ابھی ابھی امریکہ سے آیا اور لندن ایئرپورٹ پر اترا ہوں۔ سوچا‘ پاکستان واپسی سے پہلے لندن میں کچھ پرانے دوستوں سے مل لوں۔ لندن کے دوست ناراض تھے کہ امریکہ جا کر ایسے دوست بنا لیے کہ مڑ کر لندن کا نام تک نہیں لیا۔ ڈیلیس ایئرپورٹ پر مجھے میرے دوست اکبر چودھری اور صحافی دوست اویس سلیم ڈراپ کر کے گئے تھے۔ امریکہ میں بیس دن قیام کی اپنی کہانی ہے۔ ورجینیا میں اکبر چودھری سے لے کر نیویارک میں آفاق خیالی، عارف سونی، راکیش وید‘ ڈیلور میں محمد زبیر‘ جارجیا میں اعجاز احمد اور میامی میں میاں مشتاق احمد، سینیٹر طارق چودھری، خالد بھائی تک سب کی محبت کی ایک طویل داستان ہے۔ خوبصورت گفتگو کے مالک طارق چودھری کے ساتھ جو گپ شپ ہوئی اس کے لیے پورا کالم درکار ہو گا۔ نیو جرسی میں مقیم لاہور سے تعلق رکھنے والے المان چودھری وقت نکال کر نیویارک ملنے آئے۔ بہت سے دوستوں سے معذرت کہ وعدے کے باوجود ان سے نہ مل سکا، ای میلز کا جواب تک نہ دے سکا۔ پرانے ملتانی دوست روشن ملک سے فون پر بھی بات نہ ہو سکی۔ صبح صادق بالٹی مور آنے کی دعوت دیتے دیتے تھک گئے، میں ہی سنگدل نکلا۔ اب پچھتاوا ہو رہا ہے۔ ان کہانیوں کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
میری فہرست میں امریکہ کبھی نہیں تھا۔ لندن ایک سال گزارا تو اس سے رومانس ہو گیا۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ گزشتہ برس امریکہ جانا پڑا۔ مشکل وقت میں ڈاکٹر عاصم صہبائی نے جس طرح فرشتے کا کردار ادا کیا وہ ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ رہے گا۔ کون امریکہ میں اپنے گھر پانچ ماہ رکھ کر علاج کرتا ہے! ڈاکٹر عاصم صہبائی کر سکتا تھا اور اس نے کیا۔ بہت سے دوستوں اور اجنبیوں نے مدد کی، حوصلہ بڑھایا۔ اس ای میل کو نہیں بھول سکتا جو صائمہ پاشا نے لکھی تھی اور جس نے میرے اندر اپنی اہلیہ کی بیماری کے خلاف طویل جنگ لڑنے کا حوصلہ پیدا کیا تھا۔
ورجینیا میں آخری رات شاہین صہبائی کے ساتھ طویل گپ شپ ہوئی۔ عمران بٹ، یاسر بٹر، اکبر چودھری کے ساتھ جہلم کے چغتائی صاحب کے ریسٹورنٹ میں پاکستان کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ یہ کہانی بھی پھر کبھی سہی۔ کمال کی کہانی تو تحریک انصاف کے امریکہ میں روح و رواں یاسر بٹر کی ہے۔ کیسے اس نوجوان نے دھرنے کے دنوں میں امریکہ چھوڑ کر اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے تھے۔ حیران ہوا کہ کیسے کیسے لوگوں کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
سوچا تھا امریکہ سے لندن کے لیے سات گھنٹے کی فلائٹ میں دوستووسکی کا عظیم ناول برادرز کراموزوف ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ شروع کرنے سے پہلے فلموں کی فہرست دیکھی جس میں ایک نئی فلم موجود تھی۔ کلک کی اور دیکھنے بیٹھ گیا۔ میرا خیال تھا فلم بور ہو گی، چند لحموں بعد ناول پڑھ رہا ہوں گا۔ فلم ایک ایسی بوڑھی خاتون کے بارے میں تھی جو دوسری جنگ عظیم میں ویانا (آسٹریا) میں اپنے آبائواجداد کی نازیوں کے ہاتھ لگنے والی پینٹنگز واپس لینا چاہتی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ فلم زیادہ دیر نہیں دیکھ سکوں گا کیونکہ مجھے پینٹنگز کے موضوعات پر بننے والی فلموں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ پھر پتا نہیں چلا کہ کب 144 منٹ کی فلم ختم ہوئی اور میں اس کے ٹرانس میں بیٹھا ونڈو کے باہر دور ابھرتے ہوئے سورج کی نوزائیدہ کرنیں دیکھ رہا تھا۔
بلاشبہ جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں ایسی فلمیں بنی ہیں‘ جن میں مارے گئے لوگوں کے زخم بھرنے کے لیے ایسے تھیم فلمائے گئے جن پر تنقید بھی ہوئی۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جاری کشمکش کی وجہ سے ہم مسلمانوں کو نازیوں کے مظالم پر بنائی گئی فلمیں متاثر نہیں کرتیں، لیکن میں حیران ہوتا ہوں کہ ان ملکوں نے آج بھی ماضی سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ممکن ہے جرمنوںکے خلاف تعصب اور دشمنی کی بنیاد پر فلموں میں جان بوجھ کر مصالحہ ڈال دیا گیا ہو تاکہ یہودیوںکو مظلوم دکھایا جائے، لیکن فلم اس انداز میں بنائی جاتی ہے کہ آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اسی فلم کو دیکھ لیں۔ آسٹریا پر جرمنوں کے قبضے کے بعد جس طرح یہودیوںکے ساتھ سلوک کیا گیا، چاہے آپ یہودیوں سے کتنا ہی تعصب رکھتے ہوں، سکرین پر دیکھ کر انسانی جذبات کے زیراثر ضرور آئیں گے۔ یہ ایک ایسے یہودی خاندان کی لڑکی کی کہانی ہے‘ جو ویانا کی ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک دن نازی آئے اور شہر پر قبضہ کر کے جس طرح حکومت شروع کی وہ اپنی جگہ ایک ایسی داستان ہے‘ جو ہر اس شخص کو متاثرکرے گی جس کا اپناگھر ہو، بچے ہوں اور جو اچھی زندگی گزارتا ہو۔ آپ کو کیسا لگے گا کہ آپ کے گھر میں پارٹی ہو رہی ہو، آپ دنیا کے خوش قسمت شخص کہلواتے ہوں اور اچانک آپ کو پتا چلے کہ آپ کے ملک کو شکست ہو گئی ہے اور گھر میں چند وردی پوش داخل ہو کر آپ کو بتائیںکہ اب یہ گھر آپ کا نہیں رہا۔ آپ کی جوان بچیوں کے ساتھ ایک نوجوان فوجی افسر یہیں ٹھہرے گا کہ آپ پر نظر رکھ سکے اور جاتے وقت وہ گھر کا سب قمیتی سامان ساتھ لے جائیں۔
یہی کچھ ویانا کے ایک یہودی خاندان کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک افسر کو ان کی نگرانی پر مامور کیا، گھر سے قمیتی اور لازوال پینٹنگز‘ جو اس خاندان کی عظمت کی نشانی تھیں‘ لے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنوں نے جنگ عظیم دوم میں ایک لاکھ کے قریب پینٹنگز چرائیں جو آج تک ان مالکوںکو واپس نہیں ملیں۔ امریکہ میں پچاس برس رہنے کے بعد یہ بوڑھی خاتون فیصلہ کرتی ہے کہ وہ ویانا جا کر اپنی وہ پینٹنگز واپس لائے گی۔ اس دوران جس طرح وہ اپنے ماضی سے دوبارہ جا کر جڑتی ہے‘ وہ اپنی جگہ کمال کی داستان ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ جو مظالم جنگ عظیم دوم میں یہودیوں پر ہوئے وہی یہودیوں نے فلسطین میں کیے اور وہاں ان کے بچے مارے۔ فلم دیکھ کر فارغ ہوا تو سوچا اپنا گھر اور اپنے ماں باپ چھوڑ کر کسی ایسی منزل کا سفر اختیار کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے‘ جس کا آپ کو کچھ پتا ہی نہ ہو۔ ان خاندانوںکی نفسیات کیا ہوتی ہو گی‘ جنہیں ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جس طرح ہندوئوں اور مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر ہجرت کی اور ایک دوسرے کا خون بہایا‘ وہ ایک ایسا داغ ہے جسے شاید کبھی نہ مٹایا جا سکے۔ دونوں ملکوں میں موجود انتقام کی آگ نے دونوں معاشروں کو آج تک سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ نئی نسلیں بھی اس انتقام کے احساس تلے دب چکی ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں بھی فلمیں بنائی گئیں‘ جن میں تقسیم کے متاثرہ خاندانون کی کہانیاں ہیں۔ دل دہلا دینے والی کہانیاں لکھی گئیں۔ دونوں ملکوں نے اپنی ماضی کی نسلوں کے داغ دھونے کی کوشش نہ کی، لہٰذا نفرتیں کم نہ ہو سکیں۔ چنگاری کو زندہ رکھا گیا۔ مان لیتے ہیں یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔ کیسے اپنے پیاروںکے لہو بہانے والوںکو معاف کر دیا جائے!
ابھی تک مجھے دہلی کی وہ شام یاد ہے‘ جو اس سپرا خاندان کے گھر گزاری تھی جو ڈیرہ اسماعیل خان سے ہجرت کر کے گیا تھا۔ میں صحافیوں کے وفد کے ساتھ بھارتی پارلیمنٹ کی لائبریری میں موجود تھا کہ سپرا صاحب نے ماں کی خواہش کا اظہار کیا کہ کبھی وہ پاکستان سے آئے کسی سرائیکی بولنے والے سے بات کرے۔ مجھے یاد ہے، کتنی منتوں سے سپرا صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے تھے کہ اس طرح ان کی بوڑھی ماں کی آخری خواہش پوری ہو جائے گی۔ جب ان کی ماں نے بتایا کہ ان کے گھر کو مسلمانوں نے آگ لگائی گئی تھی اور چند دوسرے مسلمانوں نے ہی اسے بچایا تھا‘ تو ان کا پوتا یہ سن کر اچانک بول پڑا: دادی! آپ نے ہمیں کبھی نہیں بتایا کہ مسلمانوں نے آپ کے گھر جلائے تھے۔ دادی بولی: میں اپنی نسلوں کی نفرت کا بوجھ اگلی نسل کے حوالے کر کے نہیں مرنا چاہتی تھی۔ میرے پاس وسائل ہوتے تو اس موضوع پر ایک بڑی فلم بناتا کہ کیسے دونوں ملکوں کے کئی خاندان اس نفرت کی آگ میں جل گئے، لیکن انہوں نے اپنی نئی نسلوں کو وہ نفرت منتقل نہیں کی۔
یورپ نے بھی ان موضوعات پر بے شمار فلمیں بنا کر لوگوں کا کتھارسس کیا۔ ان کے زخموں کو پردہ سکرین پر دکھا دکھا کر انہیں رلایا اور اتنا رلایا وہ زخم مندمل ہو گئے۔ آج وہی یورپ‘ جس نے ستر برس قبل ایک کروڑ سے زائد لوگوں کا خون بہایا تھا‘ سکون سے رہتا ہے۔ ان کی نسلوں نے ایک دوسرے کو معاف کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کام نہیں ہو سکا۔ تقسیم میں دونوں اطراف ہونے والے ظلم کی داستانیں اس طرح پردہ سکرین پر نمودار نہیں ہوئیں‘ جیسی ہونی چاہئے تھیں۔ ہم نے نفرت بھری فلمیں بنائیں جس سے آگ بجھ نہ سکی۔ آج بھی وہ ایسی فلمیں بنا کر یورپی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو لاتے رہتے ہیں تاکہ موجودہ نسلوں کو اندازہ ہوکہ ان کے آبائواجداد کی نفرت سے کتنے بے گناہوںکا لہو بہا تھا‘ دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اور نئی نسلوں کو پرانی نسلوں کا بوجھ لے کر نہیں جینا چاہیے۔
یہ فلم دیکھ کر میرے بھی چند آنسو بہہ نکلے۔ مجھے خود پر حیرت ہوئی۔ ہو سکتا ہے یہ سب فرضی کہانی ہو۔ اس فلم کے واقعات سے میری ذات کا دور دور کا تعلق نہیں... ویانا کی عورت کی کہانی سے میری زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا، اس کے خاندان کی تباہی میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے سب کچھ پروپیگنڈا ہو، پھر بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ستر برس پہلے کے ظالمانہ مناظر پر بنائی گئی فلم پر میں کیوں اتنا افسردہ ہوں؟