شہباز شریف فرماتے ہیں جنرل مشرف نے اپنے چہیتوں کو الیکشن لڑانے کے لیے ان کے قرضے معاف کرانے کی خاطر قانون میں تبدیلی کی۔ یوں ''پسندیدہ‘‘ نادہندگان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔
چند برس پہلے میں اپنی کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ پر کام کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں‘ ایک دفعہ مری گیا جہاں سابق گورنر پنجاب شاہد حامد ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان سے طویل گفتگو ہوئی۔ انہوں نے سازشوں کی طویل داستان سنا ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح عابدہ حسین، چودھری نثار، نواز شریف‘ شہباز شریف اور میاں محمد شریف مرحوم سب مل کر صدر لغاری کے گرد گھیرا ڈال چکے تھے‘ جن کے بینظیر بھٹو کے ساتھ اختلافات عروج پر تھے۔ عابدہ حسین کی کتاب پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اب بیس برس بعد اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ انہیں بھی شریف ٹبر نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا اور یہ کہ وہ اپنے آپ کو بہت اہم سمجھ کر استعمال ہوئیں۔ کسی میں بھی تھوڑی سی ہوا بھر کر‘ اس سے اپنی مرضی کا کام کرایا جاسکتا ہے۔
عابدہ حسین عمر بھر وہ دن نہ بھول سکیں جب انہیں چوہدری نثار علی خان اسلام آباد سے اپنی گاڑی میں بٹھا کر مری لے کر گئے۔ شاہد حامد پہلے سے گاڑی میں موجود تھے۔ مری پہنچے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں خود میاں محمد شریف مرحوم بھی شامل تھے۔ سیدہ عابدہ سے درخواست کی گئی کہ وہ کسی طرح فاروق لغاری اور نواز شریف کے درمیان غلط فہمیاں دور کرادیں ۔ میاں صاحب نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے برخودار (نوازشریف) عمر بھر فاروق لغاری اور اُن (عابدہ) کے وفادار رہیں گے۔ اس کے بعد جو کچھ لغاری کے ساتھ ہوا وہ ایک اور تاریخ ہے۔ ایک دن دانیال عزیز نواز شریف کی حمایت میں زیادہ جذباتی ہوئے تو میں نے کہا‘ کبھی وقت نکال کر عابدہ حسین کی نئی کتاب پڑھ لیں۔ آپ پہلے اور آخری نہیں ہیں جو میاں نواز شریف کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد کسی نے آپ کو پہچاننا تک نہیں۔
خیر بات ہورہی تھی شاہد حامد کی۔ بات جب نگران حکومت کے الیکشن تک پہنچی تو انہوں نے اہم بات بتائی: ایک دن نواز شریف‘ لغاری سے ملے اور اُن سے عجیب فرمائش کی‘ بولے نگران حکومت نے ایک شق ایسی رکھ دی ہے جس کے تحت وہ سیاستدان الیکشن نہیں لڑ سکتے جنہوں نے بنکوں سے قرضے معاف کرا رکھے ہیں۔ مہربانی فرما کر یہ شق ہٹا دیں۔۔لغاری کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنا مشکل تھا کیونکہ انہوں نے کرپشن کی بنیاد پر بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی تھی اور اب انہیں کہا جارہا تھا کہ وہ سب کچھ بھول کر ان سیاستدانوں کو بھی الیکشن لڑنے دیں جنہوںنے بنکوں کو لوٹا تھا ۔
شاہد حامد کی یہ بات سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ لغاری کو علم ہو گیا تھا کہ وہ پھنس چکے ہیں۔ اب انہیں وہی کچھ کرنا ہوگا جو انہیں نواز شریف کرنے کو کہیں گے کیونکہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد انہیں ایک سہارا چاہیے تھا جو نواز شریف ہی ہو سکتے تھے۔ نواز شریف بھی سمجھتے تھے کہ چوٹی کا سردار اپنی خواہشات کا اسیر ہو کر ان کے دام میں آچکا ہے ۔ لغاری نے اپنی نگران کابینہ کو بریف کیا تو کچھ وزراء نے مخالفت کی اور کہا اس رعایت سے ان کا احتساب کا نعرہ متاثر ہوگا ۔ سب کہیں گے نگران حکومت نے کمپرومائز کرلیا ۔ فاروق لغاری کے ذہن میں کوئی اور کھیل تھا ۔ انہوں نے بھی چوٹی زیریں میں سیاست کرنا تھی ۔ یوں انہوں نے نگران وزیراعظم معراج خالد کو‘ جنہیں درویش وزیراعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ کچھ ہدایات دیں۔ ملک صاحب مرحوم پاور پالیٹکس خوب سمجھتے تھے‘ کام نکالنے کے لیے رونا پڑتا تو رو بھی لیتے۔ اُن کے اصول بھی انہی کی طرح بڑے معصوم اور سمجھ دار تھے۔ اس لیے انہوں نے لغاری کو نہ کرنے کی بجائے کابینہ سے منظوری لے لی کہ جنہوں نے بنکوں کو لوٹا ہے وہ نئے سرے سے دوبارہ اقتدار میں تشریف لا سکتے ہیں۔
ایوان صدر میں یہ سمجھا جارہاتھا‘ شاید نواز شریف نے خود کچھ قرضے معاف کرارکھے تھے اس لیے وہ خوفزدہ تھے کہیں وہ نااہل نہ ہوجائیں۔ یہ سوچ کر ہی لغاری تیار ہوگئے تھے کہ کہیں ان کا پسندیدہ سیاستدان الیکشن سے باہر نہ ہوجائے اور بینظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں نہ آجائے؛ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ نواز شریف اپنے لیے نہیں بلکہ یہ رعایت اپنے ساتھیوں کے لیے چاہتے تھے جن میں گجرات کی چودھری فیملی سب سے آگے تھی۔
آج شہباز شریف برس رہے ہیں کہ جنرل مشرف نے چودھریوں کو فیور دیتے ہوئے قرض معاف کرانے والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی۔ درست‘ بالکل دی تھی‘ لیکن شاہد حامد کے اس انکشاف کے بارے میں آپ کیا فرمائیں گے کہ لغاری نے باقاعدہ اپنی نگران کابینہ سے فیصلے میں تبدیلی کرائی تھی؛ کیونکہ نواز شریف چاہتے تھے کہ اس شق کو ہٹایا جائے ورنہ ان کے اپنے ساتھی الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر چودھری صاحبان‘ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں تو پھر قرضے معاف کرانا کوئی عیب نہیں‘ اگر وہ جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہوں تو یہ عمل جرم ہے۔
شاید ہمارے سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس دفعہ حالات کچھ مختلف ہیں۔ ماضی کے برعکس آج سیاستدانوں کو سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے وہ حمایت نہیں مل رہی جو کبھی ملتی تھی ۔ لٹیروں سے سبھی تنگ ہیں۔ سبھی سمجھنے لگے ہیں کہ سول سوسائٹی اور میڈیا کو جمہوریت کے نام پر بیوقوف بنایا گیا‘ سب لٹیرے‘ صحافیوں کو
جمہوریت کی لالی پوپ دے کر ملک کو لوٹتے رہے۔ ہم گلے پھاڑ کر نعرے لگاتے رہے کہ ملک میں جمہوریت آرہی ہے اسے چلنے دیں۔ سیاستدانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھالیا۔ اب پتہ چلا ہے کس پیمانے پر لوٹ مار کی گئی۔ یہ انکشاف میں نے نہیں کیا یا کسی اور نے نہیں بلکہ نواز شریف اور خورشید شاہ کے نامزد کردہ چیئرمین نیب قمرزمان فرماتے ہیں: اسحاق ڈار نے سوا ارب ڈالرز کے ناجائز اثاثے بنائے ہیں۔ حالانکہ گوشواروں میں انہوں نے مالیت ستر کروڑ روپے دکھائی؛ جب کہ ٹیکس وہ ایک لاکھ روپے سے بھی کم دیتے ہیں۔ ان پر 30لاکھ پونڈز کے مزید ناجائز اثاثے بنانے کا بھی الزام ہے۔ ابھی تک تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے‘ نہیں جناب! وہ تو اس سے بھی بڑے بڑے ''کام‘‘ کر چکے ہیں۔ اسی طرح زرداری صاحب کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ وہ چھ کروڑ ڈالرز سمیٹ کر باہر لے گئے تھے۔ نیب رپورٹ کے مطابق وہ ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیتے حالانکہ دو سو ارب روپے سے زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو اسحاق ڈار اور زرداری کے خلاف یہ دونوں نئے مقدمات ہیں۔ شاید اس لیے زرداری اور ڈار کو بھی جھٹکا لگا ہوگا یہ معلومات نیب کے پاس کہاں سے آئی ہیں کیونکہ نیب کے موجودہ سیٹ اپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ذمہ دار قانون کے نام پر اغوا کر کے پلی بارگین کے تحت ان سے مال تو کما سکتے ہیں لیکن یہ لوگ کوئی تفتیش کرنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ میری اطلاعات یہ ہیں کہ نیب کے اعلیٰ حکام کو باقاعدہ طور پر نہ صرف کچھ دستاویزات‘ زرداری اور اسحاق ڈار کے بارے میں دی گئی ہیں بلکہ بلا کر ہدایات بھی دی گئی ہیں کہ جناب! آپ نے اپنے محسنوں کا اب تک بہت خیال کر لیا‘ اب ذرا ملک و قوم کو لوٹنے والوں کا بھی کچھ محاسبہ ہوجائے۔ اس لیے اسحاق ڈار اور زرداری
اپنے ناجائز اثاثوں کے بارے میں نئے سکینڈل پر حیران نہ ہوںکیونکہ یہ ساری انفارمیشن نیب کو کسی اور ادارے کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں‘ اس لیے یہ معاملہ قمر زمان چودھری کے بس میں نہیں رہا۔ انہیں پتہ ہے کہ انہیں کس نے بلا کر کیا ہدایات دی ہیں اور یہ بھی کہ انہیں بتادیا گیا ہے ''ڈرامہ بازی بند کر کے حقیقی معنوں میں کام شروع کریں‘‘ چنانچہ انہوں نے ایک تابع فرماں کی طرح وہی کچھ کیا ہے جو انہیں اب کے کرنے کو کہا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ میں خورشید شاہ کے ناجائز اثاثوں کا مقدمہ اور اسحاق ڈار کا بدنام زمانہ منی لانڈرنگ کیس بھی غائب ہیں۔ اللہ کے فضل سے باقی مقدمات میں نیب‘ زرداری اور نواز شریف کو پہلے ہی کلین چٹ دے چکا ہے۔
گزشتہ آٹھ برسوںمیں جتنے سکینڈل سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کو کس قدر لوٹا گیا۔ جب میرے جیسے رپورٹرز سکینڈلز فائل کرتے تو ہمارا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ جناب گپیں مارتے ہیں۔ یہ بیچارے تو ملک کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ جمہوریت مضبوط ہورہی ہے۔ ان آٹھ برسوں کی جمہوریت کے اندر سے کیا نکلا؟ اسحاق ڈار اور زرداری کے ملا کر تقریباً تین ارب ڈالرز کے ناجائز اثاثے؟ اگر ایمانداری سے یہ مال کمایا گیا ہوتا تو شاید ہمیں فخر ہوتا کہ ہمارے اندر ایسے قابل لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے کی مدد سے یہ دولت کمائی ہے۔
اس لوٹ مار کی داستانیں پڑھتے ہوئے یاد آیا کہ ایک شخص گھر کی چھت سے گر کر مر گیا۔ رونا دھونا شروع ہوا تو پورا گائوں اکٹھا ہوگیا۔ گائوں کا میرے جیسا ایک سیانا لاش کے قریب گیا۔ غور سے دیکھنے کے بعد بولا آپ لوگ نا شکرے ہیں۔ شکر کیوں نہیں کرتے۔ سب نے رونا دھونا چھوڑ کر سیانے کی طرف دیکھا۔ بولا: یہ دیکھو بندہ تو مرگیا ہے لیکن شکر کریں آنکھ بچ گئی ہے۔
اسحاق ڈار کے سوا ارب ڈالرز، زرداری کے ڈیڑھ ارب ڈالرز اور ایک سو پچاس میگا سکینڈلوں کا رونا چھوڑیں۔ شکر کریں کہ جمہوریت بچ گئی ہے!