"RKC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر سعید احمد باجوہ کا جُرم!

روزنامہ دنیا میں اتوار کے روز چھپی ایک خبر نے توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ۔ غور سے خبر کو دوبارہ پڑھا ۔ ساتھ میں ایک تصویر بھی لگی ہوئی تھی۔ امریکی عدالت نے ڈاکٹر سعید باجوہ پر لگے الزامات مسترد کر دیے۔ خبر میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر سعید باجوہ نیوروسرجن کو بغیر ڈیکلریشن کے‘ پاکستان رقم بھیجنے پر جو تین برس قید اور دس لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنانے کی سفارش کی گئی تھی‘ اب امریکی عدالت نے اس سفارش کو مسترد کر کے ڈاکٹر باجوہ کو باعزت بری کر دیا ہے۔ ڈاکٹر باجوہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے چودہ برس قبل صادق آباد میں غریب بچوں کا سکول بنانے کے لیے پانچ ہزار ڈالر بھجوائے تھے جو انہوں نے اپنی آمدن میں ظاہر نہیں کیے تھے۔ اس پر ان کے خلاف انکوائری شروع ہوئی اور اب کہیں جا کر ان کی جان اس مقدمے سے چھوٹی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ سارا مقدمہ ایک غلط فہمی سے شروع ہوا اور ڈاکٹر باجوہ نے ایک طویل مقدمے کا سامنا کیا۔ ان پر سازش اور ٹیکس فراڈ کے الزامات لگے اور وہ چار سال تک مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔ ان کے ایک عزیز ان کے نوٹس میں لائے بغیر بے احتیاطی سے پانچ ہزار ڈالر پاکستان لے آئے‘ جس کاان پر مقدمہ بن گیا ۔ ڈاکٹر باجوہ اور ان کے کئی پاکستانی ساتھی پچھلے بیس برس سے پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں غریب بچوں کی تعلیم اور دیگر فلاحی منصوبوں کے لیے رقوم بھیج رہے ہیں۔
یہ خبر مجھے ایک سال پہلے لے گئی جب میں نیویارک میں میاں مشتاق احمد جاوید کے گھر لانگ آئی لینڈ میں ٹھہرا ہوا تھا ۔ بیوی کے علاج کے لیے امریکہ جانے سے قبل میرے بیٹے کی آنکھوں میں مسئلہ پیدا ہورہا تھا۔ پاکستان میں ڈاکٹروں سے چیک کرایا اور چھ ماہ تک علاج کراتا رہا ۔ تاہم آنکھوں میں پرابلم موجود رہا۔ اسلام آباد میں ایک نیورو ڈاکٹر کو دکھایا تو بھی
بات نہ بنی۔ ڈاکٹر احتشام قریشی کا اللہ بھلا کرے‘ انہوں نے ڈیلیور ریاست میں ایک قابل سکھ نیورو ڈاکٹر سے بڑی مشکل سے وقت لے کر دیا۔ اپوائنٹمنٹ سے پہلے نیویارک جانا ہوا تو باتوں باتوں میں مشاق احمد جاوید سے تذکرہ ہوا۔ وہ ہنس پڑے اور بولے، ''بادشاہو ہمارا اتنا بڑا پاکستانی نیوروسرجن جس کی پورے امریکہ میں عزت کی جاتی ہے بیٹھا ہے تو پھر آپ کہاں دھکے کھاتے پھرو گے‘‘۔ یوں پہلی بار میں نے ڈاکٹر سعید باجوہ کا نام سنا۔ اگلے دن مشاق صاحب نے اپنے بیٹے علی کو کہا‘ گاڑی نکالو ۔ میں اور میرا بیٹا ان کے ساتھ بیٹھے اور یوں ایک طویل لیکن خوبصورت سفر شروع ہوا۔ اتنی خوبصورت ڈرائیو اور مناظر شاید عمر بھر نہ بھولیں اور اوپر سے مشتاق صاحب سے کھلی گپ شپ۔ میرا خیال تھا کہ شاید گھنٹے کا سفر ہوگا لیکن پتہ چلا کہ چار گھنٹے سے زائد لگیں گے؛ تاہم سفر کی خوبصورتی اور مشتاق صاحب کی مسکراہٹوں اور قہقہوں نے ہمیں تروتازہ رکھا ۔
