ہمارے سیاسی ڈاکٹر آصف زرداری کو اچانک پتا چلا ہے کہ ان کا برخوردار میچور اور سمجھدار نہیں، اس لیے بہتر ہے وہ لندن میں رہے، وہ اس کے میچور ہونے کا انتظار کریں گے۔ بلاول کا ایک تحریری امتحان ہو گا، پریکٹیکل ٹیسٹ ہو گا اور پھر انٹرویو بورڈ بیٹھے گا‘ جس کی صدارت زرداری صاحب خود کریں گے۔ اس وقت کوئی باپ یا بیٹا نہیں ہو گا، ایک سیاستدان اپنے سیاسی وارث کا انتخاب میرٹ اور ٹیلنٹ کی بنیاد پر کرے گا۔ اگر باپ مطمئن ہوا تو گدی ٹرانسفر ہو گی ورنہ بختاور اور آصفہ کو موقع دیا جائے گا۔
میری بلاول کے بارے رائے میں مثبت تبدیلی اس دن آئی تھی جب کراچی کے ایک اچھی ساکھ انجوائے کرنے والے اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا تھا کہ ایک دن وہ بلاول ہائوس اجلاس میں شرکت کے لیے گئے‘ تو بلاول نے اپنے والد کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے لوگوںکو دیکھ کر چِڑ کے کہا کہ اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو آج یہ سب یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ اس افسر کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ زرداری صاحب ہر قیمت پر اس سے چھٹکارا چاہتے تھے‘ جبکہ بلاول اس ایماندار اور بہادر افسر کو ہر قیمت پر کراچی میں رکھنا چاہتے تھے۔ جب بلاول کو کوئی اور بات نہ سوجھی تو اس نے افسر سے کہا: اگر آپ جیسے لوگ بھی کراچی سے چلے گئے اور اسے دہشت گردوںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو پھر ہم سب کا کیا بنے گا؟ لوگ کہاں جائیں گے؟
افسر نے افسردہ انداز میں پوچھا کہ وہ کیا کرے؟ بلاول کی سوچ اور ہے اور ان کے ابا حضور جناب ڈاکٹر زرداری کچھ اور چاہتے ہیں۔ اس افسر نے بتایا: پہلی دفعہ سندھ حکومت میں کسی نے اس سے کافی دیر بحث کر کے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ کراچی میں کام کرے کیونکہ اس جیسے افسروں کی شہر کے امن کو ضرورت ہے۔ بلاول تمام تر کوششوں کے باوجود اس افسرکو اپنی پوسٹ پر نہ رکھ سکا‘ کیونکہ سندھ حکومت زرداری کے احکامات مانتی تھی، بلاول کی نہیں چلتی تھی۔ وہ افسر بیٹھا مجھے بلاول کی اچھائیاںگنوا رہا تھا کہ کچھ بھی ہو، کوئی ایک تو ایسا ہے جو اس کی ایمانداری اور مجرموں کے سامنے ڈٹ جانے کی قدر کرتا ہے۔ گویا اسے ابھی بلاول میںکچھ روشنی نظر آ رہی تھی۔
اب جب بلاول کے بارے میں یہ بیان دیا گیا تو مجھے یاد آیا کہ اس طرح کا ایک رُوٹ بلاول کے ماموں بھی لے چکے تھے‘ جب انہوں نے پاکستان سے باہر رہ کر جنرل ضیاء دور میں ایک مسلح جدوجہد شروع کی‘ لیکن جب مرتضیٰ بھٹو پاکستان لوٹے تو بہت دیر ہو چکی تھی، بہت سا انسانی خون مرتضیٰ بھٹو کے ہاتھوں کو لگ چکا تھا‘ جیسے شیکسپیئرکے ڈرامے کے ایک کردار لیڈی میکبتھ کے بقول ''پوری دنیا کے سمندر بھی مل کر اسے نہیں دھو سکتے‘‘۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔ بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور مرتضیٰ تاریک راہوں میں غائب ہو گیا۔ بلاول کے والد صاحب پاکستان کو لندن نہیں بنانا چاہتے۔ بلاول کو علم ہونا چاہیے کہ جاہل اور پس ماندہ لوگوں پر حکمرانی کے اپنے مزے ہوتے ہیں۔ بلاول کو پاکستان جیسے ملکوں سے پیسہ لوٹ کر بیرونی بینکوں میں رکھنے کا کمال سیکھنا ہو گا۔ ہر بڑے عہدے پر اپنے نالائق ترین دوستوںکو بٹھانا ہو گا، چاہے ملک ڈوب جائے۔ اگر بلاول نے اپنے والد صاحب سے ہٹ کر کچھ کرنے کی کوشش کی تو پھر وہ اپنے ماموں کو ذہن میں رکھیں کیونکہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو بنی تھیں نہ کہ مرتضیٰ، یعنی سیاسی وراثت کی حق دار بینظیر بھٹو ٹھہری تھیں۔ اگر بلاول بھٹو اپنے والد کے فلسفہ سیاست کو فالو نہیں کرے گا‘ تو پھر آصفہ اور بختاور موجود ہیں‘ جن کو زرداری صاحب نے اپنے بیٹے کو پیغام دینے کے لیے لانچ کر دیا ہے۔ بلاول کے پاس آپشن ہے کہ وہ اپنے والد کی سیاسی فلاسفی سے بغاوت کرے اور نقصانات اٹھائے یا پھر وہی کرے جو روم میں کیا جاتا ہے۔
بلاول کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کون سا سیاستدان ہے جس کے بیٹے نے مال نہ بنایا ہو‘ سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال نہ کیا ہو، بینکوں کو نہ لوٹا ہو اور پھر بھی وہ ہمارا لیڈر نہ ٹھہرا ہو۔ اس لیے اگر اس نے اپنے آپ کو اس سانچے میں نہ ڈھالا تو اس کا حال بھی وہی ہو گا جو بینظیر بھٹو کے بھائیوں کا ہوا تھا، جو جذبات کی رو میں بہہ کر بھٹو کی وراثت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بلاول بھٹو کو اپنے کارڈ سمجھداری سے کھیلنا ہوں گے۔ ان کے والد اور والدہ کے نام پر بہت جائداد ہے۔ اگر اس نے ڈاکٹر زرداری کے سیاست میں طے کردہ اصولوں اور اقوال زریں سے ہٹ کو کچھ کرنے کی کوشش کی تو وہ جائداد سے محروم ہو گا اور سیاسی وراثت سے بھی۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لہٰذا بلاول دل کا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، کل کلاں وراثت کا حق دار کوئی اور بن سکتا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو اور بلاول کا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلاول کو وہ ایڈوانٹیج حاصل نہیں جو محترمہ کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد حاصل تھا۔ محترمہ بینظیر پر باپ کا سایہ نہ تھا بلکہ ماں نصرت بھٹو ساتھ تھیں۔ یہاں بلاول ماں سے محروم ہو چکا ہے اور باپ کا سایہ موجود ہے‘ جو اسے اپنی مرضی کی سیاست نہیں کرنے دے گا‘ جیسے بینظیر کرتی رہیں۔ لندن میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی تقریب میں ڈاکٹر عاصم حسین کو بلاول کے اردگرد دیکھ کر مجھے بینظیر کے ''انکلز‘‘ یاد آئے‘ جو بچی سمجھ کر ان سے ڈیل کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کل کی بچی ہے، اسے سیاست کا کیا پتا۔ محترمہ بینظیر نے سب سے پہلے ان انکلز سے جان چھڑائی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے والد کو پھانسی کے پھندے تک لے جانے والے یہی انکلز ہیں‘ جو فائدے لیتے وقت تو بھٹوکے ساتھ تھے، لیکن پھانسی وہ اکیلا لگا۔
