بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے کئی سازشی تھیوریاں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ یوں آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ بینظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا تھا ۔
پہلی تھیوری وہ ہے ‘جسے جنرل مشرف اور ان کے حامی بار بار دہراتے ہیں کہ بینظیر بھٹو اگر اس دن گاڑی سے سر باہر نہ نکالتیں تو بچ جاتیں‘ جیسے گاڑی میں موجود دیگر لوگ بچ گئے تھے لہٰذاکسی اور کو قصور وار نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان لوگوں کے نزدیک اس وقت چالیس سے زائد لوگوں کا بینظیر بھٹو کی گاڑی کے اردگرد مارا جانا اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ جنرل مشرف اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ ریاست نے اگر بینظیر بھٹو کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی ہوئی تھی تو ایک پستول بردار اور دو خودکش حملہ آور بینظیر بھٹو کی گاڑی کے اتنے قریب کیسے پہنچ گئے تھے۔
یہ بات طے ہے کہ جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو میں اگر کوئی ڈیل این آر او کے تحت لندن میں جنرل کیانی کے ذریعے ہوئی تھی تو وہ اٹھارہ اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی جب بینظیر پر حملہ ہوا ۔ بی بی کو پتہ چل گیا تھا کہ کچھ لوگ انہیں مارنا چاہتے تھے۔ رہی سہی کسر اس دن پوری ہوگئی جس دن جنرل مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی لگائی۔ اس سے بینظیر بھٹو پر یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ جنرل مشرف اپنی ڈیل سے مکر گئے تھے۔ وہ اب انہیں اقتدار میں نہیں لائیں گے۔ بلکہ بینظیر بھٹو کو یہ خوف ہوچلا تھا کہ اب جنرل مشرف مزید دس برس تک نئے مارشل لاء کی چھتری میں بیٹھیں گے۔ اس ملک میں نئے الیکشن نہیں ہوں گے۔ اس لیے بینظیر بھٹو کے لیے یہ Do or die والی بات ہوچکی تھی۔ ان کے لیے یہ آخری موقع تھا کہ وہ پاکستانی سیاست میں کم بیک کریں۔ یہی وجہ تھی کہ جس رات ایمرجنسی کا اعلان ہوا بینظیر بھٹو نے فوراً اس کی مذمت کی اور پہلی فلائٹ لے کر پاکستان پہنچ گئیں۔ اب ان کا جنرل مشرف سے براہ راست مقابلہ تھا۔ امریکی پلان ناکام ہوچکا تھا ۔ جنرل مشرف بینظیر سے خفا تھے کہ ان کے وطن لوٹنے سے ان پر سعودیوں کا دبائو بڑھ گیا تھا کہ وہ نواز شریف کو بھی واپس لوٹنے دیں۔ جنرل مشرف کو بینظیر سے زیادہ خوف نواز شریف سے تھا کیونکہ ان کی الیکشن سے پہلے پاکستان میں موجودگی کا مطلب جنرل مشرف کی سیاسی موت تھا‘ جبکہ بینظیر کو اندازہ ہو چلا تھا کہ اب کی بار وہ امریکیوں کی مدد سے پاکستان واپس نہ گئیں اور ان کی عدم موجودگی میں الیکشن ہوئے تو پھر وہ ساری عمر جلاوطنی میں ہی گزاریں گی ۔ بینظیر بھٹو کی پریشانی کی وجہ وہ ریڈ وارنٹ تھے جو جنرل مشرف ہر دوسرے تیسرے ماہ ان پر دبائو ڈالنے کے لیے اپنے وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو کے ذریعے جاری کراتے رہتے تھے۔ بی بی کو سوئس عدالتوں میں چلنے والے مقدمات بھی پریشان کر رہے تھے لہٰذا ان کا ہر قیمت پر پاکستان لوٹنا اور وزیراعظم بننا واحد راستہ تھا۔ بینظیر افورڈ نہیں کر سکتی تھیں کہ وہ 2002ء کے پانچ سال بعد ہونے والے الیکشن میں حصہ نہ لیں اور 2013ء تک انتظار کریں۔ اس لیے بینظیر بھٹو کو اپنی کشتیاں جلانی تھیں اور انہوں نے جلا کر ہی جنرل مشرف سے ٹکر لی اور ماری گئیں۔