راستے میں مشتاق صاحب بتانے لگے کہ نیوروسرجن ڈاکٹر سعید باجوہ رحیم یار خان کی دھرتی سے اٹھ کر امریکہ میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے والا ایک عجیب انسان ہے جس کے اپنے ملک اور وطن سے محبت کے کئی رنگ ہیں ۔ امریکہ میں ان کی قابلیت کو دنیا مانتی ہے۔ بتانے لگے ''آج تک سعید باجوہ کے اندر سے یہ بات نہیں نکلتی کہ ایک دن ان کے باپ نے کہا تھا‘ سعید بیٹا اتنا بڑا ڈاکٹر نہ بن جانا کہ غریب مریض تمہیں افورڈ نہ کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غریبوں کے لیے ان کے اندر ایک ہمدردی ہے اور پیار ہے‘‘۔ مشتاق صاحب کافی دیر تک ان کی باتیں بتاتے رہے۔باپ کی نصیحت کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب ڈاکٹر باجوہ نے ہسپتال کے ساتھ ایک معاہدہ کر رکھا ہے کہ پاکستان سے جو بھی مریض ان کے ہاں آئے گا اس کا خرچہ وہ پچاس فیصد لیں گے۔ پتہ چلا کہ مریض تو پاکستان سے آتے تھے لیکن ان کا اس شہر میں رہنے کا خرچہ زیادہ ہوجاتا تھا ۔ اس پر انہوں نے ہسپتال کے سامنے ایک عمارت کا بندوبست کیا تاکہ پاکستانی مریض اور ان کے لواحقین وہاں رہ سکیں۔
جب ہم اس چھوٹے سے خوبصورت قصبے میں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب انتظار کر رہے تھے۔ میں بھی پہلی دفعہ ان سے مل رہا تھا ۔ مشتاق صاحب نے میرا تعارف کرایا تو لگا کہ وہ نہیں جانتے۔ ان کا ٹی وی اور اخبارات سے تعلق کم تھا یا پھر انہیں وقت کم ملتا تھا۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا‘ یہ تھی کہ ایک سادہ انسان اپنے چھوٹے سے دفتر میں بیٹھا پچھلے کئی گھنٹوں سے ہمارا انتظار کر رہا تھا ۔ان کی میز پر ان کی ماں اور باپ کی پرانی تصویریں سب سے زیادہ واضح تھیں۔ شاید انہیں لگتا تھا کہ ماں باپ اب بھی انہیں دیکھ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا وہ رحیم یار خان چھوڑ ضرور آئے تھے لیکن اپنا قیمتی اثاثہ تصویروں کی شکل میں ہی سہیِ لیکن ہزاروں میل دور ساتھ لے آئے تھے۔ میں نے تصویروں کی طرف اشارہ کیا تو مسکرا پڑے۔ چہرے پر ایک عجیب سے اداسی ابھری جو اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب آپ کسی کو مس کر رہے ہوتے ہیں۔ بولے‘ اماں اور بابا ہیں۔
ہسپتال بند ہونے کے قریب تھا ۔ انہوں نے لیب میں فون کیا تو پتہ چلا بند ہونے والی تھی۔ ان سے درخواست کی کہ یہ دور سے آئے ہیں‘ فورا ٹیسٹ کریں‘ سکین کریں ۔ لیب کھل گئی۔ خود بھی ٹیسٹ لیے‘ معائنہ کیا ۔ لیب کو کہا جب تک رپورٹ نہیں آئے گی وہ گھر نہیں جائیں گے کیونکہ یہ لوگ بہت دور سے آئے ہیں۔ رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ اللہ کی مہربانی سے سب ٹیسٹ ٹھیک تھے۔ بولے‘ دوائی وہ بھیج دیں گے۔ کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا کہ خدا نے مہربانی کی تھی۔ احتیاطاً ایک اور ڈاکٹر کو فون کیا۔ اس کے ساتھ رپورٹس ڈسکس کیں۔ سب کچھ کلیئر تھا۔ کہنے لگے ''گھر چلیں‘ رات کو وہیں رہتے ہیں‘ صبح چلے جایئے گا‘‘۔ شکریہ ادا کیا اورلانگ آئی لینڈ واپسی کے لیے چل پڑے۔ چلنے سے پہلے میں نے مشتاق صاحب سے پوچھا کہ بل کی ادائیگی ؟ ڈاکٹر باجوہ مسکرا پڑے اور بولے بس دعا کیجیے گا۔ میرا خیال ہے سکین سے لے کر جتنے ٹیسٹ ہوئے‘ اس پر کم از کم پانچ ہزار ڈالر کا بل بننا چاہیے تھا‘ لیکن ڈاکٹر باجوہ نے ایک ڈالر بھی لینے سے انکار کردیا۔ ہم نے ہسپتال میں بل دینے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر باجوہ نے منع کر دیا تھا۔ مجھے یقین ہے انہوں نے اپنی جیب سے ان ٹیسٹوں کے پیسے ادا کیے ہوں گے۔
حیرانی ہوتی ہے‘ بعض دفعہ کیسے کیسے اچھے انسانوں کا خدا امتحان لیتا ہے اور پھر ایسے انسان سرخرو ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر باجوہ جیسے کئی اچھے لوگ امریکہ میں ملے جو پاکستان میں کئی پراجیکٹس کے لیے مدد دیتے رہتے ہیں۔ غریبوں کی مدد کرتے ہیں‘ جن میں اوکاڑہ کے دوست اکبر چوہدری بھی ہیں جنہوں نے عمران خان کے کینسر ہسپتال کے لیے کئی عطیات اکھٹے کیے۔ ایک اور نام جارجیا اٹلانٹا کے اعجاز احمد کا ہے جنہوں نے پاکستان میں کئی غریب مریضوں کی مدد کی۔ ڈاکٹر عاصم صہبائی بھی پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے لیے پیسے بھیجتے رہتے تھے۔
میں نے ایک کالم میں ڈاکٹر باجوہ کا ذکر کیا تو انہیں ان کے دوستوں نے فون کیے۔ مجھے فون کیا اور معذرت کرنے لگ گئے کہ سوری جب آپ میرے پاس آئے تھے تو میں آپ کو نہیں جانتا تھا۔ سوری میں شاید آپ کی مناسب مہمان نوازی نہیں کرسکا ۔ میں نے کہا‘ ڈاکٹر صاحب جتنا آپ نے کر دیا اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا۔ میں اپنے بیٹے کی پریشانی لے کر آپ کے پاس آیا تھا اور آپ نے سارے ٹیسٹ کر کے اسے ہیلتھ کی کلین چٹ دے دی تھی۔میرا ایک ڈالر بھی خرچ نہیں ہونے دیا تھا۔ اس سے زیادہ امریکہ میں کسی کی مہمان نوازی کیا ہوسکتی ہے۔ وہ پھر بھی معذرت کرتے رہے کہ شاید وہ میری مناسب مہمان نوازی نہ کر سکے تھے۔
اب جب ان کے بارے میں خبر پڑھی ہے کہ انہیں ان تمام جھوٹے مقدمات سے بری کر دیا گیا ہے تو دل کو ایک عجیب سا سکون ملا۔ ایک فخر سا محسوس ہوا اور اس بات پر اور بھی ایمان پختہ ہوا کہ خدا اگر اپنے پیاروں کو کسی امتحان میں ڈالتا ہے تو انہیں سرخرو بھی کرتا ہے۔ پتہ نہیں رحیم یار خان کی مٹی سے ابھرنے والے ڈاکٹر سعید باجوہ جیسے کتنے اور گمنام ہیروز ہیں جو اپنی دھرتی چھوڑ کر پردیس تو جا بسے ہیں لیکن اپنے علاقے کے غریب بچوں سے محبت ان کے اندر سے نہیں نکلتی اور اس دھرتی کا قرض اتارنے کے لیے وہ اپنی حلال اور محنت کی کمائی سے بچوں کے لیے اپنے علاقوں میں سکول بناتے رہتے ہیں‘ چاہے اس کے بدلے انہیں برسوں تک امریکی اداروں کی تحقیقات ہی کیوں نہ بھگتنی پڑے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں