اٹلی سے فون تھا ۔ مجھے حیرانی نہیں ہوئی ۔
وہ کافی دیر تک پاکستان کے حالات پر دکھی ہوتے رہے۔ کہنے لگے‘ پاکستانی کمیونٹی چاہتی ہے اس سال چودہ اگست کو میں ان سے ملوں۔ وہ سب سننا چاہتے ہیں ۔ بتانے لگے کہ یورپ میں مقیم پاکستانی ہم سب کو چاہتے ہیں‘ عزت کرتے ہیں‘ بس ایک بار چلا آئوں۔اس طرح کی کئی فرمائشیں ملتی رہتی ہیں ۔ پچھلے سال دسمبر میں ناورے سے شاہ رخ صاحب مسلسل فون کرکے اصرار کرتے رہے کہ اوسلو آئوں ۔ سب پاکستانی سننا چاہتے ہیں ‘ مگر میں ٹھہرا ایک روایتی سست سرائیکی اور کاہل انسان ۔ گھر، بچے، دفتر، دوست، کتابیں اور فلمیں ۔ یہ ہے میری زندگی کی کہانی ۔ یوں میں نے شاہ رخ کو ٹالنا شروع کیا ۔ جی شاہ رخ صاحب بالکل... کیوں نہیں... پروگرام بناتے ہیں... کل بتاتا ہوں ۔ وہ بے چارے فون کرتے رہے اور ہر میں دفعہ انہیں نئی گولی دیتا رہا ۔ آخر انہوں نے مایوس ہو کر فون کرنا چھوڑ دیا اور میں نے اپنے آپ کو اس کامیابی پر مبارکباد دی کہ ناروے جانے سے بچ گیا ۔ اب یہی اٹلی کے قدیر صاحب کے ساتھ کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ وہ بھی دو تین دفعہ فون کر چکے ہیں کہ اگست میں اٹلی آئوں اور پاکستانیوں سے کوئی بات کروں۔وہ سننا چاہتے ہیں۔
پچھلے سال امریکہ میں تھا تو ڈاکٹر احتشام قریشی نے فون کر کے کہا کہ ان کے ڈاکٹروں کی تنظیم 'اپنا‘ چاہتی ہے‘ میں اگست میں ان کے سالانہ فنکشن میں شرکت کروں۔ ڈاکٹر احتشام کے مجھ پر بہت احسانات تھے لیکن میں پھر بھی کنی کترا گیا ۔ جس دن فنکشن تھا اس سے ایک دن پہلے میری پاکستان واپسی کی فلائٹ تھی اس لیے بہانہ بنا کر لوٹ آیا ۔ ڈاکٹر احتشام شاید ناراض بھی ہوگئے‘ اسی لیے روانگی سے پہلے امریکہ میں ان کی مہمان نوازی کے شکریے کے لیے کیے گئے میرے فون اور میسجز کا جواب تک نہیں دیا ۔ لیکن پھر یہی سوچ کر نکل آیا کہ میں کیا بات کروں ۔ پاکستان کی محبت میں گھرے ان پاکستانیوں کو کیا بتائوں ۔کیا رام لیلا سنائوں کہ ان کے چہروں پر خوشی آجائے۔
اب پھر وہی امتحان درپیش ہے۔ اٹلی یا ناروے جا کر وہی مایوسی پھیلائوں جو اپنے ملک میں پھیلاتا رہتا ہوں ۔ وہ بے چارے ہم سے جان چھڑا کر بیرون ملک جا بسے کہ زندگی اچھی گزرے گی ۔ اب ہم نے پاکستان کے حالات اتنے خراب کر دیے ہیں کہ انہیں وہاں بھی چین نہیں ۔ ان کا دم ہر وقت رکا رہتا ہے۔
امریکہ میں اکبر چودھری کے دوست ورجینیا میں ان کے گھر پر اکٹھے ہوتے تو میں ان سب کی باتوں کو انجوائے کرتا تھا ۔ وہ سب پاکستان کی محبت میں تقریباً رونے لگ جاتے اور شکایت کرتے کہ ہم سب نے ملک کا کیا حشر کر دیا ہے ۔ میں آرام سے نرگس بھابی کا پکایا ہوا پاکستانی کھانا کھاتا رہتا اور اکبر چودھری روایتی مسکراہٹ سجائے میرے جواب کا انتظار کرتے رہتے۔ شاید اکبر چودھری اور ان کے دوستوں کو میری بے حسی پر حیرانی ہوتی ہوگی‘ مگر میں انہیں کیا بتاتا کہ ہم کیوں بے حس ہوگئے ہیں۔
میں جب بھی بیرون ملک جائوں‘ مجھے کافی دیر تک کسی سڑک کنارے انجانے پاکستانیوں کی کڑوی کسیلی باتوں کو بڑی دیر تک سننا پڑتاہے۔ مجھے واقعی دل و جان سے اداکاری کرنی پڑتی ہے کہ میں ان کی باتیں توجہ سے سن رہا ہوں۔چاہے کتنی ہی جلدی کیوں نہ ہو ، پھر بھی رک کر ان کے دل کی بھڑاس سنتا ہوں۔ان بیرون ملک پاکستانیوں کی فرسٹریشن، غصہ اور بے بسی میں سمجھ سکتا ہوں۔ وہ جس ملک سے گئے تھے وہاں قانون نام کی چیز نہیں تھی ۔ پیسہ اور سفارش سے کام چلتا تھا۔ باہر آ کر شروع میں تو انہیں بھی برا لگتا تھا کہ کہاں پھنس گئے ہیں ۔ مجھے یاد ہے 2007ء میں‘ میں لندن سے لوٹ رہا تھا تو دوستوں نے کہا یہیں رک جائو۔ برطانوی شہریت لے لو ۔ میں نے کہا چھوڑو یار کیا فائدہ ایسے ملک کا۔ اگر ٹونی بلیئر بھی آپ کا دوست ہو پھر بھی سفارش کے باوجود بغیر ٹیسٹ دیئے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بن سکتا۔ وہاں رہنے کا کیا فائدہ۔اپنا پاکستان زندہ باد۔اس لیے ان پاکستانیوں کو بھی لگتا ہے کہ کس دنیا میں پہنچ گئے ہیں جہاں اگر وہ اوورسپیڈنگ کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا تو بھی اگلی صبح ان کے گھر پر تین سو پونڈ یا ڈالر کے جرمانے کی سلپ پہنچ جاتی ہے‘ سفارش کلچر نہ ہونے کے برابر۔ انہیں یہ بھی عجیب لگا ہوگا کہ وہاں جس کو بھی دیکھو وہ آپ کو جواب میں مسکراہٹ دے گا۔سوری اور تھینک یو کہے گا۔ راستہ دے گا ۔ انہیں پتہ چلا کہ اگر وہ وہاں محنت کریں تو چند برسوں میں کروڑ پتی بن سکتے ہیں ۔ ان کے بچے وزیراعظم کے بچوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں ۔ انہیں بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو دیگر شہریوں کو ملے ہوئے ہیں۔ بیروزگار ہوں تو ماہانہ الائونس ملتا ہے۔ شروع کے چند مشکل برسوں کے بعد جب ان کی زندگی میں آسانیاں آنا شروع ہوتی ہیں تو انہیںپاکستان یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔انہیں اپنا گائوں‘اپنا گھر،گھر کا صحن‘ اپنے ماں باپ‘ بھائی بہن‘ دوست‘ رشتہ دار‘ کھیت اور گائوں کی دوپہر کا سناٹا اور کہیں دور سے فاختہ کا دکھ بھرا نوحہ‘ سب کچھ یاد آتا ہے۔ انہیں لگتا ہے جو کچھ پایا‘ اس کے لیے وہ بہت کچھ کھو چکے ہیں۔
وہ سوچتے رہتے ہیں‘ بس کچھ دن اور۔ پھر وہ واپس لوٹ جائیں گے۔ بس ذرا کچھ ڈالر کمالیں۔ اگلے برس سوچتے ہیں۔ یار پہلے پاسپورٹ بدل لیں۔ اگلے سال فلیٹ ہی مورگیج پر لے لیں۔ جلدی کیا ہے۔لوٹ جائیں گے۔ ابھی تو عمر پڑی ہے۔ مورگیج ادا کرنے کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں ۔ پھر بچے ہوجاتے
ہیں۔سوچتے ہیں چلیں بچے پڑھ لیں پھر پاکستان لوٹ جائیں گے۔ یار اب بچوں کو سیٹل کر لیں‘ پھر لوٹ جائیں گے۔اس دوران میں کچھ پیسے بچا کر پاکستان بھیجتے ہیں‘ اپنا کوئی پلاٹ یا گھر ہی بن جائے۔ایک ایسا گھر جہاں ہوسکتاہے کسی دن وہ جا کر رہیں گے۔ ایک دن پتہ چلتا ہے کہ بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ اپنے گھر بنا لیے ہیں۔ اب وہ پاکستان کیسے لوٹیں کیونکہ بہت دیر ہوچکی ہے۔ اب انہیں اس عمر میں وہاں کے ہسپتالوں کی کیئر چاہیے ہوتی ہے۔ اتنی دیر میں پاکستان میں ماں باپ فوت ہوچکے ہوتے ہیں۔ دوست بھول چکے ہوتے ہیں ۔ رشتہ داروں کی دلچسپی اس حد تک باقی رہ جاتی ہے کہ مشکل وقت میں کچھ مدد ہوجائے گی ۔گھر بچ گیا تو ٹھیک ورنہ کسی رشتہ دار نے قبضہ کر لیا۔کچھ زمین یا جائیداد خریدی تو وہ بھی چند بندوق برداروں نے اپنے قبضے میں لے لی۔ جس ناسٹلجیا اور ماضی کے مزاروں کی تلاش میں وہ وطن لوٹنا چاہتے ہیں وہ کب کے برباد ہوچکے۔ نشان تک باقی نہیں رہا۔ نہ ماں باپ رہے اور نہ ہی دوست بچے۔ وہ گائوں اب وہ گائوں نہیں رہا جسے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔اب انہیں اس گائوں میں کوئی نہیں پہچانتا۔ اب وہ کس سے ملنے آئیں۔ کون ان کا خیال رکھے گا ۔ یورپ بُرا سہی‘ مگر چلیں اور کوئی سہارا نہ ملا تو اولڈ ہوم جا بیٹھیں گے۔اولڈ ہوم نہ سہی تو کسی سرسبز پارک میں روزانہ واک کے بعد کسی تنہا بینچ پر بیٹھ کر آتے جاتے اجنبیوں کو تکتے رہیں گے۔ ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے۔کبھی اپنے اوپر فخر محسوس ہوگا کہ دیکھا‘ کتنا اچھا فیصلہ تھا کہ وقت پر پاکستان سے نکل گئے۔ اب دیکھو کیا حال ہوگیا ہے۔ اپنے بچوں کو کماتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ پھر اچانک محسوس ہوتا ہے کہ نہیں یار کچھ ایسا ہے جو چین نہیں لینے دیتا۔ کچھ ایسا ہے جو اندر ہی اندر نوچتا رہتا ہے‘ کچوکے لگاتا رہتا ہے۔سوچتا ہوں کیا یہ سودا واقعی اچھا تھا ۔سب کچھ پا کر کے بھی اپنا ماضی؟ ہائے سب کچھ گنوا دیا۔
پھر اپنے ملک کی فکر پڑجاتی ہے۔چاہے سب پتہ ہو کہ اب وہ کبھی مغربی ممالک کا آرام، سکون، انصاف، صاف ستھرا ماحول چھوڑ کر پاکستان نہیں لوٹ سکتے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی خواہش موجود ہوتی ہے کہ نہیں یار...کیا پتہ...شاید واپسی کا چانس بن ہی جائے۔ چلیں چانس نہ بنے لیکن میں اس قابل تو ہوجائوں کہ اپنے ملک پر فخر کر سکوں۔ اپنے ہمسایوں کے آگے شرمندگی نہ ہو۔ میں بھی بتا سکوں کہ میں پاکستانی ہوں اور میں دہشت گرد نہیں ہوں ۔
اور جب پاکستان سے میرے جیسے صحافی انہیں پاکستان میں بڑے پیمانے پر جاری کرپشن کی کہانیاں سناتے ہیں ، قانون کا مذاق اڑائے جانے کی بابت بتاتے ہیں تو ان کے دل دکھتے ہیں کہ چند لوگوں نے پورے ملک کو ہائی جیک کر لیا ہے اور انہیں لگتا ہے سب کچھ غارت ہوگیا ہے۔ پھر وہ چاہتے ہیں کوئی پاکستان سے آئے‘ ان کے ساتھ بیٹھے، ان کے دکھڑے سنے‘ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالیں اور آنے والا انہیں تسلی دے کہ پریشان نہ ہوں‘ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘ حالانکہ انہیں بھی پتہ ہے کہ یہ ملک جن کے ہاتھ لگ گیا ہے ان سے آزادی لینا اب اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں پاکستان کیسے ٹھیک ہوگا۔ انہیں کیا بتائیں کہ یہ لیڈر ٹائپ کاروباری سب جانتے ہیں کہ پاکستان کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے‘ لیکن وہ کیوں پاکستان کو ٹھیک ہونے دیں؟ پاکستان درست ہوگیا تو پھر ان کی دکان بند ہوجائے گی۔ اپنی دکان کون بند کرتا ہے۔کون اپنے ہاتھوں اس ٹہنی کو کاٹتا ہے جس پر وہ خود بیٹھا گلچھرے اڑا رہا ہے۔
اب ان سب کو جا کر کیا بتائوں؟ بیرون ملک جا کر کون سی کہانیاں بیچوں؟اٹلی، ناروے یا امریکہ میں کیا بھاشن دوں؟ کیسے کہوں کہ جس پاکستان کو وہ چھوڑ آئے تھے‘ ہم نے اسے جنت بنا دیا ہے۔ اب آپ لوٹ آئیں‘ اپنے اپنے گھروں کو۔اپنے اپنے ماضی کو گلے لگانے‘ اپنے اپنے گائوں کی گلیوں کے سناٹے میں اپنے بچپن کی تلاش میں‘ اپنے اپنے ماضی کے مزاروں کی تلاش میں!