لگتا ہے زندگی رک گئی ہے۔
کہیں جانے کو دل نہیں کرتا ۔ خبر کی تلاش میں پرندے کی طرح اپنا گھونسلا چھوڑنا پڑتا ہے‘ ورنہ بس چلے تو سارا دن گھر پر رہوں... کوئی نئی کتاب ، نیا ناول ، نئی کہانی، نئی فلم... بچوں کو ہوم ورک میں مدد کر دی... ارشد شریف اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ دوپہر کا کھانا اور گپ شپ‘ بس... ویک اینڈ پر بچوں کے ساتھ سینما میں فلم دیکھ لی... یہ ہے ساری کہانی۔
کبھی اسلام آباد میں سب سے ملنے کو جی چاہتا تھا ۔ بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات کا شوق تھا ۔ ہم دیہاتی جلد ہی سب کو دوست سمجھ لیتے ہیں ۔ پتہ چلا دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ اگر بڑے لوگوں سے تعلقات رکھنے ہیں تو پھر ان کی کہانیوں پر پردہ ڈالنا پڑے گا ۔ محفل کے آداب سیکھنے ہوں گے۔ لبوں پر خاموشی کی مہر لگانا ہوگی ۔ ہاں ضرورت پڑنے پر آپ کا بھی خیال رکھا جائے گا ۔ اگر آپ کی پہلی اور آخری ترجیح خبر ہے تو پھر آپ اس حلقے سے باہر ہوجائیں گے۔ ہاں کسی دن وہ بڑے صاحب اپنی مرضی کی کوئی خبر آپ سے پلانٹ کرائیں گے اور آپ کو کرنی ہوگی‘ ورنہ پھر یاری تو نہ ہوئی ۔
پتہ چلا سوشل لائف اس وقت ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے جب آپ کو پتہ چلتا ہے جن کو آپ دوست سمجھ رہے تھے وہ دراصل بڑا مال بنانے میں مصروف ہیں اور آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ ان کے گند پر پردہ ڈال کر رکھیں گے۔ اگر وہ خود کوئی غلط کام نہیں کر رہے تو پھر ان کے دوست کررہے ہیں ۔ وہ آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ ان کے دوستوں کا بھی خیال رکھیں ۔ کسی نے کھانا بھی کھلا دیا تو ایک بوجھ کندھوں پر ڈال دیا کہ اب تو نمک حلالی کرنی ہی ہوگی۔
ایک دن سوچا کس چکر میں پڑ گئے ہیں ۔ کیوں دشمن پال لیے ہیں۔ کتنوں سے دوستیاں خراب کرو گے۔ شہر میں رہنا ہے۔ کب تک گھر میں بند رہو گے۔ تو پھر کیا کریں؟ کمپرومائز کریں۔ دل کو سمجھائیں جناب سب چلتا ہے۔ ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ جنون سب محسوس کرتے ہیں۔ سب کے اندر آگ لگتی ہے۔ سب کے دل جلتے ہیں۔سمجھدار اپنے آپ کو آگ سے دور رکھتے ہیں ۔ کچھ پروانے جو یہ سبق یاد نہیں کرتے وہ اسی آگ میں جل مرتے ہیں‘ جس کی پرستش کر رہے ہوتے ہیں ۔ جس آگ سے محبت کرتے ہیں وہی انہیں جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور پروانے پھر بھی جلتے رہتے ہیں اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا پاگل پن ہے۔
چھوڑیں ان باتوں کو۔ ایک دن ٹی وی پر ایک صاحب کا انٹرویو سن رہا تھا۔ ان سے پوچھا گیا: زرداری صاحب کو کتنی دولت چاہیے؟ بولے انہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے‘ سب کچھ چاہیے۔
لیو ٹالسٹائی کا افسانہ یاد آیا کہ ایک انسان کو مرنے کے بعد کتنی زمین دفن ہونے کے لیے چاہیے؟
دبئی کے ہیلو میگزین کو لیگل نوٹس بھیج دیا گیا کہ زرداری صاحب کی شادی کی جھوٹی خبر کیوں شائع کی اور میگزین نے خبر جھوٹی ہونے پر معذرت کر لی۔ صدرالدین ہاشوانی صاحب نے ایک کتاب لکھی‘ جس میں انہوں نے زرداری صاحب پر سنگین الزامات لگائے۔ اس پر زرداری صاحب نے ان پر عدالت میں مقدمہ کر رکھا ہے۔ ذوالفقار مرزا مسلسل بول رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کیوں اسے کسی عدالت میں کوئی لے کر نہیں جاتا۔ میرے مہربان فاروق نائیک بھی انہیں کوئی لیگل نوٹس نہیں بھیجتے۔ ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ نہیں کرتے؟ کوئی پیپلز پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نہیں بلا رہا‘ جہاں سیاسی وڈیرے بیٹھتے ہیں تاکہ چیئرمین سے پوچھا جائے‘ جناب! یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔ اگر الزام لگانے والا جھوٹا ہے تو پھر آپ وہی
کام کریں جو ہیلو میگزین اور ہاشوانی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بصورت دیگر وہ جو پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ نکسن جیسے امریکی صدر تک کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ برطانوی وزیرخارجہ جیک سٹرا پر الزام لگتا ہے تو اسے عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ جنوبی کوریا کے وزیراعظم کو کرپشن الزامات پر مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ جاپان کے وزرا تک کو خودکشی کرنی پڑتی ہے۔ بڑے عہدے کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ بڑے ہونے کے فوائد تو سب لیتے ہیں‘ لیکن اس سے جڑے غم لینے کو کوئی تیار نہیں۔
اعتزاز احسن جرأت کر کے بھٹو کے خلاف استعفیٰ دے سکتے تھے‘ جب وہ بھٹو دور میں لاہور کے وزیر تھے اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی تو آج انہیں کیا ہوگیا ہے؟ زرداری صاحب اعتزاز صاحب پر بھٹو سے بھی زیادہ بھاری ہوگئے ہیں؟
چلیںمان لیتے ہیں پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا ہے۔ آج اعتزاز احسن استعفیٰ نہ دیں‘ لیکن جرأت کر کے پوچھ لیں کہ جناب زرداری صاحب میں ایک لیگل نوٹس مرزا کو بھجوا رہا ہوں کہ اپنے جھوٹے الزامات پر معافی مانگو ورنہ ہاشوانی کی طرح عدالت لے جائیں گے؟ ہو سکتا ہے فاروق نائیک زرداری صاحب کے دوسرے مقدمات میں بہت مصروف ہوں‘ لہٰذا اعتزاز احسن ہی وقت نکال لیں۔ چلیں مان لیتے ہیں رضا ربانی اب چیئرمین سینیٹ ہیں۔ ان کے لیے اس طرح کا نوٹس بھیجنا قانونی طور پر ممکن نہیں لیکن وہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ زرداری صاحب سے پوچھ کر اپنے چیمبر کے وکیل کے ذریعے ہی ایک نوٹس ڈلوا دیں!
