاق ڈار دراصل شکار کو پارلیمنٹ تک ہانک کر لائے تھے اور پھر شکاریوں نے گھات لگا کر نشانے لگائے؟
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم خواجہ آصف کے ذریعے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ کیونکہ جب خواجہ آصف نے اپنا غصہ نکالا تو سب موجود تھے۔ وزیراعظم موجود تھے۔ اجلاس کے بعد کسی چینل کے رپورٹر نے زیادہ سمجھدار ہونے کی کوشش فرمائی اور اپنی طرف سے ایک خواہش کو خبر بن کر چلایا کہ میاں صاحب نے خواجہ آصف کو پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے خلاف تقریر پر سرزنش کی تھی ۔ اس پر وزیراعظم ہائوس نے باقاعدہ ایک بیان جاری کیا کہ یہ خبر غلط تھی۔ وزیراعظم نے خواجہ آصف کو کچھ نہیں کہا تھا ۔
اس کا کیا مطلب لینا چاہیے؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ میاں صاحب کو علم تھا کہ یہ سب کچھ ہوگا‘ لہٰذ ا انہوں نے فوراً تردید کرائی کہ کہیں اس جھوٹی خبر سے خواجہ آصف دل نہ ہار بیٹھیں کیونکہ ان کی پھر ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ ہے ہمارے وزیراعظم کی اصلی اور نسلی جمہوریت کی ایک جھلک...!
ویسے اب یہ بات میڈیا میں باہر نکل رہی ہے کہ دراصل وزیراعظم ہائوس میں روزانہ ناشتے کی میز پر کچھ تیز اور غصیلے عہدے دار اکٹھے ہوتے ہیں۔ گزشتہ رات کے ٹاک شوز میں اپنے ان شیروں کی شرکت اور کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کس نے کیا کہا اور کیسے منہ توڑ جواب دیا۔ جس نے ٹی وی شوز پر سب سے زیادہ شورشرابہ کیا ہوتا ہے‘ دوسری پارٹیوں کے شرکاء کو زیادہ ذلیل کیا ہوتا ہے اس کے لیے باقاعدہ تالیاں بجوائی جاتی ہیں۔ وہ تالیاں وہاں بیٹھے دوسروں کے لیے ہلہ شیری ہوتی ہیں کہ اگر وہ بھی ٹی وی شوز پر اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے لیے بھی تالیاں بجیں گی۔ آپ جتنے بھی نواز لیگ کے ایم این ایز کو شام کے ٹی وی شوز پر مسلسل لڑائی جھگڑا کرتے دیکھتے ہیں وہ دراصل ان تالیوں کا کمال ہے جو ہر صبح مارگلہ کے دامن میں واقع وزیراعظم ہائوس کے خوبصورت لان میں بیٹھ کر ناشتے کرتے ہوئے بجائی جاتی ہیں!
اب کی دفعہ تالیوں کے حقدار خواجہ آصف ٹھہرے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے لان میں بجنے والی ان تالیوں کی گونج سے ماشاء اللہ پورا پاکستان گونج اٹھا ہے !