بعض دفعہ کوئی خط، کوئی ای میل، کوئی بات آپ کو ٹچ کر جاتی ہے۔ایک شہید کی ماں کے خط نے مجھے بھی شرمندہ کر دیا ہے۔ بندہ کیسے کیسے دعوے کرتا ہے‘ مگر وقت بدلنے کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ سب بھول جاتے ہیں ۔ شاید اسی لیے کسی نے ضرب المثل بنا دی تھی‘ جس تن لاگے، سو تن جانے۔
برسوں گزرے راہ نجات آپریشن شروع ہوا۔ ایک خبر آئی۔ سوات میں چار بہادر کمانڈوز طالبان کے خلاف ایک ایسے آپریشن پر نکل پڑے جو بہت مشکل تھا ۔ تاہم وطن کی محبت میں سرشار یہ بہادر سپوت نہ گھبرائے۔ اپنے آپریشن کے دوران وہ طالبان کے ہاتھ لگ گئے۔ طالبان نے ان کی ویڈیو بنا کر ٹی وی پر چلوا دی۔ ان دنوں مالاکنڈ کمشنر جاویداقبال طالبان کے نمائندے بنے ہوئے تھے۔ وہ طالبان سے ملتے رہتے تھے۔ ان چاروں کمانڈوزکو طالبان کی کسٹڈی میں بھی دیکھا ۔ ویسے یہ بھی عجیب بات ہے۔ طالبان کمشنر مالاکنڈ کو اپنے پاس رکھنے کی خواہش نہ تھی۔ اگر تھی تو ان چار کمانڈوز کو۔ خیر کئی کہانیاں سامنے آئیں۔ ایک میں بتایا گیا تھا کہ ان چار بہادر کمانڈوز نے بزدلوں کی طرح موت قبول کرنے کی بجائے لڑنے مرنے کا فیصلہ کیا اور شہید ہوئے۔
جب یہ خبر چھپی تھی‘ مجھے ڈاکٹر بابر اعوان کا فون آیا کہ ان کے علاقے میں ایک نوجوان شہید ہوا ہے‘ ساتھ چلنا ہے۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔ پہلی دفعہ مجھے پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی کے اندر جانے کا موقع ملا۔ پہاڑ سرسبز‘ لوگ خوبصورت اور مناظر خوبصورت؛ تاہم یہ بات میں نے شدت سے محسوس کی کہ اس علاقے میں کوئی بھی انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ یہی بات میں نے ڈاکٹر بابر اعوان صاحب سے بھی کی بلکہ ایک طرح سے شکایت کی کہ کیوں پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی کو اتنی بری حالت میں رکھا گیا ہے۔ کیوں آپ لوگ پوٹھوہار کے علیحدہ صوبے کی بات نہیں کرتے۔ پنجاب کے اربوں روپے این ایف سی کے شیئر میں سے شمالی پنجاب کو کیوں دو سے تین سو ارب روپے تک کا حصہ نہیں ملتا ؟ اس علاقے کے لوگوں کا کیا قصور ہے۔ لگتا ہے کہ یہ سب سولہویں صدی میں بھی شاید آج سے بہتر رہتے ہوں گے۔ بابر اعوان بولے کہ وہ پہلے ہی تخت لاہور کے حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں‘ کیونکہ وہ ہر جگہ حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ان دنوں بابر اعوان کی تقریروں نے آگ لگائی ہوئی تھی۔ جلسوں میں بھی ان سے بہتر مقرر شاید ہی کوئی ہوگا ۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹر بابر اعوان پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بھی بنا تھا جس کے ان کے پاس ثبوت بھی تھے۔
خیر جب شہید کیپٹن نجم ریاض کے گھر پہنچے تو عجیب سے جذبات تھے۔ ایسے بہادر سپوت کے والدین سے مل رہے تھے جنہوںنے اپنے بچے ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے شہید کرائے تھے۔ شہید کی والدہ گل بہار بولیں۔ ''میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں اس دھرتی پر قربان کر دیتی‘‘۔ سب کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ ایسی مائیں بھی اس ملک میں تھیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے ان سے پوچھا کہ ان کے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت بھی شہید کی والدہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ ان کا ذاتی کوئی کام نہیں ہے‘ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر ہوسکے تو ان کے گائوں تک ایک چھوٹی سی پکی روڈ اور رورل ہیلتھ سینٹر بنوادیں تو اس علاقے کا بہت بھلا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا۔ تاہم چند دنوں کے بعد ڈاکٹر صاحب وزیر نہ رہے اور یوں معاملات شاید آگے نہ بڑھ سکے۔
اب کیپٹن نجم ریاض شہید کی والدہ گل بہار نے مجھے خط بھیجا ہے جس کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا حالیہ خط بھی لف ہے جس میں انہوں نے شہید خاندان کی پاکستان کے لیے قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ان کی قربانیاں بھولے نہیں ہیں؛تاہم گل بہار لکھتی ہیں۔
''آپ کو یاد ہوگا کہ آپ جناب بابر اعوان کے ساتھ ہمارے بیٹے کی شہادت پر گائوں تشریف لائے تھے۔ بابر اعوان صاحب اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر کبھی ہماری کوئی ضرورت پڑے تو ہمیں ضرور یاد کیجیے گا۔ کلاسرا صاحب آپ تو اپنی مصروفیت کے باعث کہیں آتے جاتے نہیں ہیں لیکن آج شہید کے خاندان اور علاقہ کے لوگوں کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔ آپ کی موجودگی میں چھوٹی سی سڑک اور رورل ہیلتھ سینٹر حکومت سے مانگے تھے۔ تمام فوجی افسران، مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت‘ سب نے کام بہت جلد کرنے کا وعدہ کیا‘ اور چیف منسٹر کو بھی خط لکھا جن کی طرف سے منظوری کا خط بھی ملا جس کا نمبر /12/SN,-23(w) dt 17.4.2012 DS(P)CMS ہے‘ لیکن آج تک اس پر کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ آپ کا یہ کام تو نہیں ہے کہ آپ ہماری سڑکیں بنوائیں یا پھر رورل ہیلتھ سینٹر بنوا کر دیں۔ خدا نے آپ کو قلم دیا ہے۔ تمام درخواستیں جو فوجی حکام سے لے کر سویلین قیادت تک سب کو بھیجی گئی ہیں وہ آپ کو بھجوا رہی ہوں۔ تھوڑا سا وقت نکال کر اپنی بہن کا خط پڑھ لیں۔
گل بہار والدہ کیپٹن نجم ریاض شہید، گائوں گلور، تحصیل کہوٹہ، ضلع راولپنڈی،فون۔ 0345-51223449‘‘
اب اس خط کے بعد کیا رہ جاتا ہے۔ بندہ کیا بات کرے۔کسی کے پاس ان شہیدوں کے خاندان کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ شہید کی والدہ اپنے لیے کچھ نہیں مانگ رہیں۔ وہ اس گائوں کے لیے ایک رورل ہیلتھ سینٹر چاہتی ہیں۔ایک پکی سڑک چاہتی ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں کہ میں اکثر اپنے کالموں میں سرائیکی علاقوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر احتجاج کرتا رہتا ہوں اور یہاں کہوٹہ جیسے علاقے کا یہ حال ہے!!
میں کئی دفعہ ڈاکٹر بابر اعوان سے کہہ چکا ہوں کہ آپ کیوں نہیں پوٹھوہاری علاقے سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے۔میں آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔کیوں پوٹھوہار کے لوگوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک رکھا جارہا ہے۔پوٹھوہار کے قومی سطح کے لیڈروں کے نام پڑھیں تو آپ حیران ہوں۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم رہے، سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری، وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان، سینیٹ میں لیڈر آف ہائوس راجہ ظفرالحق‘ ڈاکٹر بابر اعوان، ظفر علی شاہ سمیت کئی بڑے نام ہیں۔ ویسے تو وزیراطلاعات پرویز رشید بھی راولپنڈی سے تعلق رکھتے تھے لیکن اب لاہوری کہلوانے پر فخر کرتے ہیں۔ پنڈی سے تعلق ہونا شاید بڑوں کے نزدیک خامی ہے، خوبی نہیں؟ یہ سب لوگ کیوں نہیں پوٹھوہار کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر آواز اٹھاتے۔ کیا صرف اس لے چپ ہیں کہ کسی کو
نواز شریف اور کسی کو زرداری دور میں اقتدار میں حصہ مل جاتا ہے‘ لہٰذا باقی پوٹھوہاریوں کا جو بھی حشر ہوتا ہے‘ وہ ہوتا رہے؟
لاہور کی میٹرو ٹرین کے لیے آپ کے پاس راتوں رات ایک سو ساٹھ ارب روپے آجاتے ہیں۔ لاہور میٹرو بس کے لیے بھی اربوں روپے مل جاتے ہیں۔اسلام آباد میٹرو پر بھی پچاس ارب روپے جیب سے نکل آتے ہیں۔ لاہور کا کلمہ چوک بائی پاس ریکارڈ مدت میں مکمل ہوتا ہے اور انعام کے طور پر ایل ڈی اے کے چیئرمین کو چھیالیس لاکھ روپے مل جاتے ہیں۔ شاید اسی چھیالیس لاکھ روپے میں کیپٹن شہید نجم ریاض کے گائوں کی سڑک بن جاتی۔ کہوٹہ کے اس پس ماندہ گائوں گلور کے لوگوں کو لاہور، اسلام آباد، پنڈی، ملتان یا دیگر علاقوں میں اربوں روپے کی میٹرو سے کیا فرق پڑتا ہے جنہیں ایک چھوٹی سی پکی سڑک تک نہیں مل سکتی۔ کیا سب ترقی شہروں میں ہوگی جو میڈیا کو نظرآئے اور جس کا چرچا کیا جاسکے؟ میڈیا بھی اسی میں خوش ہے کہ جس شہر میں وہ رہتے ہیں وہاں سہولتیں موجود ہیں‘ دیہی علاقے جائیں بھاڑ میں۔
ویسے جتنے نام میں نے پوٹھوہاری لیڈروں کے گنوائے ہیں‘ کیا یہ سب مل کر کیپٹن نجم ریاض شہید کی والدہ کی درخواست پر ان کے گائوں کی سڑک اور رورل ہیلتھ سینٹر نہیں بنوا سکتے ؟ میں نے جان بوجھ کر وزیراعلیٰ پنجاب کا نام نہیں لکھا کیونکہ وہ سب وہ کام کرتے ہیں جہاں سے داد وصول کر سکیں۔ یہاں پوٹھوہار کے ایک دوردراز پسںماندہ گائوں میں ایک سڑک اور رورل ہیلتھ سینٹر بنوانے سے انہیں کیا داد ملے گی؟ جس پوٹھوہار کے بہادر سپوت کیپٹن نجم ریاض شہید نے ہمارے بچوں اور اس وطن کے محفوظ مستقبل کے لیے اپنی جان دی، اس شہید کی ماں تین برس سے سب کو خطوط لکھ رہی ہے کہ ایک سڑک اور رورل ہیلتھ سینٹر بنوا دیں اور کسی کے پاس وہ خط پڑھنے اور کام کرنے کا وقت نہیں ہے!