کیا کریں اور کہاں جائیں۔ محترم نذیر ناجی چاہتے ہیں کہ میں حکومت اور قطر حکومت کے درمیان ہونے والی ایل این جی گیس ڈیل کی کوئی اندرونی کہانی سامنے لائوں۔ ناجی صاحب ہمیشہ میرے لائے ہوئے سکینڈلز پر حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں۔ ہارون الرشید صاحب بھی دل کھول کر داد دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کے ان دو بڑے کالم نگاروں کی تعریف سے میں بھی پھول جاتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میرے پیسے پورے ہوگئے ہیں۔ باقی ان سکینڈلز پر کچھ ہو یا نہ ہو ان سے میری صحت پر اب کیا اثر پڑتا ہے۔
شاید نذیر ناجی صاحب کو یاد ہو گا کہ کچھ برس پہلے جب وہ عامر متین کے اسلام آباد میں مشہور زمانہ ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے‘ تو میں نے خوش ہو کر کہا تھا کہ میری فلاں اسٹوری پر ایکشن ہوا ہے۔ ناجی صاحب ہنس پڑے اور بولے‘ یہ ڈسٹرکٹ رپورٹر والی سوچ سے باہر نکلو کہ میری فلاں خبر پر فلاں وزیراعلیٰ،وزیر یا سیکرٹری یا وزیراعظم نے ایکشن لیا ہے۔
میں نے سوچا کہ بات تو نذیر ناجی صاحب درست کر رہے ہیں ۔ ہم رپورٹر ہیں ہمارا کام یہ ہے کہ خبر سامنے لائیں۔ اس پر کچھ کرنا نہ کرنا دیگر اداروں کا کام ہے۔ اگر وہ ادارے اپنا کام کریں تو کون سا احسان کرتے ہیں۔ اس کام کی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔
اکثر یہ طعنہ مجھے بھی سننا پڑتا ہے کہ آپ سکینڈلز فائل کرتے ہیں‘ رولا ڈالتے ہیں‘ شور مچاتے ہیں‘ آپ خود یہ دستاویزات لے کر عدالت کیوں نہیں چلے جاتے؟ حیران ہوتا ہوں کہ ہم کیا کیا ڈیوٹی دیں۔ پہلے سارا دن جان جوکھوں میں ڈال کر سکینڈل ڈھونڈیں اور پھر اسے مالک اور ایڈیٹر سے لڑ جھگڑ کر شائع کرائیں۔ دبائو برداشت کریں اور پھر وہ دس لاکھ روپے اکٹھے کریں اور ایک وکیل کر کے عدالت جائیں کہ جناب میں نے بڑا تیر مارا ہے اس پر کچھ ہوجائے تو اللہ آپ کا بھلا کرے گا ۔کچھ ہماری بھی بلے بلے ہوجائے گی ۔ اب رپورٹر اگلے کئی برسوں تک عدالتوں میں دھکے کھائے جبکہ سکینڈلز کا وہی فیصلہ ہونا ہے جو پہلے سکینڈلز کا ہوا ہے۔
پانچ دفعہ سپریم کورٹ نے بلایا کہ فلاں سکینڈل فائل کیا ہے‘ ثابت کریں کہ درست ہے۔ مہینوں تک عدالت پیش ہوتا رہا ۔ درجنوں ٹاپ کے مہنگے وکیل لاکھوں کروڑوں روپے کی فیسیں لے کر میرے اوپر ہی برستے رہے۔ اکیلا سب کی سنتا رہا اور اپنے سکینڈل کو درست ثابت کرنے پر لگا رہا۔ اللہ نے مہربانی کی کہ ان تمام پانچ سکینڈلز کو درست ثابت کر کے سرخرو ہوا۔ عدالت نے وہ پانچوں کیس نیب اور ایف آئی اے کے پاس بھیجے کہ کارروائی کریں۔ ایک دن نیب کے ایک ریٹائرڈ کرنل سے ملاقات ہوئی جو ''صبح‘‘ سے شام تک ''صادق‘‘ کا کردار ادا کرتے تھے اور میں انجم عقیل خان اور نیشنل پولیس فائونڈیشن سکینڈل پر کام کر رہا تھا۔ موصوف حیران ہوئے کہ اس میں سکینڈل والی کیا چیز تھی۔ کچھ بھی نہیںملا۔ میں نے کہا‘ حیرت ہے۔ ایف آئی اے اور سپریم کورٹ میں انجم عقیل خان نے لکھ کر دیا تھا کہ وہ اس سکینڈل میں ملوث تھا اور وہ چار ارب روپے کی ادائیگی کرے گا اور اس نے کچھ ادائیگی کی بھی تھی اور آپ فرماتے ہیں کہ وہ بے چارہ تو مظلوم انسان ہے۔ میں نے کہا: کرنل صاحب‘ کبھی اس قوم کو بھی مظلوم سمجھ لیں جس کو لوٹا گیا ہے اور لوٹا جارہا ہے اور آپ جیسے لوگ لٹیروں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یوں انجم عقیل خان سکینڈل کو مٹی چاٹ گئی۔
ایک اور سکینڈل فائل کیا جسے ایل این جی سکینڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ ایسا سکینڈل ہے جس پر پوری کتاب لکھی جانی چاہیے اور لکھنے کا سوچ بھی رہا ہوں تاکہ ہماری نسلوں کو پتہ چلے کہ ریاست کے محافظ جب مال کمانے پر آتے ہیں تو کس حد تک گر سکتے ہیں اور کیا کیا سازشیں ہوتی ہیں۔ پیسہ کیسے کیسے بڑے لوگوں کا ایمان ایک لمحے میں برباد کردیتا ہے۔ یہ ایک عالمی سکینڈل تھا جس میں پاکستان کی وزارت پٹرولیم کے زکوٹا جنوں نے سیاسی وزیروں کو بیوقوف بنایا تھا اور سب ہاتھ دھو کر صاف بچ نکلے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود وہ سکینڈل ان افسران کے خلاف کارروائی کا انتظار ہی کرتا رہا جن کے خلاف سیکرٹری کامرس ظفر محمود کی انکوائری رپورٹ میں ثابت ہوا تھا کہ کس کس افسر نے کیا کیا گول مال کیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی نے وہ انکوائری رپورٹ اپنے دفتر کے ایک اندھے کنویں میں اتنی دور پھینکی کہ آج تک اس کا سراغ نہیں ملا۔
پیپلز پارٹی نے میرے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا کہ جناب اگر یہ سکینڈل فائل نہ کرتے اور عدالت اس پر نوٹس نہ لیتی تو آج ملک میں شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ سکینڈل کی وجہ سے ڈیل نہ ہوسکی۔ چلیں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نئی ڈیل کر لیں تو پھر نئی ڈیل کیوں نہ کی گئی۔ اگر پرانی ڈیل اتنی اچھی تھی تو پھر وزیرقانون ڈاکٹر بابر اعوان اور وزیرخزانہ حفیظ شیخ نے ای سی سی کے اجلاس میں نوید قمر کی بھیجی گئی سمری کی منظوری کیوں نہیں دی تھی؟ اس لیے کہ انہیں بھی شک تھا کہ لمبا مال بنایا جارہا تھا ۔
کتنا اچھا ہو‘ اگر بابر اعوان کسی دن پوری کہانی اپنے کالم میں لکھ ہی دیں۔ گیلانی صاحب نے نیا کام کیا۔ جو جس کا جی چاہے لکھتا رہے۔ ان کی حکومت کے سکینڈلز پھوڑتا رہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے جیل جانے کی وجہ سے وزیراعظم بنے تھے‘ اب دیکھیں کیا بڑا انعام ملتا ہے۔
اس لیے جب ایل این جی قطر کے ساتھ ڈیل ہونے لگی تو میں جان بوجھ کر چپ رہا۔ پچھلی دفعہ پیپلز پارٹی ناراض ہوگئی تھی کہ جناب جب ہم ڈیل کر رہے تھے تو آپ نے سکینڈل فائل کر کے ملک کو اندھیروں میں ڈبو دیا تھا۔ اس بار نواز لیگ سارا ملبہ میرے اوپر ڈال دے گی کہ دیکھیں یہ رپورٹر پھر شرارت سے باز نہیں آئے۔ یوں ان سیاستدانوں نے ہمیں اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ ہم اللہ کی رضا پر راضی بیٹھے ہیں کہ جناب آپ جو بھی مال کماتے ہیں‘ کمائیں‘ کمشن کھائیں‘ بیرون ملک سیف الرحمن کو اپنا فرنٹ مین بنا کر چینی اور ترکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے اور ڈیلیں کریں‘ اپنے ایک پرانے وفادار بینکر کے چالیس سالہ بیٹے کو بینک کی نوکری سے استعفیٰ دلوا کر قطر میں نیا سفیر لگا دیں جو سب حساب کتاب سمجھتا ہو کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور کہاں جائے گا اور کس بینک میں رکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اب پتہ چلا کہ قطر میں ایک بینکر کا سفیر لگنا کیوں ضروری تھا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ قطر میں جو بھی ایل این جی ڈیل کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے وہ سب سیف الرحمن کرتے ہیں اور اس نوجوان سفیر کو ان اہم ملاقاتوں میں کہیں نہیں بٹھایا جاتا حالانکہ میرا خیال ہے کہ پروٹوکول کے تحت لازمی ہے کہ اس طرح کی اہم ملاقاتوں میں سفیر کو بٹھایا جائے۔ سفیر کو بھی علم ہے کہ ان کا کام ان اہم اجلاسوں میں بیٹھنا نہیں ہے‘ جہاں اربوں کی ڈیل ہورہی ہے۔
اسی طرح پچھلے دنوں پوری تفصیل سے میں نے لکھا کہ کیسے سات لاکھ ٹن ناقص گندم زیرو ڈیوٹی پر روس اور یوکرائن سے منگوائی گئی اور ملک کو تیس ارب روپے کا نقصان صرف ڈیوٹی میں ہوا۔ کسٹم والے فرماتے ہیں کہ انہیں پتہ نہیں چلا کہ کب گندم ملک میں آئی۔ کیا کہنے! کیا کہنے! میرے امریکہ میں ایک دوست محمد زبیر نے ڈیلور ریاست سے میرے لیے چھ ٹائیاں پاکستان میں میرے گھر کے ایڈریس پر بھیجیں ۔ سو ڈالر انہوں نے وہاں کوریئر اور دیگر چارجز کے ادا کیے۔ جب میرے گھر پر ڈیلیور کی گئیں تو فرمایا کہ جناب چھ ٹائیوں پر ساڑھے چھ ہزار روپے کسٹم ڈیوٹی بنتی ہے‘ وہ ادا کردیں۔ میں نے کسٹم ڈیوٹی ادا کی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میری چھ ٹائیاں بھی کسٹم کلیئرنس اور ادائیگی کے بعد میرے حوالے کی جاتی ہیں تو سات لاکھ ٹن گندم کیسے پاکستان میں زیرو ڈیوٹی پر آجاتی ہے اور کسی کو پتہ نہیں چلتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گندم اس وقت پاکستان لائی جاتی ہے جب اپنے گھر میں بارہ لاکھ ٹن گندم پڑی ہے اور نئی فصل سر پر کھڑی ہے۔ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ الٹا اسحاق ڈار زکوٹا جنوں کی سفارش پر انہی پرائیویٹ فلور ملز والوں اور طاقتور لوگوں کو کروڑوں ڈالرز کی سبسڈی کی منظوری دیتے ہیں کہ اب اپنے آٹے کو ہمارے پیسے پر باہر بھیجو اور نوٹ کمائو۔ اس سات لاکھ ٹن گندم کی امپورٹ کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب سندھ اور پنجاب میں لوگوں کو بار دانہ نہیں مل رہا۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز نے اب بار دانہ کا کاروبار سنبھال لیا ہے اور کچھ علاقوںمیں پینتس روپے فی بوری قیمت مقرر کی گئی ہے۔ کسانوں کو ان کی پوری قیمت نہیں مل رہی۔ کر لو جو کرنا ہے‘ کسان رل رہے ہیں۔ ماسوائے یوسف تالپور کے کسی اور نے قومی اسمبلی میں یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کیسے زیرو ڈیوٹی پر گھٹیا گندم منگوانے کی اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی کی بجائے انعام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سب ادارے خاموش ہیں۔
نذیر ناجی صاحب کی مجھ سے بندھی توقعات کا بوجھ سرآنکھوں پر لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے حد سے بڑھے ہوئے لالچ اور ہمارے اداروں کی بے حسی ہمیں اس اسٹیج پر لے آئی ہے کہ اب ہمیں کوئی سکینڈل سکینڈل نہیں لگتا ۔ حبس سے تنگ آئے ہوئے لوگ اب لُو کی دعا مانگتے ہیں۔ اب اچھے سیاستدان اور زکوٹا جن وہ سمجھے جاتے ہیں جو مال کھل کر کمائیں لیکن کچھ کام بھی کردیں۔ سیاستدان اور بابو اب ہمیں بلیک میل کرتے ہیں کہ اگر کوئی کام کروانا ہے تو پھر ہمیں مال بنانے دینا ہوگا۔۔
نذیر ناجی صاحب! ہم منتخب نمائندوں اور حکمرانوں کے نہیں بلکہ بلیک میلروں کے ہاتھ لگ گئے ہیں جو ہم سے سانس لینے تک کا بھی جگا ٹیکس لیتے ہیں۔ اب اگر ہم نے پاکستان میں رہنا ہے تو پھر ان سب کو چین، قطر اور ترکی سے ہونے والی ہر ڈیل پر کھل کر مال کمانے دینا ہوگا !