"RKC" (space) message & send to 7575

ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔۔۔۔!

پروفیسر طاہر ملک میرے لیے ایک کتاب چھوڑ گئے تھے۔ وہ پروفیسر فتح محمد ملک کے برخوردار اور نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک کے بھائی ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ پوٹھوہار کی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ ان سے کئی باتیں مشترک ہیں، لہٰذا وہ جب بھی ملتے ہیں خوب محفل جمتی ہے۔ کتاب دیکھی،یہ پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم کی آپ بیتی'' ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘ ہے جو لاہور کے ایک معروف پبلشرز نے شائع کی ہے۔ رات دو بجے کتاب پڑھنا شروع کی،اتنی دلچسپ ہے کہ مسلسل پانچ گھنٹے کے بعد صبح سات بجے ختم کرلی۔
کتاب میں پاکستان کی پوری تاریخ چُھپی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز شروع ہونے سے پہلے حکمرانوں نے کیسے پی ٹی وی کو گھر کی باندی سے بھی کم درجہ دے رکھا تھا۔آج کی نسل یقیناً حیران ہوگی کہ کبھی پی ٹی وی کس قدر غلام تھا۔ہمارے حکمران ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کیا چلے گا اورکیا نہیں چلے گا،کون وہاںکام کر سکے گا اور کون نہیں۔ اختر وقار عظیم نے ان لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جن سے ان کا تعلق بنا، جن سے سیکھا۔ایک دو کرداروں نے مجھے بھی متاثرکیا۔ایسے لوگ اب کہاں پائے جاتے ہوںگے۔ تاہم جن باتوںکا ذکر اختر وقار عظیم نے کیا وہ ان لوگوںکے بارے میں ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکمرانی کی۔ 
بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت تھی۔ ایک دن وزیراعظم ٹی وی سنٹر تشریف لائیں اور شکایت کی کہ خبرنامہ پچیس منٹ کی بجائے روزانہ چالیس منٹ کاکیوں ہوجاتا ہے؟ فرہاد زیدی بولے، دراصل وزراء کی فرمائشیں ہوتی ہیں جو ٹالی نہیں جا سکتیں،آپ انہیں منع کر دیں تو خبرنامہ پچیس منٹ کا ہی ہوگا۔محترمہ بولیں، وہ آج خود خبرنامہ تیارکریں گی۔انہوں نے وزیراعظم کا منصب ایک طرف رکھا اورخود خبریں بنانے بیٹھ گئیں۔جب خبرنامہ چل چکا تو پتا چلا کہ خبرنامہ چالیس منٹ کا تھا۔ایک دفعہ بے نظیر وزیراعظم کے طور پر پی ٹی وی آئیں تو فرمائش کی کہ انہوں نے راستے میںایک شخص کو مکئی کے بھٹے بھنتے دیکھا ہے، دو بھٹے منگوائے جائیں۔حکم کی تعمیل ہوئی اورانہوں نے وہیں بیٹھ کر بھٹے کھائے۔
وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کراچی میں تھے۔اچانک ان کی تقریرکی ضرورت پڑگئی۔ ٹی وی کی ٹیم کراچی میں ان کے گھر پہنچی تو اس کی حالت دیکھ کر سب حیران ہوئے کیونکہ یہ کہیں سے وزیراعظم کاگھر نہیں لگ رہا تھا۔اونچی میز اورکرسی بھی نہ ملی جس پر بیٹھ کر ریکارڈنگ کی جاسکتی۔ایک چھوٹے سے اسٹول پرکتابیں رکھ کراس حد تک اونچا کیا گیا کہ اس پر مائیکرو فون لگایا جاسکے۔ کتابوں کے سائز مختلف تھے اس لئے عارضی طور پربنائی گئی میز کی شکل چوکور یا مستطیل کی بجائے مخروطی بن گئی۔ 
اختر وقار عظیم لکھتے ہیں، سب وزرائے اعظم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے منفرد نظر آئیں اور ایسا خطاب فرمائیں جو دوسروںکو یاد رہے۔اس چکر میںکئی عجیب و غریب فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا گیا کہ وہ کسی کھیت میں بیٹھ کر خطاب فرمائیں توکیا بات ہے۔ لوگ حیران رہ جائیں گے۔ نواز شریف تیار ہوگئے۔ سندھ کا دیہی علاقہ اس کام کے لیے چنا گیا۔ ٹی وی اور ریڈیوکی ٹیمیں وہاں پہنچ گئیں۔گرمی بہت تھی۔ وزیراعظم بھی جلدی میں تھے لیکن بہت دیر تک ریکارڈنگ شروع نہ ہوسکی کیونکہ وہ پلنگ جس پر وزیراعظم بیٹھے تھے اس کے پائے اونچے تھے اور وزیراعظم کے پائوں زمیں تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔یہ بات نواز شریف کو پریشان کر رہی تھی۔ وہ دونوں ٹانگیں آگے پیچھے چلا رہے تھے جیسے فٹ بال کھیل رہے ہوں۔اس پر وزیراعظم کے سیکرٹری کو توجہ دلائی گئی کہ وہ کوئی حل نکالیں۔ وزیراعظم بھی اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہاں یار میں بھی بہت تنگ ہو رہا ہوں۔پلنگ کے پائے چھوٹے کرنے کے لیے آری کی تلاش شروع ہوئی لیکن کھیت میں آری کہاں سے ملتی۔ کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ زمین کھودکر پائے اس میں دبا دیں۔ یوں وزیراعظم کا خطاب ریکارڈ ہوا۔جنرل یحییٰ خان آخری دنوں میں تقریر ریکارڈ کرانے پی ٹی وی پہنچے تو بڑی تیاری کرکے آئے۔ ٹی وی کے میک اپ آرٹسٹ نے چہرے پر پائوڈرڈالا اورکنگھی جنرل کے سرکی طرف بڑھائی تو انہوں نے انتہائی غصے سے کہا، بالوں کو ہاتھ مت لگانا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو میک اپ وغیرہ کے تکلف میں نہیں پڑتے تھے۔ وہ کرسی پر بیٹھتے ہی تقریر شروع کر دیتے۔ ریکارڈنگ کے دوران ایک کیمرے میں خرابی ہوگئی تو اس سے گھوںگھوںکی آواز نکلنے لگی ۔ بھٹو ناراض ہوکر بولے، کیا آپ کو علم نہیں وزیراعظم قوم سے خطاب کررہا ہے، یہ کیاگھوںگھوں لگا رکھی ہے۔ جاتے وقت بولے، تقریر تو اچھی ہوگئی لیکن وہ حصہ نکال دینا جس میں میں نے خفگی کا اظہارکیا ہے۔ 
جنرل مشرف نے بارہ اکتوبرکی رات پی ٹی وی پر تقریرکرنی تھی۔ پتا چلا کہ ان کے پاس وردی نہیں کیونکہ وہ سویلین سوٹ میں سفرکر رہے تھے۔ائرپورٹ پر موجود ایک کمانڈوکی قمیض پہن کر مشرف نے تقریر ریکارڈکرائی۔ 
سب سے دلچسپ لطیفے جنرل ضیا دور کے ہیں۔ جنرل مجیب الرحمن ان کے وزیر اطلاعات تھے۔ جنرل ضیاکسی تقریب کی تصویرکشی کے سلسلے میںانتظامات پر برہمی کا اظہارکر رہے تھے۔ روشنی سیٹ کرنے میں دیر ہو رہی تھی۔ مصلح الدین جن کا تعلق خبروںکے شعبے سے تھا‘ وہ بھی موجود تھے۔جنرل مجیب نے زچ کیا تو وہ بھی زچ ہوکر بولے، جناب عالی! یہ روشنی بہتر تصویر بنانے کے لیے ضروری ہے۔کیمرہ لائٹ مانگتا ہے۔ یہ کام صرف ایمان کی روشنی سے نہیں ہوسکتا۔جنرل ضیا کے دور میں ایک دفعہ فیض احمد فیض اور احمد فراز پی ٹی وی چائے پر چلے گئے تو اگلے دن افسروںکی جواب طلبی کی گئی کہ وہ کیوں وہاں بلائے گئے تھے۔ 
جنرل ضیاء کو مرنے سے پہلے خطرے کا ادراک ہوچکا تھا۔ یوم ازادی کی تقریب میں شرکت کرنی تھی تو انہوں نے ایوان صدر کے لان میں موجود چالیس درخت کٹوا دیے کہ کہیں کوئی ان کے پیچھے چھپ کر ان پر گولی نہ چلا دے۔
اختر وقار عظیم لکھتے ہیں کہ ایک دن اس وجہ سے انہیں جنرل ضیاء کے حکم پر معطل کر دیا گیا کہ ایک رات پہلے کشتی کے ایک مقابلے میں ایک پہلوان نے دوسرے کی پٹائی کی تو اس کے چیرے پر خون بہنے لگا۔ جنرل صاحب کی بیٹی کو اچھا نہ لگا اور حکم ہوا کہ اس پروگرام کے پروڈیوسر کو معطل کر دیا جائے۔ 
ایک پروگرام میں بلھے شاہ کا شعر چلنا تھا ؎ 
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے‘ ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھائیں رب دلاں وچ رہندا 
معاملہ ٹی وی کی سنسر کمیٹی کے پاس گیا تو حکم ہوا کہ شعر کاٹ دیا جائے۔ عون محمد رضوی نے وضاحت کی کہ دوسرے مصرع میں وضاحت ہوجاتی ہے اور شعر قابل اعتراض نہیں رہتا۔ چیئرمین پی ٹی وی مسکرائے اور بولے‘ بھولے بادشاہو دوسرا مصرع کس نے سننا ہے۔ میں اور تم پہلے مصرع پر ہی نکال دیے جائیں گے۔ یوں یہ شعر نشر نہ ہوسکا۔ 
جنرل ضیاء دور میں ہر رات خبروں اور پروگراموں کی ریکارڈنگ ان کے گھر جاتی تھی۔ وہ اکثر خبرنامہ دیکھ کر ناراضگی کا اظہار کرتے۔ ایوان صدر بلا کر پروگرام کے وہ حصے دکھا کر ناراض ہوتے۔ ایک دن ایک پروڈیوسر کو بلایا گیا۔ سب کا خیال تھا کہ اس کی شامت آئے گی۔ واپسی پر مسکراتا آیا اور بولا کہ آج شامت کی باری درزی کی تھی۔ جنرل ضیاء نے اسے ریکارڈنگ دکھا کر شیروانی کی سلائی کی خامیوں کی نشاندہی کی تھی جن میں نمایاں کندھوں کے نیچے کپڑے میں پڑنے والا جھول تھا۔ جنرل ضیاء نے درزی کی خوب تواضع کی۔ درزی کو شیروانی اور ریکارڈنگ دی گئی کہ وہ سلائی کی خامیاں دور کرے۔ 
جنرل ضیاء کا زمانہ تھا۔ شعیب ہاشمی پروگرام ''ٹال مٹول‘‘ کر رہے تھے۔ ایک پروگرام میں دکھایا گیا کہ دو لوگ شطرنج کھیل رہے ہیں۔ ایک نے دوسرے کھلاڑی کو شہہ دے کر کہا کہ لو تم نے میرا وزیر مارا ہے میں تمہارا بادشاہ مار دیتا ہوں۔ شور مچ گیا کہ یہ بات جنرل ضیاء کے بارے میں کہی گئی تھی۔ کچھ دن بعد پروگرام بند کر دیا گیا۔
ایک شام سب کو پیغام ملا کہ سب پی ٹی وی سنٹر اکٹھے ہوں۔ جنرل ضیاء آرہے ہیں اور کل شام کی ٹرانسمیشن کی ریکارڈنگ دیکھیں گے جو ان کی تقریر کے بعد دو گھنٹے تک نشر ہوئے۔ ریکارڈنگ دکھانے کے انتظامات کرلیں۔ اس موقع پر وزیراطلاعات الٰہی بخش سومرو، سیکرٹری، اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود ہوں گے۔ جنرل ضیاء تشریف لائے۔ سب سے مسکرا کر ملے۔ تقریر کے بعد سوہنی دھرتی کا گانا لگا۔ اشتہارات نشر ہوئے، کوئی اعتراض نہ ہوا۔ خبرنامہ چلا جس میں بیس منٹ تک صدر کی تقریر چلی۔ خبرنامے کے بعد بنجمن سسٹرز کا گانا چلا: 
خیال میں ایک روشنی ہے
یہ روشنی سدا رہے گی 
نغمے میں تینوں بہنیں ہاتھ میں چراغ لیے سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ یہ گانا سنتے ہی جنرل ضیاء کا پارہ چڑھ گیا اور بولے‘ میں اسلامی نظام کی بات کررہا ہوں اور آپ لوگ یہ ہندووانہ قسم کا گانا نشر کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کا لباس بھی مناسب نہیں ۔ کوئی میری بات اور سوچ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہا۔ سب اخبارات بھی ایسی خرافات سے بھرے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد ایک گھنٹے تک وہ بولتے رہے کہ پی ٹی وی کو کیا کرنا چاہیے۔ غصہ کم ہوا اور چلتے ہوئے کہا کہ آپ سب لوگ دفتر جائیں اور ایسے کریں جیسے میں نے کہا۔
جب وہ سب افسران دفتر پہنچے تو ایم ڈی آغا ناصر سمیت سب افسران کے کمروں میں ان کی برطرفی کے خطوط جنرل ضیاء کے حکم پر پہنچ چکے تھے۔ سب حیران کہ اگر برطرف کرنا تھا تو ایک گھنٹے تک لیکچر کیوں دیا کہ ان کے نظریات کی روشنی میں کیسے پی ٹی وی کو چلانا ہے۔ شاید اسی لیے جس دن جنرل ضیاء کا جنازہ تھا اس دن عبیداللہ بیگ کے منہ سے جذبات میں لائیو نشریات کے دوران یہ بات نکل گئی تھی! 
''ہر طرف لوگ ہی لوگ ہیں ۔ اگر آج جنرل ضیاء زندہ ہوتے تو وہ خود دیکھتے کہ کتنے لوگ انہیں الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں...!‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں