ویسے کمال کی بات نہیں ہے کہ کراچی میں موٹر سائیکل سواروں پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی لگی ہے تو سب ناراض ہوگئے ہیں؟ موٹروں کی فزیکل چیکنگ کا فیصلہ ہوا تو بھی شور مچ گیا۔ زرداری صاحب ان بے چاروں کی مدد کو دوڑے اور بولے اس سے کرپشن بڑھ جائے گی ۔ بند کرو۔ آٹھ برس کراچی پر حکومت کرنے کے بعد موصوف فرماتے ہیں اس سے کرپشن ہوگی لہٰذا ایسا قانون ہی نہ بنائیں۔ ہاں اگر عوام اس قانون کے نہ ہونے سے مرتے ہیں تو مریں۔کم از کم پیپلز پارٹی کو کوئی گالی تو نہیں دے گا۔
میں ٹی وی پر سن رہا تھا کراچی کے شہریوں کی اکثریت ناراض تھی کہ کیوں ہیلمٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام موٹرسائیکل سے گر کر مرنے کو تیار ہیں لیکن جان بچانے کے لیے ہیلمٹ پہننے کو تیار نہیں ہیں۔ اگلا اعتراض ہوا چلیں موٹر سائیکل سوار تو جیسے تیسے پہن لے گا لیکن پچھلی سواری اور وہ بھی اگر خاتون ہو تو وہ کیوں اور کیسے پہنے؟ تو کیا خاتون کو چوٹ نہیں لگے گی یا اس کا سر لوہے کا بنا ہوا ہے کہ وہ حادثے کی صورت میں محفوظ رہے گا؟ میں نے خود کئی خواتین کو موٹرسائیکل سے گر کر شدید زخمی ہوتے دیکھا ہے۔
اس طرح ہم سیٹ بیلٹ اس لیے پہن لیتے ہیں اگر پولیس نے دیکھ لیا تو تین سو روپے جرمانہ ہوگا۔ کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ حادثے کی شکل میں یہی سیٹ بیلٹ آپ کی زندگی کو بچا سکتی ہے۔ امریکہ میں باقاعدہ ہائی وے حادثات پر ریسرچ کی گئی تو پتہ چلا حادثوں کی صورت میں وہ ستر فیصد لوگ بچ گئے جنہوں نے سیٹ بیلٹ پہنی ہوئی تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ حادثے کے وقت سیٹ بیلٹ آپ کے سینے کو شدید جھٹکے کے ساتھ سٹیئرنگ پر لگنے سے روکتی ہے اور یوں دل پر چوٹ نہیں لگتی یا چہرا اور سر سیدھا فرنٹ شیشے سے نہیں ٹکراتا اور یوں ڈرائیور مرنے سے بچ جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل لاہور گیا تو ایک دوست انجم کاظمی کو ساتھ لیا۔ جب میں نے سیٹ بیلٹ پہنی تو وہ بولا کوئی ضرورت نہیں ہے‘ لاہور میں کوئی نہیں پوچھتا۔ میں نے حیرانی سے دیکھا کہ کیا سیٹ بیلٹ صرف اس لیے پہننا ضروری ہے کہ یہاں کوئی دیکھ لے گا اور جرمانہ ہوگا یا پھر اپنی جان بچانے کے لیے پہننا ضروری ہے؟
ہم کیوں ایسے بن گئے ہیں کہ جو چیز ہماری جان بچا سکتی ہے ہم اس کو بھی اپنا د شمن سمجھ لیتے ہیں۔ کراچی پولیس کو ہرگز دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔ بلکہ وہ بچوں کے لیے بھی لازمی کریں کہ اگر آپ نے موٹرسائیکل پر بچے بٹھائے ہوئے ہیں توان کے سروں پر بھی ہیلمٹ ہونے چاہئیں۔ حادثے کی شکل میں خطرہ صرف ڈرائیور کو نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے سب لوگ اتنے ہی متاثر ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف جو کچھ پنڈی میں پولیس نے کیا ہے اس کے بعد لوگ کیسے پولیس کو اپنا ہمدرد سمجھیں۔ دو بھائیوں کو جس طرح ناکے پر موٹر سائیکل نہ روکنے پر پولیس نے گولیاں مار کر قتل کر دیا‘ اس کے بعد بندہ کس طرح پولیس سے اچھائی کی توقع رکھے؟ یہ تربیت بھی بچوں کو والدین نے نہیں دی کہ آپ کو روکا جائے تو ناکے پر رکنا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس رویے کی ذمہ دار بھی پولیس ہے۔ موٹرسائیکل سوار پولیس کو دیکھ کر رکنے کی بجائے بھاگ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موٹرسائیکل سوار سر پر ہیلمٹ پہن کر نہیں نکلتا اور اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اگر پکڑا گیا تو اس کا چالان اور تین سو روپے جرمانہ ہوگا ۔ وہ تین سو روپے بچانے کے لیے موٹرسائیکل بھگا کر لے جاتا ہے۔ اسے علم ہے جو پولیس ناکے پر روک رہی ہے اس کے پاس گاڑی بھی نہیں جو اس کا تعاقب کر کے روک لے گی ۔ اس لیے وہ ایڈونچر کرتے ہوئے رسک لیتا ہے۔ دوسرا خطرہ اسے یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس موٹرسائیکل کے کاغذات نہیں ہیں لہٰذا اس کی موٹر سائیکل بند ہوجائے گی۔ وہ بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ تیسرا اسے علم ہے اس کی جیب میں تین سو روپے بھی نہیں ہیں جو وہ پولیس والے کو دے کر چھوٹ جائے گا ۔
اب ان دو بھائیوں کے کیس میں کیا ہوا مجھے علم نہیں ہے۔ ان کے ذہنوں میں کیا تھا کہ موٹرسائیکل روکنے کی بجائے بھاگ جانے کو ترجیح دی۔ یہ بھی علم نہیں پولیس کے ذہن میں کیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر سیدھا فائر کھول کر دونوں کو موقع پر ہلاک کر دیا۔ کیا یہ وار زون ہے؟ پنڈی میں کرفیو لگا ہوا تھا ؟ فسادات ہورہے تھے یا ان لڑکوں نے پولیس پر فائر کیا تھا یا ان کے پاس اسلحہ تھا؟ کیا سارا دن بوریت سے بھرپور ڈیوٹی کرنے کے بعد پولیس والے کے پاس بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم رہ جاتی ہے؟ وہ سارے دن کا غصہ ایک ایڈوینچر کر کے نکالتا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ یہ شخص کتنی دور تک موٹر سائیکل بھگا سکتا ہے؟ یا ان پولیس والوں نے سمجھ لیا تھا کہ سب لوگوں نے پولیس اور قانون کو مذاق سمجھ لیا ہے ؟ وہ جس کو بھی روکتے ہیں وہ سپیڈ لگا کر نکل جاتا ہے اور وہ منہ تکتے رہ جاتے ہیں؟ پتہ نہیں ان بھائیوں سے پہلے انہوں نے کتنے موٹرسائیکل سواروں کو روکنے کی کوشش کی اور ہوسکتا ہے سب سپیڈ لگا کر بھاگ گئے ہوں۔ ان کے پاس کوئی گاڑی نہ تھی جو ان کا پیچھا کر سکتی اور پکڑ سکتی؟
سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب باتیں درست بھی ہوں تو بھی ان سب چیزوں کا مداوا کس نے کرنا ہے؟ کیا پولیس کو اجازت دی جاسکتی ہے جو نہ رکے اسے گولی سے بھون دو؟ کیا پولیس کو گاڑیاں فراہم نہیں کی جا سکتیں کہ وہ ایسے لوگوں کا تعاقب کر کے پکڑ سکیں؟ کیا پولیس کو انسانی جان کی اہمیت کے متعلق تربیت نہیں دینی چاہیے؟ کیا کسی ضلع
کا ڈی پی او اپنی پولیس فورس کے ساتھ ہر ماہ ایک ڈنر پر کچھ گفتگو نہیں کر سکتا کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ انہوں نے انسانی جانیں بچانی ہیں یا بچوں کو اتنے بے رحم انداز میں قتل کر دینا ہے؟ کیا ان پولیس والوں کو پاسنگ آئوٹ سے پہلے ماہر نفسیاست سے لیکچرز نہیں دلوانے چاہئیں؟ کیا ہر ماہ ہر ضلع میں ایسے مستقل ماہر نفسیات نہیں ہونے چاہئیں جن سے یہ پولیس والے مشورہ کر سکیں؟ اپنی پریشانیاں اور مسائل ڈسکس کر سکیں کیونکہ بعض دفعہ گھریلو حالات کا دبائو بھی پولیس کو تشدد پر اکساتا ہے۔ اور پھر وہ ماہر نفسیات ایسے پولیس والوں کوڈیوٹی سے ہٹانے کی سفارش کریں جو ان کے خیال میں زیادہ دبائو کا شکار ہیں اور ان کی قوت فیصلہ کمزور ہوچکی ہے اور وہ اپنے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ؟