یہ بات بلاول کو بھی سمجھنا ہو گی، اگر اس نے اپنی ماں کا راستہ چننا ہے تو پھر اسے اپنے انکلز سے دور رہنا ہو گا‘ جو اس کے والد نے جان بوجھ کر اس کے گرد جمع کر رکھے ہوں گے اور جن کی وجہ سے اس کے نانا اور ماں کی پارٹی پانچ برسوں میں بدترین حالات کا شکار ہے۔ وہ کون سی کرپشن ہے‘ جس کے الزامات ان انکلز پر نہیں لگتے۔ جو انکشافات ذوالفقار مرزا نے آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی کراچی میں حکمرانی اور کرپشن کے حوالے سے کیے‘ اس کے بعد کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ میں سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ اگر کبھی عاصم حسین صاحب نے بھی ذوالفقار مرزا کی طرح زرداری صاحب کے بارے میں منہ کھولا تو کیا قیامت آئے گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر بلاول اپنے والد کے دوستوں سے تنگ ہے یا فیملی کے بڑے اسے نہیں چلنے دے رہے‘ تو وہ کیوں اپنی ماںکے راستے پر چلتے ہوئے انکلز سے دور نہیں ہو جاتا۔ جب انکلز بلاول کے گرد نظر آئیں گے تو پھر یہی کہا جائے گا کہ بلاول کوئی بڑی تبدیلی لانے میں ناکام رہے گا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ زرداری صاحب کی وہ کون سی توقعات ہیں‘ جو اپنے بیٹے سے پوری نہیں ہوئیں؟ بلاول کیا کرے؟ کیا وہ بھی کسی پولیس افسر کو بلا کر کہے کہ یار تُو کب
تک لڑتا رہے گا، تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، تمہیںکچھ ہو گیا تو تمہاری بچیوں کا کیا بنے گا؟ چھوڑو نوکری، تمہارا کسی کاروبار میں حصہ ڈالوا دیتا ہوں۔ وہ پولیس افسر حیرت زدہ ہو کر پاکستان کے سابق صدر کو دیکھتا رہاکہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
بلاول کو واقعتاً ابھی سیاست سیکھنے کی ضرورت ہے... کیسے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کیمروںکے سامنے مکرا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے، اس کا وعدہ قرآن کی آیت تو نہ تھی کہ بہت بڑا گناہ ہو گیا۔ بلاول کو یہ بھی سیکھنا ہے کہ ساٹھ ملین ڈالرز کیسے خاموشی سے پاکستان میں کمانے ہیں اور پھر انہیں سوئس بینکوں میں رکھنا ہے اور اگر اس پر شور مچ جائے تو کیسے برسوں سپریم کورٹ میں لڑائی لڑ کر اور اس دوران اپنے وزیر اعظم کو عہدے سے فارغ کرا کے اس پر پانچ سال تک سیاست میں حصہ لینے پر بھی پابندی لگوانی ہے۔
بھلا بلاول کیسے سیاست میں میچور ہو سکتا ہے‘ جب تک اس کے والد کے چند دوست ٹی چینل پر بیٹھ کر یہ نہ بتائیں کہ سابق صدر اور ان کے دوستوں نے سندھ کو کیسے لوٹا۔ باقی چھوڑیں بقول مرزا، سترہ شوگر ملز ہتھیالی ہیں۔ مرزا کہتے ہیں وہ اپنی دونوں ملیں پیش کرنے گئے تھے؛ تاہم انہوں نے پرانی دوستی کا خیال کرتے ہوئے صرف ایک شوگر مل اپنے پاس رکھ لی۔ بلاول کو ابھی یہ بھی سیکھنا ہو گا کہ فہمیدہ مرزا سپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر چوراسی کروڑ روپے کا بینک قرضہ معاف کرا لیں تو بھی انہیں سب سے بڑا عہدہ دینا ہو گا۔ بلاول کو ابھی سیکھنا ہے کہ آپ نے ان لوگوں کے دسترخوان پر بھی جانا ہے جو قوم سے آپ کو سرعام لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کریں۔
ٰیہ تو ایک جھلک ہے۔ پوری فلم بھی لکھی جا سکتی ہے کہ بلاول کو میچور ہونے کے لیے کیا کچھ سیکھنے، سمجھنے اور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو نے اگر اپنے والد کی گدی پر بیٹھنا ہے تو پھر اسے وہی کچھ کرنا پڑے گا جو روم میں رومن کرتے ہیں اور جو پاکستان میں ڈاکٹر زرداری اور ان کے جگری دوست کرتے آئے ہیں۔