دوسری طرف جنرل مشرف امریکہ سے بھی ناراض تھے کہ اُس نے دس برس تک انہیں استعمال کیا۔ ان پر تین حملے ہوئے اور اب وہ اُس کے نزدیک ناکارہ ہوگئے تھے۔ امریکی پہلے وردی اتارنے کیلئے اُن پر دبائو ڈال رہے تھے۔ پھر بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بنانے کا دبائو۔ مشرف کو محسوس ہوا کہ انہیں بھی جنرل ایوب، جنرل ضیاء کی طرح استعمال کر کے جان چھڑائی جارہی تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ جس بینظیر بھٹو پر امریکہ اور دیگر انحصار کر رہے تھے اس سے جان چھڑائی جانی چاہیے۔ جس نے بھی یہ کام کیا اس نے کسی کا فائدہ دیکھ کر کیا اور جیسے مشرف زرداری کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ اسی طرح کا اشارہ ان کے ناقد ین ان کی طرف بھی کرتے ہیں۔ بینظیر بھٹو نہ رہیں تو امریکہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ دوبارہ انہی پر بھروسہ کرے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی موت کے بعد جنر ل مشرف کے خلاف نفرتیںبڑھ گئی تھیں اور اب وہ امریکیوں کے لیے مزید ناکارہ ہوچکے تھے۔
خیر یہ جوا جس نے بھی کھیلا وہ کامیاب نہ ہوا کیونکہ الیکشن پیپلز پارٹی نے ہی جیتنا تھا۔ یہ پلاننگ بینظیر کے قتل کے بعد کام نہ آسکی ۔
جہاں تک بینظیر بھٹو کے گاڑی سے سر نکالنے پر اعتراض ہے‘ جس کی طرف جنرل مشرف اپنی جان بچانے کے لیے ہر دفعہ اشارہ کرتے ہیں کہ یہ دیکھنا چاہیے بینظیر بھٹو کے مرنے کا فائدہ کس کو ہوا ہے۔ ان کا اشارہ غالباً زرداری کی طرف ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جہاں جنرل مشرف زرداری صاحب پر شک کرتے ہیں‘ وہیں زرداری صاحب ناہید خان پر شک کرتے ہیں کہ وہ انہیں زبردستی لیاقت باغ لے کر گئیں اور سکیورٹی ان کے ذمے تھی۔
جہاں تک بینظیر بھٹو کے گاڑی سے سر باہر نکالنے کی بات ہے تو اس میں اس لیے وزن نہیں ہے کہ تحقیقاتی اداروں نے بعد میں اپنی تفتیش میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ بینظیر بھٹو کو مارنے کے لیے دو خودکش حملہ آور بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے ایک رات اکوڑہ خٹک کے ایک مدرسے میں قیام بھی کیا تھا جہاں سے انہیں پنڈی لایا گیا تاکہ وہ بینظیر کو قتل کر سکیں۔ پلان کے تحت بینظیر کی بلٹ پروف گاڑی پر حملہ کر کے اسے تباہ کرنا تھا اور جب تباہ حال گاڑی سے بینظیر بھٹو کو نکال کر دوسری گاڑی میں شفٹ کیا جاتا‘ اس وقت دوسرے خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو وہاں دھماکے سے اڑا دینا تھا ۔ دہشت گردوں کے پلان میں بینظیر بھٹو کا پہلی کوشش میں مارا جانا شامل نہیں تھا بلکہ پلان ہی یہی تھا کہ جب وہ دوسری گاڑی میں بیٹھنے لگیں گی تو اس وقت دوسرا حملہ ہوگا اور ان کا بچنا مشکل ہوگا کیونکہ وہ سڑک پر ایکسپوز ہوں گی۔ بینظیر کا سر باہر نکالنا حملہ آوروں کے لیے غیبی امداد ہوئی اور ایک نے پستول سے ان پر فائر بھی کیے۔ تاہم میڈیکل رپورٹ کہتی ہے کہ بینظیر بھٹو کو گولی نہیں لگی تھی۔ گاڑی کے اندر موجود ناہید خان اور دیگر بھی یہی کہتے ہیں کہ جب بینظیر گاڑی میں گریں تو وہ مر چکی تھیں۔ اس لیے بہت ساروں کے نزدیک گاڑی کا ہک ہی ان کے دماغ کو اتنا نقصان دے گیا تھاکہ ان کی موقع پر موت ہو گئی۔ اس طرح ڈرائیور نے عقل مندی کی اور گاڑی روکنے کی بجائے وہ ٹائروں کے رم کے زور پر ہی گاڑی لے گیا۔ تاہم چاندنی چوک کے نزدیک شیری رحمن کے ڈرائیور کی حاضر دماغی کام آئی کہ وہ گاڑی لے کر پیچھے آرہا تھا ۔ اس گاڑی میں بینظیر بھٹو کو ہسپتال لے جانے کی خاطر شفٹ کیا گیا۔
اس لیے اس تھیوری میں کوئی جان نہیں ہے کہ بینظیر بھٹو سر نہ نکالتیں تو بچ جاتیں۔گاڑی میں سوار ہونے سے قبل بھی تو وہ کتنی دیر کھلے عام مجمع سے خطاب کرتی رہیں اور سب کے سامنے سیڑھیاں اتریں۔ تب تو سر سمیت ان کا پورا جسم نشانے پر تھا۔ اگر ایسی تھیوریوں پر یقین کر لیا جائے ‘ پھر تو دنیا میں جتنے لوگ اپنے مخالفین کے ہاتھوں عدالتوں کے احاطے میں مارے جاتے ہیں‘ان کے بارے میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ اپنے گھر پر رہتے اور اس جگہ نہ موجود ہوتے جہاں حملہ ہوا توبچ جاتے۔ اس طرح ابراہام لنکن بھی اگر تھیٹر میں ڈرامہ دیکھنے نہ جاتا تو گولی کا نشانہ نہ بنتا ۔ جان ایف کینیڈی بھی اگر گاڑی میں سفر نہ کررہا ہوتا اور وائٹ ہائوس میں آرام سے بیٹھا رہتا تو بچ جاتا۔ جنرل مشرف بھی اگر جی ایچ کیو کے اندر رہتے تو ان پر جھنڈا چیچی کے سفر کے دوران حملہ نہ ہوتا ۔ جنرل ضیاء طیارے پر بہاولپور نہ جاتے بلکہ گاڑی استعمال کرتے تو بچ جاتے۔ اگر انڈونیشین ائیرلائن کے مسافر گمشدہ طیارے کی بجائے کسی اور ایئرلائن کا ٹکٹ لیتے تو وہ بھی بچ جاتے۔
دنیا کی تاریخ میں جتنے بڑے لوگ قتل ہوئے ان میں سے اکثریت کو اپنے گھروں سے باہر نشانہ بنایا گیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حکمت عملی سے بہت سارے حملے ناکام بھی بنائے جاتے رہے ہیں۔ افغانستان کے حامد کرزئی کی مثال دی جاسکتی ہے کہ وہ بارہ برس تک افغانستان کا سربراہ رہا۔ اسے طالبان نے قتل کرنے کے لیے درجنوں حملے کیے لیکن وہ ہر دفعہ بچ گیا کیونکہ امریکی گارڈز اس کی حفاظت پر مامور تھے جو پروفیشنل لوگ تھے۔ بینظیر بھٹو کی بدقسمتی کہ جو گارڈز ان کو فراہم کیے گئے وہ سب پیپلز پارٹی کے جیالے تھے جنہیں سکیورٹی معاملات کا ککھ پتہ نہیںتھا ۔ وہ سب جان دے سکتے تھے لیکن وہ اپنے لیڈر کی جان بچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ بینظیر بھٹو کو جب علم تھا کہ انہیں بعض قوتیں مارنا چاہتی ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ پروفیشنل گارڈز ساتھ رکھتیں جو مجمع کو ان کے قریب نہ پھٹکنے دیتے۔ وہ خود جیمرز خرید سکتی تھیں۔ جس حاتم طائی سے انہیں دو گاڑیاں تحفے میں ملی تھیں‘ وہ انہیں جیمرز بھی لے کر دے سکتا تھا۔ بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی نے کنجوسی سے کام لیا اور ہر دفعہ رحمن ملک اس وقت کے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کو خط لکھ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتے رہے‘ نتیجہ جس کا افسوسناک نکلا۔
ویسے عرض ہے جنرل مشرف کی اس سر باہر نکالنے والی تھیوری کے تحت تو رومن جنرل سیزر بھی اپنی موت کا خود ذمہ دار تھا ۔ اپنے قتل کی صبح جب وہ سینیٹ میں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہونے لگا تھا تو اس کی بیوی نے اسے بہت روکنے کی کوشش کی تھی کہ وہ آج سینیٹ مت جائے کیونکہ اس نے خوفناک خواب دیکھا ہے۔ اس خواب میں اس نے دیکھا کہ سیزر ایک فوارہ بن چکا ہے اور اس میں سے پانی کی بجائے خون نکل رہا ہے اور رومن شہری اس میں اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ سیزر نے بھی خود اپنے آپ کو قتل کرایا ورنہ اگر بیوی کے خبردار کرنے پر اس دن گھر میں موجود رہتا تو یقینا بچ جاتا ۔۔!
مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ جن پاکستانی طاقتوں سے بینظیر بھٹو کشتیاں جلا کر ٹکر لے چکی تھیں ، اس کے بعد انہوں نے ہر حال میں الیکشن سے پہلے ہی قتل ہونا تھا‘ چاہے وہ گاڑی سے سر باہر نکالتیں یا اندر رہتیں۔۔!