کیا یہ ایسی چیزیں ہیں جو ناممکن ہیں؟ کیسے ناممکن ہیں؟ ایسے منصوبوں پر کتنے پیسے خر چ ہوں گے؟ اربوں روپے کی سبسڈی اگر میٹرو بس پر ترکی کی کمپنی کو مل سکتی ہے تو پولیس کو کیوں نہیں تاکہ وہ نارمل انسانوں کی طرح عوام کی حفاظت کریں نہ کہ ان کو سڑکوں پر اندھا دھند گولیاں مار کر قتل کرتے پھریں؟
اس طرح کیا والدین اپنے بچوں کو بار بار گھر سے نکلتے وقت یہ یاددہانی نہیں کراسکتے کہ انہیں اگر پولیس روکے تو انہوںنے رکنا ہے‘ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو؟ انہیں بتایا جائے کہ قانون کی خلاف ورزی سے زیادہ نقصان ان کا اپنا ہے نہ کہ پولیس کا؟ اگر اشارہ توڑتے ہوئے وہ اپنی گاڑی دوسری سے ٹکرا بیٹھے تو پولیس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا جو چوک پر کھڑا ہوکر یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوگا۔ ہسپتال آپ نے جانا ہے، ہڈیاں ٹوٹنے سے ہونی والی تکلیف آپ نے محسوس کرنی ہے، دوائوں کا خرچہ اٹھانا اور سب سے بڑھ کر دوسری گاڑی کو تباہ کرنے پر اسے ہزاروں روپے لگا کر مرمت بھی آپ کو کرا کر دینا ہوگی۔ تو پھر اشارے پر بیس تیس سکینڈ رک کر انتظار کرنا بہتر نہیں ہے تاکہ آپ اتنے مسائل سے بچ جائیں؟
سوال یہ ہے کہ یہ سب چیزیں عوام کو کون بتائے؟ پولیس بتائے یا میڈیا یہ ڈیوٹی پوری کرے اور مسلسل اشتہارات چلائے جو اس کا فرض بنتا ہے۔ ٹریفک پولیس اس وقت تک لائسنس نہ دے جب تک اسے علم نہ ہو کہ اب ڈرائیور اتنا جان چکا ہے کہ وہ سڑک پر نہ اپنی جان سے کھیلے گا اور نہ ہی دوسروں کو مارے گا۔
باقی چھوڑیں میں نے کئی دفعہ اس وقت گالیاں کھائیں جب سڑک عبور کرتے کسی راہگیر کو دیکھ کر گاڑی روکی۔ یہ ہماری تربیت ہوچکی ہے۔ ہم کسی کو راستہ نہیں دیتے اور کوئی دے تو اسے گالیاں بھی دیتے ہیں۔کیا ایسے لوگوں کو سڑکوں پر گاڑی لانے کا حق ہونا چاہیے؟
موٹرسائیکل سوار بھائیوں کو نہ رکنے پر گولی مارنے والے پولیس والوں کو دیکھ کر مجھے کچھ عرصہ قبل پڑھی ایک کتاب The America on Trial یاد آگئی۔ امریکی تاریخ کا ایک پرانا مقدمہ پڑھا تو پہلی دفعہ مجھے سمجھ آیا کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے ننانوے مجرم بھی چھوٹ جائیں کوئی پروانہ نہیں لیکن ایک بے گناہ کو پھانسی نہیں لگنا چاہیے۔
اس تھیوری کے مطابق اگر ایک بے گناہ بھی پھانسی لگ گیا تو لوگوں کا ایمان اور اعتماد قانون سے اٹھ جائے گا ۔ ان کا ایمان ننانوے گناہگاروں کے چھوٹ جانے سے اتنا متاثر نہیں ہوتا جتنا ایک بے گناہ کے مارے جانے سے ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ ساری عمر قانون کی عزت کریں وہ پھر بھی بغیر کسی جرم کے کسی دن قانون کے ہاتھوں پھانسی لگ سکتے ہیں تو پھر قانون کی عزت کرنے کا کیا فائدہ۔ اور یوں معاشرہ اجڑجاتا ہے۔ اس لیے یہ تھیوری لائی گئی کہ ننانوے گناہگاروں کو چھوڑنا پڑے چھوڑ دو، ایک بے گناہ کو قتل مت کرو۔
سوال یہ ہے صدیوں پرانی یہ تھیوری وزیراعلیٰ شہباز شریف اور ان کی پولیس کو کون سمجھائے؟