درجنوں سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر جس طرح آصف زرداری ، خورشید شاہ اور دیگر پارٹی رہنمائوں نے ماتم شروع کیا ہے اس پر جی چاہتا ہے ان کی پارٹی کے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی 14 اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی گئی ایک طویل تقریر کا کسی دن یہاں ترجمہ پیش کروں تاکہ پتہ چلے کہ موجودہ قیادت کس کھائی میں جاگری ہے ۔اگر کسی نے ہندوستان کی تاریخ پڑھنا ہو، انگریزوں کی آمد، مسلمانوں اور مغلوں کا زوال ، ہندو مسلم کشمکش، پاکستان بننے سے لے کر پاکستان ٹوٹنے تک کی کہانی سننی ہو یا پھر سرمایہ داروں نے اس ملک کو ابتدائی چوبیس برسوں میں کیسے لوٹ لیا تھا تو وہ تاریخ کی درجنوں کتابیں پڑھنے کی بجائے بھٹو کی یہ ایک تقریر پڑھ لے۔ بھٹو کا ان کے فیصلوں اور آمرانہ مزاج کا ناقد ہونے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ پاکستانی سیاستدانوں میںواحد پڑھا لکھا شخص تھا۔ اگرچہ اس کے ناقد کہتے ہیں اتنا عالم ہونے کا کیا فائدہ اگر آپ درست فیصلے کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور ایک دن اپنے منتخب کیے ہوئے جنرل کے ہاتھوں پھانسی لگ جائیں ۔
کہاں بھٹو ملک ٹوٹنے کے بعد بچے کھچے پاکستان کی اسمبلی سے خطاب میں وجوہ بیان کررہا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیا سانحہ ہوگیا تھا اور کہاں زرداری اور اس کے حواری ایک ایسے شخص کے لیے سب چیز دائو پر لگائے ہوئے ہیں جس کا کبھی اس پارٹی سے دور دور تک تعلق نہ تھا۔ اگر کوئی تعلق تھا تو اتنا کہ اس نے زرداری کے ساتھ مل کر ہر وہ کام کیا جس سے وہ دونوں مال بنا سکتے تھے۔ ہماری جمہوریت کی مجبوریوں کی داستان ملاحظہ فرمائیں۔صحت کی وزیر مملکت سائرہ افضل تاڑر فرماتی ہیں‘ ڈاکٹر عاصم حسین نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا‘ اُس نے میڈیکل تعلیم تباہ کر کے رکھ دی۔ سائرہ افضل تاڑر کو یہ سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی جرأت نہ ہوئی کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کر سکتیں کیونکہ ان کے وزیراعظم نواز شریف کی طبیعت پر یہ سب کچھ گراں گزرتا ۔ سائرہ افضل تارڑ کو بھی ڈاکٹر عاصم کے خلاف یہ سب کچھ کہنے کی جرأت اس دن ہوئی جس دن رینجرز نے انہیں گرفتار کر لیاورنہ وہ بھی خاموش رہ کر جمہوریت بچارہی تھیں۔ جس دن زرداری صاحب نے عاصم حسین کی گرفتار ی پر وزیراعظم نواز شریف پر جواباً حملہ کیا اور گنوایا کہ کیسے ان کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار ہوں یا پھر آئی ایس آئی اصغر خان کیس کے کردار یا پھر وڈیو فیم رانا مشہود ہوں، کیوں کارروائی نہیں ہوتی۔ وزیراعظم ہائوس سے ایک پیغام ٹی وی شوز پر جانے والے وزراء اور دیگر کو بھیجا گیا کہ کسی نے بھی زرداری صاحب کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔یہ ہے ہمارا ملک اور اب بتائیں اسے کیسے چلائیں ۔ زرداری صاحب کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو وہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیں گے۔ وزیراعظم ڈر کر کہتے ہیں کہ کوئی بھی زرداری صاحب کی بات نہ کرے ورنہ جمہوریت خطرے میں پڑجائے گی۔ اسے جمہوریت کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو بلیک میل کر کے حکومت کرو۔ اگر تم نے میرے حواریوں کے خلاف کارروائی کی تو پہلے اپنے حواریوں کے خلاف کارروائی بھی کرو ورنہ میں شور ڈالوں گا ۔ یہ ہوا ہے نواز شریف اور زرداری صاحب کی لائی گئی جمہوریت کا فائدہ ۔ دونوں اس قابل نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کو طعنے ہی دے سکیں۔
دوسری طرف ایک اور کہانی سن لیں احتساب کے ادارے اور ان عہدو ں پر بیٹھے بڑے لوگ کیسے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ نیب جس سے کبھی سب خوفزدہ ہوتے ہیں آج کل خود خوفزدہ ہے اور سپریم کورٹ میں اعتراف کیا کہ نیب افسران کو اب دھمکیاں ملتی ہیں اور جرائم پیشہ انہیں ڈراتے ہیں ۔ مجھے بتائیں کیسے دھمکیاں نہ ملتیں جب نیب کو چیئرمین ہی ایسے ملے یا نواز شریف اور خورشید شاہ نے مل کر لگائے جو خوشامد میں ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں اور جن کے نزدیک ملک ڈوبتا ہے تو ڈوب جائے لیکن ان کے محسنوں کے سفید کپڑوں پر کوئی داغ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہانی بھی سن لیں ہمیں کیسے کیسے چیئرمین نیب نصیب ہوئے!
بدھ کے روز بڑے عرصے بعد سپریم کورٹ گیا کہ وہاں چند اہم مقدمات کی سماعت ہونا تھی۔ ایک کیس کی سماعت ہورہی تھی کہ اوگرا سکینڈل کے مرکزی کردار توقیر صادق کو کیسے پاکستان سے فرار کرایا گیا ؟ عدالت نے ایک کمشن بنایا تھا جس کا کام تھا کہ وہ نیب، ایف آئی اے اور پنجاب پولیس سے پتہ کرے کہ توقیر صادق کیسے دبئی فرار ہوا اور اسے واپس لانے پر کتنے پیسے خرچ ہوئے۔ جبب کمشن کی رپورٹ کے حقائق عدالت کے سامنے پڑھے جانے لگے تو میں صدمے کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ بتایا گیا کہ جب توقیر صادق اور دیگر کے خلاف اوگرا سکینڈل کی تحقیقات شروع ہو گئی تو ایک دن انکوائری افسر وقاص احمد خان نے انہیں بلا کر نیب اسلام آباد میں اپنے کمرے میں تحقیقات کی۔ اس دوران وقاص کو توقیر صادق کے وارنٹ گرفتاری دیے گئے جس پر انہوں نے گارڈز بلا کر گرفتار کر لیا ۔ جب وہ اس گرفتاری کا اندراج کرنے دوسرے کمرے میں گئے تو کچھ دیر بعد ایک افسر دوڑا ہوا آیا اور بولا جناب جن وارنٹ پر آپ نے توقیر صادق کو گرفتار کیا ہے وہ چیئرمین فصیح بخاری سے غلطی سے جاری ہوگئے تھے۔ آپ وارنٹ کو پھاڑ دیں اور توقیر صادق کو رہا کر دیں۔ یوں فصیح بخاری کے حکم پر توقیر صادق کے وارنٹ پھاڑ دیے گئے اور اسے گھر جانے دیا گیا۔ چند دنوں بعد جب توقیر صادق پاکستان سے باہر فرار ہوگیا اور فصیح بخاری کو تسلی ہوگئی کہ وہ طورخم کے راستے افغانستان اور پھر دبئی پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے دوبارہ ان کے وارنٹ پر دستخط کیے
کہ اسے گرفتار کرو ۔ اب انکوائری افسر وقاص احمد کو پتہ نہیں تھا کہ چیئرمین فصیح بخاری نے دوبارہ گرفتاری کا حکم اس لیے دیا تھا کہ اب انہیں پتہ تھا کہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں۔ اپنے تئیں وقاص احمد خان اپنی فورس لے کر گورنر ہائوس پنجاب کے باہر پہنچ گئے کہ توقیر صادق جونہی باہر نکلے گا اسے گرفتار کریں گے۔ اتنی دیر میں ٹی وی چینلز پر بھی خبر چل گئی کہ نیب ٹیم گورنر ہاوس کے باہر موجود ہے۔ پھر خبریں آئیں کہ اب نیب کی ٹیم توقیر صادق کا تعاقب موٹروے پر کر رہی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ نہیں توقیر صادق اس وقت پنجاب ہائوس میں جہانگیر بدر کے کمرے میں چھپا ہوا ہے۔ وہاں پر نیب نے چھاپہ مارا اور کچھ نہ نکلا۔ اس پر جہانگیر بدر نے سینٹ میں تحریک استحقاق پیش کر دی جو آج تک چل رہی ہے۔ جب نیب یہ سب اپنی پھرتیاں دکھا رہا تھا اس وقت توقیر صادق دوبئی میں بیٹھا ان سب پر ہنس رہا تھا کہ یہ کیا ڈرامہ ہورہا ہے۔ اب بتائیں کہ اس ملک سے کرپشن کیسے ختم ہوسکتی ہے کہ اگر نیب چیئرمین فصیح بخاری پہلے وارنٹ پر دستخط کرتا ہے اور پھر ملزم کی گرفتاری کے چند لمحوں کے بعد ایک فون پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔ اپنے ہی جاری کیے وارنٹ گرفتاری کو پھاڑ دے اور ملزم کو رہا کرا کر دبئی فرار میں اُس کی مدد کرے‘ تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے؟میں عدالت میں ججوں کا منہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کیا کریں یا کیا کرسکتے ہیں؟
اب نئے چیئرمین نیب قمرالزماں کی کہانی سن لیں۔ اسی اوگرا سکینڈل میں کل بارہ کے قریب ملزم نیب ریفرنس میں نامزد کیے گئے تھے جن میں توقیر صادق کے علاوہ پٹرولیم کے وزیر ڈاکٹر عاصم حسین اور اقبال زیڈ احمد شامل تھے۔ انکوائری افسر وقاص احمد نے ستر صفحات پر مشتمل اپنے اس ریفرنس میں بڑی محنت سے تمام ثبوت اکٹھے کیے تھے۔ اس انکوائری رپورٹ کو نیب کے بورڈ کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا ۔ اس وقت کے چیئرمین فصیح بخاری نے بورڈ سے اس کی منظوری لے لی اور یوں اسے ریفرنس کی شکل دے دی گئی؛ تاہم ایک سال بعد نئے چیئرمین قمر زمان چودھری کے حکم پر دوبارہ ایک نئی انکوائری رپورٹ تیار کی گئی جس میں خاموشی سے وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور اقبال زیڈ احمد کا نام نکال دیا گیا ۔ عدالت میں جو رپورٹ پیش کی گئی اس پر خاصے شکوک ہیں ۔ نیب کا سرکاری طور پر کہنا ہے انکوائری افسر وقاص احمد خان نے تین ممبر ٹیم کے ساتھ سندھ میں جے جے وی ایل کے اس پلانٹ کا دورہ کیا تھا جس پر الزام تھا کہ وہاں سے ڈاکٹر عاصم اور اقبال زیڈ احمد ایل پی جی اور گیس چوری میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو کوئی ثبوت نہ ملا کہ گیس چوری ہوئی تھی لہٰذا انہوں نے اپنے ریفرنس میں سے ڈاکٹر عاصم حسین اور اقبال زیڈ احمد کا نام نکال دیا ۔ تاہم وقاص احمد خان کے قریبی نیب ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ وقاص نے کوئی نئی انکوائری رپورٹ نہیں لکھی تھی۔ یہ رپورٹ دراصل نئے چیئرمین قمرزمان چودھری کی فرمائش پر تیار کی گئی تھی جس پر وقاص احمد خان کے دستخط کی فوٹو کاپی بنا کر اس رپورٹ کے ہر صفحے پر چپکا کر عدالت میں پیش کر کے ڈاکٹر عاصم حسین کو بچالیا گیا ۔
کچھ ذرائع یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ اس لین دین میں بہت کچھ ہوا کیونکہ اس دنیا میں کوئی کام بھی مفت میں نہیں ہوتا اور اس ریفرنس میں تو کوئی کام فری ہو ہی نہیں سکتا تھا جس سکینڈل کی مالیت اس وقت 72ارب روپے بتائی گئی تھی۔ ڈاکٹر عاصم اور اقبال زیڈ احمد کا نام سکینڈل سے نکالنے کے بعد یہ سکینڈل 72کی بجائے 42ارب روپے کا بن گیا تھا ۔ میرے پاس اس سکینڈل کی دونوں رپورٹس اور ریفرنس موجود ہیں۔ ایک میں ڈاکٹر عاصم حسین اور اقبال زیڈ احمد پر دس کے قریب الزامات ہیں اور دوسری رپورٹ میں ان دونوں کا نام رپورٹ سے غائب ہے۔
زندہ باد فصیح بخاری اور زندہ باد قمرالزماں چودھری! یہ مت بھولیں فصیح بخاری کو زرداری نے چیئرمین لگایا تھا تو قمرزمان چودھری کو لگانے کا نیک کام جناب نواز شریف کے ہاتھوں انجام پایا۔ دونوں جینٹل مینوں نے اپنے محسنوں کو بالکل مایوس نہیں کیا!