اگرچہ نذیر ناجی صاحب کے کارگل پر لکھے گئے کالم کے بعدکچھ اور لکھنے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی‘ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا؛ تاہم جس طرح جنرل مشرف نے بڑھک ماری ہے اس پر مجھے بھی حیرانی ہوئی کیونکہ میں نے کارگل پر کچھ کام کر رکھا ہے۔ اپنی کتاب 'ایک سیاست کئی کہانیاں‘ لکھنے کے لیے میں کافی اہم لوگوں سے ملا تھا اور کارگل پر بھی بات ہوئی تھی۔ میں نے اس کتاب پر 2003ء میں کام شروع کیا تو کارگل کے معاملہ پر ان دنوں جنرل مشرف کے سچ کو ہی سچ سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ ملک کے حکمران تھے۔ نواز شریف جدہ میں تھے۔ اگر وہ لب کھولتے بھی تو اگلے بندے سے ہزاروں قسمیں اٹھواتے کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔
میںکتاب کسی اور موضوع پر لکھ رہا تھا لیکن باتوں باتوں میں کارگل سامنے آ گیا۔ میری پہلی ملاقات چوہدری شجاعت حسین سے ہوئی۔ بولے جب کارگل پر جنرل مشرف اور نواز شریف کے درمیان لڑائی بڑھ گئی تو ایک اجلاس ہوا جس میں ماحول بہت گرم ہوگیا۔ نواز شریف کہتے تھے کہ انہیں کارگل کا علم نہ تھا۔ جنرل مشرف ڈٹے رہے کہ انہوں نے بریفنگ دی تھی۔چوہدری صاحب نے کہا ''مٹی پائو۔ ایک پریس ریلیز جاری کرو اور سیاسی حکومت اس کی ذمہ داری قبول کرلے‘‘۔ نواز شریف کو چوہدری شجاعت کی یہ تجویز پسند نہ آئی۔ وہ جب اجلاس سے جانے لگے تو انہوں نے دوسروں سے ہاتھ ملایا‘ چوہدری شجاعت سے ہاتھ بھی نہ ملایا۔
اسحاق ڈار سے ملا تو انہوں نے اشارہ دیا کہ جنرل مشرف نے کارگل پر نواز شریف کو بتایا ضرور تھا لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ واقعی کارگل شروع کر چکے تھے یا جنگ ہوسکتی تھی۔ اگر بتایا بھی تھا تو اس انداز سے کہ وزیراعظم کو پتہ نہ چلا کہ کارگل کا مطلب بھارت سے جنگ تھا؛ تاہم تفصیلی بات اس موضوع پر چوہدری نثار علی خان نے مجھ سے کی۔ وہ بولے ''چھوڑیں نواز شریف کو علم تھا یا نہیں‘ ذرا جنرل مشرف دور کے ایئرچیف اور نیول چیف سے پوچھ لیں کہ آیا انہیں پتہ تھا کہ جنرل مشرف کارگل شروع کر چکے ہیں‘‘۔ چوہدری نثار نے انکشاف کیا تھا کہ جنرل مشرف نے خود کارگل شروع کیا اورجب نواز شریف کو واجپائی سے پتہ چلا کہ کارگل کی پہاڑیوں پر قبضہ ہوچکا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ جنرل مشرف سے بات کی گئی تو انہوں نے جواز پیش کیا کہ اس آپریشن کی منظوری نواز شریف سے لی گئی تھی۔ اب نواز شریف حیران کہ انہوں نے کب منظوری دی تھی۔ گورنر ہائوس لاہور میں اجلاس ہوا جس میں جنرل مشرف‘ ایئرچیف اور نیول چیف شامل تھے۔ ان دونوں نے جنرل مشرف کے منہ پر کہا کہ انہیں اخباری خبروں سے پتہ چلا تھا کہ کارگل پر جنگ جاری ہے اور جنرل مشرف کئی ہزار فوجیوں کو کارگل کی پہاڑیوں پر چڑھا کر بھارتی گنوں اور جنگی طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ چکے ہیں۔ یہ تجویز جنرل مشرف کی طرف سے دی گئی تھی کہ باقی ماندہ فوجی بچانے کے لیے فوری طور پر امریکہ سے مدد لی جائے۔ چوہدری نثار نے بتایا کہ انہوں نے نواز شریف سے کہا امریکہ جانے کی ضرورت نہیں ہے‘ جنہوں نے کارگل شروع کیا‘ وہی امریکہ جائیں یا بھارت سے بات کریں؛ تاہم نواز شریف نے فوج کی عزت بچانے کے لیے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل مشرف خود انہیں ہوائی اڈے پر رخصت کرنے آئے۔ امریکہ سے واپسی پر جنگ بندی ہوئی تو کچھ عرصے بعد نواز شریف کو یہ رپورٹس ملنا شروع ہوئیں کہ جنرل مشرف اپنی نجی محفلوں اور فیلڈ کے دوروں میں یہ دعوے فرما رہے تھے کہ وہ تو کارگل پر بھارت کو مزہ چکھا رہے تھے لیکن نوازشریف نے امریکہ جا کر سب کچھ بیچ دیا۔ یہ سن کر نواز شریف سخت ہرٹ ہوئے اور یوں بارہ اکتوبر ہوا اور سب کچھ بدل گیا ۔اپنی کتاب کے سلسلے میں جب نواز شریف سے جدہ میں ملا تو انہوں نے ایک اور انکشاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہیں بتایا گیا تین ہزار فوجی کارگل کی چوٹیوں پر بھارتی گنوں سے شہید ہو چکے ہیں‘ کیونکہ ان کے پاس نہ فضائی کور تھا اور نہ ہی ہتھیار اور خوراک مل رہے تھے‘ تو انہوں نے فوراً امریکہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ مسئلہ جنرل مشرف سے زیادہ پاکستان آرمی کی عزت کا تھا ۔
اب جنرل مشرف کے نئے دعوے کے بعد کہ انہوںنے کارگل پر بھارت کا گلا پکڑ لیا تھا اور وہ بھارت کو نگلنے ہی والے تھے کہ نواز شریف امریکہ چلے گئے، چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر بھارت نرغے میں تھا اور جنرل مشرف کشمیر فتح کرنے ہی والے تھے تو پھر واجپائی کو امریکی صدر سے چار جولائی کو ملاقات کرنی چاہیے تھی کہ ہماری جان پاکستان سے چھڑائیں نہ کہ میاں نواز شریف کو۔ چار امریکی صدور کے ایڈوائزر بروس ریڈل‘ جنہوں نے کلنٹن نواز شریف ملاقات کے نوٹس لیے تھے‘ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بل کلنٹن اس شرط پر ملنے پر تیار ہوئے تھے کہ پاکستان بغیر کسی شرط کے اپنے فوجی کارگل سے واپس بلائے تو وہ واجپائی کو فون کریں گے اور جنرل مشرف خوشی سے بے حال تھے کہ شکر ہے بچ گئے ۔ سابق چیف آف جنرل سٹاف جنرل علی قلی خان نے مجھے بتایا تھا کہ جنرل مشرف کے کارگل جیسے احمقانہ پلان سے زیادہ بیوقوفانہ جنگی پلان شاید ہی بنا ہو‘ جس کا اس وقت کی دیگر فوجی قیادت کو بھی علم نہیں تھا۔ آج حیرت ہوتی ہے جب جنرل مشرف فرماتے ہیں کہ انہوں نے بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا کیونکہ جب کارگل کی جنگ کا راز کھلا تو اس وقت کی پاکستانی حکومت اور فوج کی یہ سرکاری پالیسی تھی کہ کارگل پر کچھ مجاہدین نے قبضہ کر لیا ہے اور پاکستان کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ بھارت جانے اور وہ مجاہدین جانیں ۔
اگر مجھ سے پوچھیں تو مجھے کارگل پر شہید ہونے والے بہادر بیٹوں سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم اپنے ان بچوں کو‘ جو ایک احمقانہ پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پہاڑیوں پر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے، اپنا ماننے سے ہی انکاری تھے۔ میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے پھر لائبریری کا رخ کیا ۔ ان دنوں ہمارے اخبارات اورپی ٹی وی کہتے تھے کہ کارگل پر مجاہدین نے قبضہ کیا ہوا تھا جن کا پاکستان آرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر بھارت نے دل کھول کر ان بہادر جوانوں کا لہو بہایا۔ بوفرز گنوں اور جنگی طیاروں سے کارپٹ بمباری کی گئی۔ کارگل کے ایک ایک چپے پر بم برسائے گئے۔ تین ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے وہاں قربانیاں دیں اور ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ ہمارے فوجی تھے‘ جو کہ تھے‘ تو پھر جیسے بھارت اپنی فضائیہ کارگل پر استعمال کر رہا تھا کیا ہم نے وہاں اپنے فوجیوں کو پاکستانی فضائیہ کا کور دیا تھا؟ آخر ہمارے طیاروں نے بھارتی طیاروں کا راستہ کارگل پر کیوں نہ روکا؟ جب پاکستانی فوجی کارگل پر چاروں طرف سے گھر گئے تھے اور
گھاس کھا کر گزارہ کر رہے تھے تو جنرل مشرف نے ان کو ریسکیو کرنے کے لیے کیوں کارروائی نہ کی؟ ہم کیوں الٹا راگ الاپتے رہے کہ وہ مجاہدین تھے۔ نواز شریف صاحب کے بقول ہمارے تین ہزار فوجی کارگل پر شہید ہوئے اور جب ان کی لاشیں واپس لائی گئیں تو ان کے پیٹ میں گھاس تھی کیونکہ وہ گھاس کھا کر گزارہ کرتے رہے۔ ان کی جانیں بچانے کے لیے فضائیہ کے استعمال کو چھوڑیں ہم تو ان فوجیوں کو کھانے کی سپلائی تک نہیں دے سکے تھے اور جنرل مشرف فرماتے ہیں کہ وہ بھارت کو گلے سے پکڑ چکے تھے۔ سبحان اللہ۔
کوئی ایک شخص تو سامنے لائیں جو یہ کہے کہ کارگل ایک قابل عمل منصوبہ تھا اور واقعی جنرل مشرف بھارت کا گلا پکڑ چکے تھے۔ جنرل مشرف خوش قسمت ہیں کہ نواز شریف نے کارگل پر دعووں کے باوجود عدالتی کمشن نہ بنایا‘ وگرنہ پتہ چل جاتا کہ وہ کتنے بہادر تھے اور کیسے انہوں نے تین ہزار فوجی کارگل کی پہاڑیوں پر شہید کرائے۔ کارگل پر پاک فوج کے نوجوانوں کی قربانیوں کا اعتراف ہم نے اس وقت کرنا شروع کیا جب امریکہ نے بھارت کو کہہ کر ہمیں واپسی کا راستہ دیا اور جنگ بند ہوگئی۔
ویسے جنرل مشرف صاحب کو بھارت کو کارگل کے بعد گلے سے پکڑنے کا ایک اور موقع 2002ء میں بھی ملا تھا جب بھارت نے اپنی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد سرحدوں پر فوج لگائی تھی۔ جنرل مشرف نے بھارت کا دوبارہ گلا پکڑنے کی بجائے نیپال میں ہونے والی سارک کانفرنس میں واجپائی سے زبردستی مصافحہ کیا تھا۔ ویسے وہ بھی کیا منظر تھا‘ نواز شریف کو کارگل پر بزدلی کے طعنے دینے والا ہمارا کارگل کا ہیرو خود پانچ جنوری 2002ء کے روز واجپائی سے زبردستی ہاتھ ملانے کے لیے اس کے سامنے مودب ہو کر کھڑا تھا۔۔! یقین نہیں آتا تو گوگل کر کے وہ تاریخی فوٹو خود دیکھ لیں۔