ربانی صاحب کسی پارٹی اجلاس میں کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ سر آپ پر الزامات لگے ہیں۔ آپ ہمیں اجازت دیں ہم الزام لگانے والے کو اربوں روپے کا نوٹس بھیجتے ہیں اور اس کی جائیداد کی قرقی کرالیں گے کیونکہ وہ ان تمام الزامات کو عدالت میں ثابت نہیں کر پائے گا‘ کیونکہ آپ تو معصوم ہیں۔
چلیں مان لیتے ہیں فاروق نائیک، رضا ربانی، اعتزاز احسن سب مصروف ہیں یا ان کی کوئی مجبوریاں ہیں تو میرے پیارے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کیوں چھلانگ نہیں لگاتے؟ وہ آج کل فارغ ہیں... وہ پہلے ایک لیگل نوٹس تحریر کریں۔ اسے الزام لگانے والے کے گھر پر بھجوا کر پھر زرداری صاحب کو فون کریں کہ جناب میری غیرت کا تقاضا تھا جو میں نے پورا کر دیا‘ اپنے پارٹی چیئرمین کے خلاف گھنائونے اور سنگین الزامات کی وجہ سے رات کو سو نہیں پارہا تھا‘ مجھے پتہ ہے آپ فرشتہ صفت ہیں اور ایسی حرکتوں کے مرتکب نہیں ہوسکتے جن کے بارے میں الزام لگانے والا بول رہا ہے لہٰذا میں نے اپنی طرف سے اسے نوٹس بھیج دیا ہے۔
سب خاموش ہیں... سب الزام عائد کرنے والے کو سن رہے ہیں ۔ سب سر دھن رہے ہیں۔ اپنے اپنے قیافے لگا رہے ہیں کہ ایک شخص مسلسل الزام کیوں عاید کر رہا ہے۔ تو کیا اس وجہ سے ان سنگین الزامات کو بھول جائیں کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے؟
اگر یہ سب لوٹ مار، کرپشن، جرائم، قتل و غارت ان سیاستدانوں کا ذاتی مسئلہ ہوتے ہیں تو پھر ریاست کا کیا مقصد ؟ اگر میری ہمسائے کے ساتھ ذاتی لڑائی ہے تو پھر میں اس کے ساتھ جو چاہوں سلوک کروں، ریاست کا سپاہی مجھے گرفتار کرنے کیوں آئے؟
مان لیں‘ ہمارا قانون انسان کا رتبہ اور منہ دیکھ کر انصاف کرتا ہے۔ طاقتور کے ساتھ قانون کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے غریب کے ساتھ کچھ اور۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور کلیدی کرداروں اور سول سوسائٹی کی خاموشی سے لگتا ہے ہمارا جسم مردہ ہوچکا ہے۔
تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور شفقت محمود بلاول ہائوس جا کر جناب زرداری کی سربراہی میں اجلاس میں اس دن شریک ہوتے ہیں جب ایک رات پہلے ان پر الزام عاید کیے گئے۔ غالباً تحریک انصاف کے نزدیک یہ بھی پیپلز پارٹی کا اندرونی معاملہ اور دو دوستوں کے درمیان ناراضگی ہے۔
جاتے جاتے ایک اور سن لیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف سے مل کر درخواست کی کہ ان کی ایف آئی اے سے جان چھڑائی جائے جو سات ارب روپے کی انکوائری مکمل کر چکی تھی۔ نواز شریف نے گیلانی کے خلاف انکوائری کراچی سے اسلام آباد تبدیل کرنے کا حکم دیا ۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بھی وزیراعظم ہائوس سے فون آنے کے بعد چوہدری نثار کو بتائے بغیر تبدیلی کردی۔ جب ایک ماہ بعد چوہدری نثار کو پتہ چلا تو وہ ڈی جی ایف آئی اے پر برس پڑے اور خوب برسے کہ کیوں گیلانی کی انکوائری ان سے پوچھے بغیر تبدیل کر دی۔ کاش اتنا غصہ چوہدری نثار علی خان وزیراعظم ہائوس کے اس طاقتور کشمیری بابو پر بھی کرتے‘ جس نے براہ راست ڈی جی ایف آئی اے کو وہ انکوائری بدل کر گیلانی کی مدد کرنے کا حکم دیا تھا۔
لگتا ہے چوہدری نثار بھی کمزوروں پر ہی گرجتے برستے ہیں ۔ چڑھائی کی طرف چڑھتے ہوئے ان کا بھی سانس پھول جاتا ہے۔ چاہے وہ راستہ اعتزاز احسن کی طرف جاتا ہو یا پھر وزیراعظم ہائوس کے کشمیری بابو کی طرف!