پہلے شک تھا،اب یقین ہو چلا ہے کہ ہم ایک خوفزدہ معاشرے میں زندہ ہیں۔اس خوف کی وجہ سے ہمارے رویے ایسے ہوچکے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے ہر لمحے ہمارے خلاف دنیا سازشیں کر رہی ہے۔ سات ارب انسانوں کی دنیا اپنا سارا کام چھوڑ کر بیس کروڑ پاکستانیوں کو تباہ کرنے کے منصوبے تیار کرتی رہتی ہے، وہ پاکستانی جن کے ملک میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی نہیں آتی۔
یہ خوف ہماری جڑوں میں ایسا بیٹھ گیا ہے کہ لگتا ہے اس سے رہائی پائی تو مرجائیںگے۔ ہر لمحے ہمارا مذہب اور ایمان اور ان کے ٹھیکیدار خطرے میں رہتے ہیں۔اس خطرے کا حل یہ نکالا گیا کہ ساٹھ ہزار بے گناہ انسان مارے گئے۔اُس عظیم مذہب کے نام پرقتل عام ہواجس کا کہنا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔اس خوف کا فائدہ چند لوگوں کو ہوا جنہوں نے اس معاشرے پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی ہے۔خوفزدہ انسانوں پر حکومت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔اس خوف نے عام پاکستانیوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ لوگ بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کسی کو چیلنج کرتے ہوئے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں مارے نہ جائیں۔ زبانوں پر تالے پڑگئے، لہٰذا جن ایشوز پر بات ہونی چاہیے وہ دب گئے ہیں۔چند لوگوں نے مذہب سے لے کر معاشرے تک سب چیزوںکو اپنی جاگیر قرار دے کر قبضہ کر لیا ہے۔ یوں اس معاشرے میں تخلیق ختم ہوگئی ہے،اس لیے جب کوئی بچہ او لیول یا اے لیول میں چند ایز(As) لے لیتا ہے تو پاکستانی اخبارات میں بہت بڑی خبر بنتی ہے، دیکھو فلاں کتنا ذہین بچہ ہے۔ بعض والدین تو اپنے بچوں کی ذہانت کا ڈھونڈرا پیٹنے اور ان پرکالم لکھوانے کے لیے ایسے حربے اختیار کرتے ہیں کہ ان کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے۔ ہمیں پتا ہی نہیں، تخلیق یا سوچ کیا ہوتی ہے، لہٰذا ہمارے لیے ہمارے بچے کا اے لیول میں چند اے گریڈ لے لینا بہت بڑی خبر ہوتی ہے جسے وہ دنیا بھر کے ساتھ فیس بک اورٹویٹر پر شیئرکرتے ہیں۔ یہ نتیجہ نکلا ہماری تخلیقی صلاحیتوں کے دم گھٹنے کا۔
مجھے یہ سب اس لیے کہنا پڑاکہ بھارت کے اداکار اور فلم سازسیف اللہ خان کی فلم پاکستان میں دکھانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ میں نے یہ فلم نہیں دیکھی، مجھے علم نہیں اس میں ایسا کیا ہے کہ عدالت کواس پر پابندی لگانا پڑی۔ سنا ہے، اس میں دکھایا گیا کہ حافظ سعیدکے قتل کا منصوبہ تیارکیا گیا ۔
چلیں مان لیتے ہیں، واقعتاً فلم کا سکرپٹ وہی ہے جو حافظ سعیدکا خیال ہے کہ ان کے قتل کا منصوبہ اس فلم کا موضوع ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں فلمیں ایسے موضوعات پر بنتی رہتی ہیں جن میں حافظ سعیدکو تو چھوڑیں سپر پاورزکے سربراہوں کے قتل کے منصوبے بنتے ہیں اور پردہ سکرین پر دکھائے جاتے ہیں۔ فلموں میں امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم تک فلموں میں اغوا اور قتل تک ہوتے ہیں۔ان معاشروں میں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی اور نہ ہی امریکی صدر ایسی فلم کو بین کرتا ہے اور نہ ہی امریکی عدالت روکنے کا حکم دیتی ہے۔ابھی لندن میں تھا تو واٹر لو میں آئی میکس کی بڑی سکرین پر جا کر ٹام کروزکی نئی فلم 'مشن امپاسبل‘ دیکھی۔اس فلم کا مرکزی پلاٹ ہی یہ تھا کہ برطانوی وزیراعظم کا اپنا سکیورٹی افسر سازش تیارکرکے اُسے قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ فلم کے ایک سین میں برطانوی وزیراعظم مکمل طور پر امریکی ایجنسی(سی آئی اے) کے کنٹرول میں ہے اورچیف سکیورٹی افسرگولی کھاکر بے ہوش پڑا ہے۔ یہ فلم برطانیہ کے تمام سینماگھروں میں دکھائی جا رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، برطانوی وزیراعظم کو جب پتا چلا ہوگا کہ اس فلم میں پلان بنا کر اسے قتل کرنے کے لئے بتایا گیا ہے کہ اسے اغوا کر کے کیسے قتل کیا جاسکتا ہے تو وہ کیوں برطانوی عدالت میں نہیں گیاکہ فلم کو روک دیا جائے کیونکہ اس سے برطانوی وزیراعظم کے عہدے اور برطانوی عوام کی توہین کا پہلو نکلتا ہے اورکسی بھی دہشت گردکے ذہن میں آئیڈیا آسکتا ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔
2013 ء میں امریکہ میں دواہم فلمیں بنائی گئیں۔۔۔۔۔ وائٹ ہائوس ڈائون اوراولمپس ہیز فالن۔ان دونوں فلموںکاموضوع ایک ہی تھا۔امریکی صدرکا اغوا اور دہشت گردوں کا وائٹ ہائوس پر قبضہ۔وائٹ ہائوس ڈائون میںبھی دہشت گرد ٹیکنیکل عملے کی شکل میں وائٹ ہائوس میں داخل ہوتے ہیں اور سب سے پہلے وہ کیپٹل ہل میں بم مارتے ہیں اور سیکرٹ سروس کے درجنوں ایجنٹ مارے جاتے ہیں۔اس منصوبے میں بھی امریکی صدر کا اپنا ایک ایجنٹ ملوث ہوتا ہے جس کا ایک بیٹا ایک آپریشن میں مارا گیا تھا اور وہ امریکی صدرکو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور اب اسے وائٹ ہائوس کے اندر یرغمال بنا کر بدلہ لینا چاہتا ہے۔اس عمل میں وائٹ ہائوس تقریباً میدان جنگ بن جاتا ہے۔
Olympus has fallen بھی امریکی صدر اور وائٹ ہائوس پر بنی ہے۔اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ جنوبی کوریا کے وزیراعظم کے وائٹ ہائوس کے دورے میں سکیورٹی کا ایک افسر سازش کرکے امریکی صدر اور جنوبی کوریا کے وزیراعظم کو یرغمال بنالیتا ہے۔ دہشت گرد جنوبی اور شمالی کوریا کو متحد کرنا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ امریکہ فوری طور پراپنا ساتواں بحری بیڑا سمندر سے واپس بلا لے جو شمالی کوریا کے جنوبی کوریا پر حملے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ امریکی صدر سے ان نیوکلیئر بموں کے کوڈ حاصل کرنا چاہتا ہے جو امریکہ نے مختلف مقامات پر امریکہ میں ہی رکھے ہوئے ہیں تاکہ انہیں دھماکے سے اڑا کر پورے امریکہ کو تباہ کر کے اسے صحرا میں بدل دیا جائے۔ایک مرحلے پر امریکی صدرکو مجبورکرنے کے لیے جنوبی کوریا کے وزیراعظم کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔امریکی صدر کو جھکانے کے لیے اس کے سامنے اس کی پوری کابینہ پر تشدد کیا جاتا ہے۔ایک منظر میں خاتون وزیرخارجہ کو گولی ماری جانے لگتی ہے۔اس پورے عمل میں امریکی کی خفیہ ایجنسی کا ایک سیکرٹ ایجنٹ ان حملہ آوروں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
دونوں فلموں نے چالیس ارب روپے کے برابر امریکہ میں بزنس کیا۔ یقینا یہ فلم امریکی صدر نے بھی دیکھی ہوگی اور سب سے بڑھ کر ہلیری کلنٹن نے جنہوں نے تازہ تازہ وزارت خارجہ چھوڑی تھی۔اس فلم میں خاتون وزیرخارجہ پر بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔
ان تینوں فلموں میں ایک چیز مشترک ہے کہ ہالی وڈ نے ایسے موضوع چنے جن میں دنیا کی سپر پاور امریکہ کے دو صدور اور برطانوی وزیراعظم کے قتل کی سازش اور وائٹ ہائوس پر حملے اور قبضے دکھائے گئے ہیں۔ صدر یرغمال بن چکے ہیں اوردہشت گرد وائٹ ہائوس پر راج کر رہے ہیں۔امریکہ نے ان فلموںکو بین کیوں نہیں کیا؟امریکی صدر اور وزیراعظم برطانیہ نے کیوں خطرہ محسوس نہیں کیا کہ ایسی فلموں سے دہشت گردوں کو فائدہ ہوسکتا ہے؟
اسی طرح پچھلے دنوں بھارت میں دو اہم فلمیں بنیں جنہوں نے ریکارڈ بزنس کیا۔ سب سے بڑی فلم عامر خان کی 'پی کے‘ تھی ۔اس فلم میں ہندوئوں کے پرانے عقائد پر شدید تنقید کی گئی۔ بھارت میںکچھ لوگ اس فلم کو بین کرانے کے لئے عدالت گئے تو بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جو فلم نہیں دیکھنا چاہتا وہ مت دیکھے اورگھر بیٹھے۔یوں اس فلم نے بھارت میں ریکارڈ پانچ ارب روپے کا بزنس کیا۔پاکستان میں بھی اس فلم نے ریکارڈ قائم کیے۔ ایک اور فلم 'او مائی گاڈ‘ بھی بنی۔ اس فلم میں دکھایا گیا کہ ایک دکاندار عدالت میں جا کر بھگوان پر مقدمہ کر دیتا ہے کیونکہ زلزلے کے نتیجے میں اس کی دکان گر جاتی ہے۔ جب وہ انشورنس لینے جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے معاوضہ نہیں مل سکتاکیونکہ زلزلہ بھگوان کی طرف سے آیا ہے، لہٰذا وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یوں وہ عدالت پہنچ جاتا ہے کہ اگر بھگوان اس کا ذمہ دار ہے تو پھر اسے بھگوان سے ہی انشورنس لے کر دی جائے۔ اس فلم کے ڈائیلاگ اورکہانی بہت متاثر کن ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ 'پی کے‘ اور 'او مائی گاڈ‘ جیسی فلمیں کیسے بھارت میں بن گئیں۔نہ صرف بن گئیں بلکہ اربوں روپے کا بزنس بھی کیا اور بار باردیکھی جاتی ہیں۔
اس سے پہلے سلمان خان کی فلم 'ایک تھا ٹائیگر‘ بنی تھی۔ اس پر بھی پاکستان میں پابندی لگادی گئی تھی۔اس میں بھارت اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوںکے افسروںکا ایک دوسرے کے ساتھ رومانس دکھایا گیا تھا۔میں نے یہ فلم لندن میں دیکھی تھی اور حیران ہوا اس میں ایسا کیا تھا کہ اسے پاکستان میں بین کر دیا گیا۔ ایک اور فلم 'ایجنٹ ونود‘ بنی جس میں بھارت اور پاکستان کے ایجنٹ مل کر ایک نیوکلیر جنگ کاخطرہ ٹال دیتے ہیں۔وہ بھی پاکستان میں بین کر دی گئی۔ جو معاشرے اپنے شہریوں کو لکھنے، سوچنے اور بولنے کے خوف سے آزاد کرتے ہیں وہیں تخلیق کار، نوبل پیس پرائز ونرز، ماہرین معیشت، چوٹی کے سائنسدان اور فلاسفر پیدا ہوتے ہیں ۔ ہمارے جیسے خوفزدہ اور تخلیق سے عاری معاشرے میں بے چارے والدین اپنے بچوں کے دو تین اے حاصل کرنے پر ہی فیس بک پر پوسٹ لگا لگا کر دیوانے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں پتا ہی نہیں تخلیق کیا ہوتی ہے۔ تخلیق کارکیسے اورکس معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں ! کم از کم ہمارے جیسے گھٹن زدہ معاشروں میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوسکتے جہاں ہر دوسرے روز کسی نہ کسی خوف کو بیناد بنا کر فلم پر پابندی لگ جاتی ہے۔ کسی کا مذہب ،کسی کا ایمان اورکسی کی حب الوطنی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
شکر ہے سیف علی خان کی فلم کو دیکھے بغیر پاکستان میں پابندی لگنے سے آسمان گرنے سے بچ گیا ورنہ پتا نہیں کیا تباہی آتی جو امریکہ اور برطانیہ میں نہیں آئی!