"RKC" (space) message & send to 7575

ملتان کا ایک اور رخ…!

ملتان گیا تو تھا جمشید رضوانی کا دکھ بانٹنے لیکن پھر پرانی دوستیوں اور یادوں کا ایسا سلسلہ چل نکلا کہ لگا یہاں ایک دو دن کیا برسوں بھی رہوں تو بھی شاید ماضی کا سفر مکمل نہیں ہوگا ۔
شکیل انجم کے ساتھ جمشید رضوانی کے گھر گئے تو وہاں لیہ کے انفارمیشن کے بڑے افسر رانا اعجاز محمود بمع ریڈیو پاکستان کے نئے ڈائریکٹر آصف کھتران موجود تھے۔ رانا اعجاز ایک بڑے دانشور ہیں۔ میں انہیں مرشد کہتا ہوں ۔ ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جیسے انہوں نے 1993ء میں ڈانٹا تھا جب پہلی دفعہ ان سے لیہ میں ان کے دفتر میں ملاقات کے وقت ادب اور سیاست پر بحث ہوئی تھی۔ اپنے حلقہ احباب میں پاکستانی‘ عالمی یا قوم پرست سیاست پر ان سے زیادہ بہتر گفتگو شاید ہی کسی سے سنی ہو؛ تاہم اگر کسی نے واقعی اپنے آپ کو ضائع کیا ہے تو وہ بھی رانا اعجاز محمود ہی ہیں۔ اگر لاہور یا اسلام آباد میں ٹک جاتے تو شاید آج بڑے دانشور اور سیاسی تبصرہ نگار شمار ہوتے۔ سرکار کی نوکری نے رانا صاحب کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ وہ سرکاری افسر کم اور اور دانشور زیادہ ہیں۔ وہ سرائیکی علاقوں میں بسنے والے ان پنجابیوں کی نسل سے ہیں جنہوں نے ہجرت کے بعد اس علاقے میں اپنے آپ کو مہاجر نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی سرائیکیوں کو کم تر سمجھا بلکہ اپنے بزرگوں کے خیالات سے بغاوت کر کے وہ سرائیکی صوبے کے حامی رہے اور سرائیکی بھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ہمارے پرانے دوست شاکر حسین شاکر بھی جمشید کے گھر موجود تھے۔ شاکر سے پہلا تعارف1992ء میں ہوا تھا جب یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ملتان کینٹ میں ان کی دکان سے کتابیں خریدنے گئے تو پتہ چلا جیب میں پیسے کم ہیں ۔ شاکر نے کبھی کسی گاہک کو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں جانے دیا۔ پھر ایک سلسلہ چل پڑا ۔ ہم پندرہ دن بعد شاکر حسین شاکر کی کتابوں کی دکان پر جاتے، اردو‘ انگریزی یا فرانسیسی اور روسی ادب کے انگریزی تراجم خریدتے۔ پہلے ایک ناول پر دس فیصد سے لے کر بیس فیصد تک رعایت کراتے‘ پھر کہتے کہ اب ادھار رہا۔ اگلی دفعہ کوشش کرتے کہ نقد کتاب خریدی جائے تاکہ شاکر کو یاد ہی نہ رہے کہ ابھی پچھلا ادھار رہتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مسکرا کر پیسے گنتا، خود ہی رعایت کرتا اور باقی پیسے واپس کر دیتا ۔ اس کی مسکراہٹ سے سب پتہ چل رہا ہوتا کہ اسے علم ہے‘ ہم کیا کرتب کر رہے ہیں ۔
شاکر‘ جمشید رضوانی کے گھر سے ہم سب کو اپنے گھر لے گیا اور کافی دیر تک چائے کے ساتھ ساتھ ملتان اور ملتان سے جڑی چیزوں پر باتیں ہوتی رہیں۔ شاکر اورملتان کے ایک اور بڑے ادیب اور شاعر رضی الدین رضی نے ادب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ میں رضی الدین رضی کی نثر کا بڑا مداح ہوں۔ کیا کمال کا فقرہ لکھتے ہیں ۔ ملتان سے محبت ان کی روح میں رچ بس گئی ہے۔ ملتان پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد واپسی پر جہاز ہی میں ان کی ایک کتاب ''رفتگانِ ملتان‘‘ ختم کی اور دوسری ''وابستگان ملتان‘‘ کو رات گئے ختم کیا۔ کیا کمال کی تحریر ہے؛ تاہم سب سے زیادہ حیرانی اپنے پرانے دوست سجاد جہانیاں کے تین ناولٹوں پر مشمل کتاب ''عورت کتھا‘‘ دیکھ کر ہوئی کہ ملتان کے ادیبوں اور شاعروں نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے۔ سجاد جہانیاں سے توقع نہ تھی کہ وہ تین ناولٹ لکھے گا ۔ کالم تو وہ اچھے لکھتا رہا ہے لیکن ناول؟ میرے لیے حیران کن بات تھی۔
اگرچہ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کے ادیبوں نے کبھی ملتان کے ادب اور ادیبوں کو وہ جگہ نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے لیکن ادب اب بھی وہاں لکھا جارہا ہے۔ اسلام آباد کے لٹریری فیسٹیول میں ڈھونڈ کر سرائیکی، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو ادیبوں کی کتابیں خریدیں ۔ کچھ کے تراجم خریدے کہ ذرا پتہ تو چلے ہمارے قومی زبانوں کے ادیب کہاں پہنچے ہیں کیونکہ ٹی وی اور اخبارات سے تو لگتا ہے کہ ادیب بس لاہور، کراچی اور اسلام آباد ہی میں پیدا ہوتے ہیں‘ باقی کسی کو تو لکھنا ہی نہیں آتا۔ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ ان شہروں کے ادیب بھی کب کے ختم ہوچکے۔ اب سب سیاسی کالم لکھتے ہیں کیونکہ اس سے پیسہ بھی ملتا ہے اور مشہوری بھی اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے قریب ہونے کا موقع۔ لہٰذا اب ادب کون لکھے!
شاید سرائیکی ہونے کی وجہ سے میرے اندر تعصب ہے‘ اس لیے لکھنا پڑ رہا ہے کہ سرائیکی ادیب اور شاعر سب سے زیادہ مشکل حالات میں ادب تخلیق کر رہے ہیں ۔ انہیں کوئی پبلشنگ ہائوس گھاس نہیں ڈالتا۔ سرائیکی ادیب اور شاعر کو اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹنا پڑتی ہے؛ تاہم سرائیکی شاعروں کو انگریزی کا کوئی مترجم مل جاتا تو شاید اشو لال، رفعت عباس، عزیز شاہد اور شاکر شجاع آبادی جیسے شاعر آج دنیا بھر میں جانے اور مانے جاتے۔
شاکر حسین شاکر کے گھر سرائیکی دانشور ظہور دھریجہ کی سرائیکی میں لکھی کتاب ''سرائیکی اجرک‘‘ دیکھی تو دل للچا گیا اور ان سے مانگ لی۔ شاکر نے کئی اور کتابیں بھی دیں جن میں مسیح اللہ جام پوری کی ''نگار خانہ‘‘ بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب ''میرے زمانے کا ملتان‘‘ نے توجہ کھینچ لی۔ فاروق انصاری کی کتاب پرانے ملتان کی روایتوں کے بارے میں ہے۔ اس میں جو منظر کشی کی گئی ہے‘ اسے پڑھنا اپنی جگہ ایک خوبصورت رومانس سے کم نہیں۔ مسیح اللہ جام پوری بھی ملتان کا ایک خوبصورت کردار ہیں ۔ ساری عمر صحافت کی ۔ اس کے علاوہ انہیں اور کوئی کام آتا ہی نہیں۔ مسیح اللہ کی شخصیت پر پورا کالم درکار ہے جو ادھار رہا۔
سب سے بڑی بیٹھک اختر قریشی کے گھر پر جمی۔ اختر قریشی ہندوستان کے علاقے روہتک سے ہجرت کر کے ملتان آن بسے۔ وہ آج کل ملتان صوبے کے حوالے سے تحریک چلائے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ رانا تصویر بھی ہیں۔ وہاں بحث طویل ہوگئی۔ اختر قریشی اتنی خوبصورت سرائیکی بولتے ہیں کہ اگر وہ خود نہ بتاتے کہ وہ روہتک سے آئے ہیں تو میں کبھی یقین نہ کرتا ۔ اختر قریشی کو سرائیکی قوم پرستوں سے شکایت تھی کہ وہ انہیں اپنا نہیں سمجھتے۔ ماضی میں کچھ سرائیکی قوم پرستوں کی طرف سے دیے گئے بیانات سے اردو سپیکنگ اور پنجابی سپیکنگ کی نئی اور پرانی نسلوں میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ اگر سرائیکی صوبہ بنا تو وہ ان مہاجروں کی جائیدادیں چھین کر انہیں اس خطے سے نکال دیں گے۔ ان بیانات کا خاصا نقصان ہوا تھا کیونکہ سرائیکی علاقوں میں رہنے والے پنجابیوں اور اردو سپیکنگ نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تخت لاہور کے ساتھ جڑنے میں عافیت سمجھی اور یوں سرائیکی علاقوں میں ایک علیحدہ صوبے کی تحریک میں وہ جان نہ پڑ سکی جو پڑنی چاہیے تھی۔ سرائیکیوں اور نان سرائیکیوں کی اس لڑائی کا فائدہ تخت لاہور کو ہوا جنہوں نے اس تقسیم سے فائدہ اٹھایا اور یوں سرائیکی علاقوں میں کبھی ترقی نہ ہوسکی۔ چند سیاسی خاندانوں کو
طاقت دے کر کہا گیا کہ جناب اب آپ جانیں اور آپ کا کام ۔ہر دفعہ مختلف منصوبوں کے لیے رقوم رکھی گئیں لیکن جب ریلیز کرنے کا وقت آیا تو لاہور کے بیوروکریٹس نے وہ رقوم ریلیز نہ کیں۔ یوں سرائیکی علاقوں کے چند خاندانوں کو تو اقتدار ملا لیکن پنجاب کے نوسو ارب روپے کے این ایف سی سے اگر سرائیکی علاقوں کو چند ارب روپے ملے بھی تو اس میں سے زیادہ پیسے ٹی وی اخبارات میں ڈھول پیٹنے پر اڑا دیے گئے کہ دیکھو کتنا بڑا احسان کر دیا ہے۔ تخت لاہور نے ہمیشہ سرائیکی علاقوں میں رہنے والے پنجابیوں اور اردو سپیکنگ کے خدشات پر سیاست کی اور سرائیکی قوم پرست بھی اس جال میں پھنس گئے اور یوں سرائیکی علاقے آج تک محرومی بھگت رہے ہیں ۔
دوسری طرف سرائیکی قوم پرستوں کا شکوہ ہے ۔ ان علاقوں میں رہنے و الے دانشور ہوں یا عام سیٹلرز‘ لفظ سرائیکی سے چڑتے ہیںاور ہر جگہ وہ جنوبی پنجاب کا لفظ لکھ یا بول کر ان کی شناخت سے انکاری ہوجاتے ہیں ۔ یوں اس لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہاولپور، ملتان اور ڈی جی خان کے علاقوں کی پسں ماندگی بڑھتی چلی گئی۔ صرف دوتین بڑے شہروں میں سڑکیں بنانے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا؛ تاہم پچھلے کچھ عرصے میں تبدیلی آئی ہے۔ اب پنجابی اور اردو سپیکنگ مہاجر بھی سمجھ گئے ہیں کہ انہیں تخت لاہور سے کچھ نہیں ملے گا ۔ سرائیکیوں میں بھی یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ جب تک اس علاقے میں رہنے والے سیٹلرز کو بھی اس تحریک میں شامل نہیں کیا جائے گا ‘ علیحدہ صوبہ نہیں مل سکے گا‘ اور ان سیٹلرز کو بھی احساس ہوا ہے کہ انہیں اور ان کی نئی نسلوں کو علیحدہ صوبے کی ضرورت ہے وگرنہ وہ غربت اور پس ماندگی میں پستے رہیں گے۔ اس لیے اختر قریشی اور رانا تصویر جیسے لوگ اب ملتان صوبہ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ شاید ہندوستان سے آنے والی نسلوں کو اب احساس ہوگیا ہے کہ ان کی تو جیسے تیسے گزر گئی ان کی نئی نسلوں کا ایسے گزارہ نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں