ایک شریف اور روایتی ملتانی رفیق رجوانہ گورنر پنجاب لگے ہیں تو ہمیں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اب جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں کے تمام دکھ دور ہوں گے۔ تمام محرومیاں ختم ہوجائیں گی۔ اب نئے صوبے کی بات بھی دب جائے گی ۔رجوانہ صاحب بھی نہیں چاہیں گے کہ نیا صوبہ بنے کیونکہ وہ اب بارہ کروڑ عوام کے صوبے کے گورنر ہیں ۔ جس کو حصہ مل جائے‘ اس کے نزدیک اس علاقے کے دکھ دور ہوجاتے ہیں ۔
ان سے پہلے کھر، قریشی، مخدوم ، کھوسے گورنر رہے۔ ہمیں آج تک طعنے ملتے ہیں کہ انہوں نے اپنے علاقوں کے لیے کیا کیا؟ ویسے گورنر کر کیا سکتا ہے؟ اگر کوئی گورنر کچھ کرنے کی کوشش کرے تو اس کا حشر میاں اظہر اور چوہدری سرور جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے سرائیکی گورنر زیادہ سمجھدار نکلے اور انہوں نے کبھی ایسا روٹ ہی نہیں لیا۔ اپنے سیاسی آقائوں سے وفاداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام تو ہوتے ہی ناشکرے ہیں۔ کچھ بھی کرلو کبھی خوش نہیں ہوتے۔
ویسے دوماہ پہلے جب سینیٹ کے الیکشن ہورہے تھے تو جنوبی پنجاب سے سینیٹ میں پہلے سے رفیق رجوانہ ہوں، ذوالفقار کھوسہ یا محسن لغاری‘ سب چپ رہے۔ کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہ جناب جنوبی پنجاب سے تین مزید سینیٹرز لینے کی بجائے کراچی سے کیوں تین لوگ لا کر پنجاب اسمبلی سے سینیٹر بنوائے جا رہے ہیں؟ پنجاب اسمبلی میں سرائیکی علاقوں کے ایک سو سے زیادہ ایم پی ایز نے بھی احتجاج کرنے کی بجائے قطار میں کھڑے ہوکر ان امپورٹ کیے گئے نواز لیگ کے تین لیڈروں کو ووٹ ڈالے۔ اب ان تینوں سینیٹرز کو تقریبا پندرہ کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیے جا رہے ہیں جو ظاہر ہے‘ وہ کراچی لے جائیں گے۔
2013ء کے الیکشن کے بعد پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص سیٹوں میں سے 34 سیٹوں پر لاہور کی چند خواتین کو ایم پی ایز بنایا گیا تو بھی سب خاموش رہے۔کسی کے منہ سے ایک بھی آواز نہ نکلی کہ جناب پنجاب کے ہر ضلع کو ایک ایک خاتون ایم پی اے دے دیتے اور باقی بیس چاہے لاہور سے لے لیتے۔ نہیں لاہور سے ہی چونتیس ایم پی ایز خواتین اسمبلی بھیج دی گئیں اور اکثریت کا تعلق حکمرانوں کی برادری سے ہے۔
ویسے رفیق رجوانہ جیسے بندے نواز لیگ کو سوٹ کرتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کی رضا اور میاں نواز شریف کی خوشنودی پر سر جھکا کر جیتے رہیں اور انتظار کریں ایک دن ان کی قسمت کا ستارہ بھی چمکے گا۔
رجوانہ صاحب یقینا شریف انسان ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شریف آدمی جنوبی پنجاب کے مسائل حل کراسکتا ہے؟ رجوانہ صاحب سے میری اپنی پرانی یاد اللہ ہے لیکن میں گستاخی کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر ان کے دل میں جنوبی پنجاب کا دکھ ہوتا تو وہ اپنے کروڑوں روپے کا ترقیاتی فنڈ‘ جو انہیں وزیراعظم گیلانی نے ملتان کی ترقی کے لیے دیا تھا‘ میاں نواز شریف کے داماد کو مانسہرہ کی ترقی کے لیے نہ بھجواتے۔
گیلانی وزیراعظم تھے اور انہوں نے دیگر پارلیمنٹیرین کی طرح رجوانہ صاحب کو بھی کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز دیے۔ رجوانہ صاحب کیپٹن صفدر کے پاس حاضر ہوئے اور ملتانی انداز میں عرض کیا کہ سئیں میرے پاس چھوٹا سا تحفہ ہے۔ گیلانی صاحب نے مجھے جنوبی پنجاب کے ترقیاتی کاموں کے لیے کروڑوں روپے دیے ہیں‘ آپ مانسہرہ لے جائیں۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ جنوبی پنجاب کو ان فنڈز کی کیا ضرورت۔ وہاں تو پہلے ہی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہر طرف سڑکوں کا جال ہے۔ سکولوں کی چار دیواریاں بن گئی ہیں۔ ٹائلٹ لگ گئے ہیں۔ موٹرویز بن گئے ہیں۔ پورا جنوبی پنجاب پیرس اور لندن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔
رجوانہ صاحب ابھی اپنے ترقیاتی فنڈز دے کر نکلے تھے کہ بہاولپور سے ایک خاتون ایم این اے نے بھی اپنے کروڑوں روپوں کے ترقیاتی فنڈز مانسہرہ کی ترقی کے لیے پیش کر دیے جو خوشی کے ساتھ قبول کر لیے گئے۔ ظاہر ہے بہاولپور بھی نیویارک بن چکا تھا‘ لہٰذا وہاں ترقیاتی فنڈز کی کیا ضرورت تھی۔بہاولپور کے ترقیاتی فنڈز دینے کے باوجود اس خاتون ایم این اے کو 2013ء کے الیکشن کے بعد خصوصی سیٹ پر ٹکٹ نہ ملی۔ بہاولپور کی ایک اور خاتون ایم این اے زیادہ سمجھدار نکلی۔ انہوں نے بہاولپور کے ترقیاتی فنڈز کیپٹن صفدر کو دینے کی بجائے لکی مروت میں بیس لاکھ روپے کمشن لے کر بیچ دیے اور اب دوبارہ ایم این اے بھی بن گئی ہیں۔ اسے کہتے ہیں کاروبار کا کاروبار، سیاست کی سیاست۔ رفیق رجوانہ کے ساتھ ساتھ سینیٹر ظفر علی شاہ ، پرویز رشید، اسحاق ڈار نے بھی گیلانی صاحب سے ترقیاتی فنڈز لے کر مانسہرہ بھیجے۔ مجھے یاد پڑتا ہے اپوزیشن کے دنوں میں یوسف رضا گیلانی سرائیکی صوبے کے بڑے حامی تھے۔ جب وزیراعظم بنے تو ایک سوال کے جواب میں فرمایا‘ ابھی وقت نہیں آیا۔ پھر نئی حکمت عملی بنائی گئی کہ نواز لیگ کو دبائو میں لایا جائے تو سرائیکی صوبہ کی مہم شروع کی گئی ۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کا ہتھیار اسی پر استعمال کیا۔ انہوں نے سرائیکیوں کو کہا کہ آپ ایک صوبہ مانگتے ہیں؟ ہم آپ کو دو دیتے ہیں اور یوں بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کی قراردادیں منظور کرالیں۔ الیکشن ہوگئے تو سب کچھ بھول گئے۔ دو برس گزر چکے ہیں کسی نے بھول کر بھی نام نہیں لیا۔
2013ء کے الیکشن کے بعد اب تک کے دو برسوں میں پنجاب تقریبا پندرہ سو ارب روپے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت وفاق سے لے چکا ہے‘ جب کہ 2008ء کے بعد شہباز شریف حکومت پانچ ہزار ارب روپے این ایف سی کے نام پر لے چکی ہے۔ ان پانچ ہزار ارب میں جنوبی پنجاب کو کیا ملا؟ شمالی پنجاب کو کیا ملا؟ باقی چھوڑیں مرکزی پنجاب کے کس ضلع کو کیا ملا؟ ہاں جنوبی پنجاب کو ایک سو میگا واٹ کا سولر پلانٹ ملا ہے جو نیشنل گرڈ میں بجلی دے گا اور وہ آئی پی پیز سے بھی مہنگی بجلی پیدا کرے گا۔ اس سو میگا واٹ کی اندرونی کہانی خالد مسعود نے اپنے کالم میں لکھی ہے‘ جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے قوم کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔
جب بھی جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں کی پس ماندگی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ آپ کے اپنے لیڈر ہی ترقی نہیں کراتے تو ہم کیا کریں۔ تو جناب یہ بتائیں کہ آپ نے 2008ء کے بعد کتنے ارب روپے جنوبی پنجاب کے لیے بجٹ میں رکھے اور پھر یہ کہ کیا کر وہ ریلیز بھی کیے؟ کتنے وزیراعلیٰ سرائیکی علاقوں سے لیے گئے ہیں؟ آخری وزیراعلیٰ چالیس سال پہلے بھٹو
کے دور میں بنا تھا۔اس کے بعد سب وزیراعلیٰ لاہور اور گردونواح سے بنتے رہے ہیں۔ سندھ میں وزیراعلیٰ اندورن سندھ سے بنتا آیا ہے تاکہ اندرون سندھ احساس کمتری نہ ہو۔ گورنر کراچی سے لیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ بلوچ اور گورنر پختون لگایا جاتا ہے۔ پنجاب میں الٹاہورہا ہے۔ لاہور کے وزیراعلی اور زیادہ تر گورنر لاہور کے ہی لگتے رہے ہیں ۔ میاں اظہر، شاہد حامد مثالیں ہیں۔ گورنر سرور کو لندن سے لایا گیا ۔ ایک دفعہ بھی جنوبی پنجاب سے وزیراعلی نہیں لیا گیا کیونکہ ساری طاقت وزیراعلیٰ کے پاس ہوتی ہے نہ کہ گورنر کے پاس ۔ اگر میاں چنوں سے غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ بنایا بھی گیا تو اس کی جتنی طاقت تھی وہ سابق چیف سیکرٹری جیون خان نے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ سب فیصلے شہباز شریف کرتے اور رہے سہے وزیراعظم نواز شریف اسلام آباد سے ویک اینڈ پر آکر کرتے۔ غلام حیدر وائیں کو میاں چنوں میں ویک اینڈ گزارنے کے بعد واپسی پر بتا دیا جاتا کہ اگلا ہفتہ کیسے گزارنا ہے۔
ویسے جنرل ضیاء ملتان سے مخدوم سجاد حسین قریشی کو گورنر لائے تھے۔ وہ بھی رفیق رجوانہ کی طرح شریف انسان تھے۔ سجاد قریشی کے بارے میں مشہور تھا کہ جو بھی ملتانی ان سے ملنے گورنر ہائوس جاتا اور عرضی پیش کرتا تو‘ آگے سے وہ ہاتھ دعا کے لیے کھڑے کرتے اورفرماتے: '' اللہ کریسی‘‘۔ کیونکہ لاہور کی بیوروکریسی تو ان کی نہیں سنتی۔ اب دیکھتے ہیں ہمارے ایک اور ملتانی گورنر رجوانہ صاحب ملتانیوں کو کیا جواب دیتے ہیں ۔ دعا کے لیے ہاتھ کھڑے کرتے ہیں یا پھر مخدوم سجاد قریشی کی روایت سے ہٹ کر نیا نعرہ ایجاد کرتے ہیں۔ اب رجوانہ صاحب کو ملتان سے آئے ہوئے ''شودے‘‘ ملتانیوں کو سجاد قریشی کی طرح کوئی نہ کوئی لالی پاپ تو دینا ہی پڑے گا۔!جنوبی پنجاب کا علیحدہ صوبہ نہیں‘ تو لالی پاپ ہی سہی!